ممتاز مصنف جناب سعید جاوید اپنی کتاب "اچھی
گزر گئی " میں لکھتے ہیں کہ میرے والد صدر پاکستان محمد ایوب خان کے اے ڈی
سی تھے۔ اس حوالے سے ایوب خان نے ہری پور اور ٹیکسلا میں واقع اپنی زرعی
اراضی کی نگرانی انہیں سونپ رکھی تھی ۔ایک مرتبہ جب و ہ صدر کی زمین کے
حوالے سے متعلقہ پٹواری کو ملے تو پٹواری کو اس بات کا علم رکھتے ہوئے بھی
کہ یہ صدر پاکستان کی زمین ہے ، پھر بھی اس نے رشوت مانگ لی ۔ جب یہ بات اے
ڈی سی نے ایوب خان کو بتائی تو ان کا خیال تھا کہ ایوب خان سیخ پا ہوکر اسے
گرفتار کرنے کا حکم جاری کردیں گے۔ لیکن انہوں پہلے قہقہہ لگایا پھر کہا
پٹواری جو مانگتا ہے اسے دے دو ۔ ورنہ وہ بدمعاش کاغذوں میں کوئی ایسا
قانونی سقم چھوڑ جائے گا کہ کچھ عرصے بعد ہم بری طرح مصیبت میں پھنسے ہوں
گے ۔یہ واقعہ اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ پٹواری ایسی بے رحم اور ظالم
مخلوق ہے جو کسی کو معاف نہیں کرتی ۔ ایک مرتبہ بہاولپورکے حاضر سروس ایس
پی پولیس سے ملاقات ہوئی۔ باتوں ہی باتوں میں پٹواری کا ذکر آگیاجو ان رشوت
مانگ رہا تھا ۔میں نے پوچھا ۔آپ اپنے ضلع کے سب سے بڑے پولیس افسر ہیں آپ
اسے حوالات میں بند کیوں نہیں کردیتے ۔ جب وہ حوالات کے ٹھنڈے فرش پر سوئے
گا تو خود ہی دماغ ٹھیک ہوجائے گا ۔ ایس پی نے نہایت رازدارانہ لہجے میں
کہا بیٹا تم نے پٹواری کا صرف نام ہی سنا ہے اس کی شکل نہیں دیکھی ۔اﷲ نہ
کرے تمہارا واسطہ زندگی میں کبھی پٹواری سے پڑے ۔ پٹواری وہ مخلوق ہے جو
کسی کے بھی قابو نہیں آتی ۔اس کے باوجود کہ وہ پانچویں سکیل کا بہت چھوٹا
سرکاری ملازم ہے۔قانونی طور پر وہ کرسی پر بھی نہیں بیٹھ سکتا اور زمین
پربیٹھ کر وہ عرش کے فیصلے کرتا ہے ۔ اگر میں اسے حوالات میں بند کردیتا
ہوں تو اس نے میری زمین دریائے ستلج میں پھینک دینی ہے جس کو دریا سے باہر
نکالنے کے لیے میری کئی نسلیں قبر میں اتر جائیں گی ۔ میں ایک پٹواری کو تو
گرفتار کر سکتا ہوں لیکن سارے پٹواری ایک ہی نسل اور خصلت کے انسان ہیں ۔انہوں
نے مزید کہا بیٹا تم نے کبھی مرے ہوئے سانپ کو دیکھا ہے ۔ سیانے کہتے ہیں
جیسے ہی سانپ کو مارو اس کی آنکھوں کوکچل دو کیونکہ مرے ہوئے سانپ کی
آنکھوں میں مارنے والے شخص کی تصویر فکس ہوجاتی ہے ۔ سپنی کو جب سانپ کی
موت کی خبر ہوتی ہے تو وہ مردہ سانپ کے اس کی آنکھوں میں جھانکتی ہے ،اسے
وہاں جس کی تصویر بھی نظر آتی ہے، سپنی اس کا پیچھا کرتے ہوئے اس تک پہنچ
جاتی ہے اور اسے ڈس کر موت کے گھاٹ اتار کر ہی سانس لیتی ہے ۔ مجھے ایس پی
انکل کی یہ بات اس لیے سچ معلوم ہوئی کہ جب میرے والد حبیب آباد ریلوے
اسٹیشن پر تعینات تھے تو وہاں ایک نوجوان کو سال کے بعد سپنی ڈسنے آ یا
کرتی ہے ۔مقررہ دن کو وہ جہاں بھی ہوتا سپنی وہاں پہنچ جاتی ۔ اس لیے اس نے
کتنے ہی شہر بدلے لیکن سپنی سے جان نہیں چھڑا سکا۔ اسی طرح اگر ایک پٹواری
ظالم اور بے رحم ہے تودوسرا اس سے بھی زیادہ بے رحم نکلتا ہے ۔جیسے ہر
انسان پٹواری نہیں بن سکتا اسی طرح ہر پٹواری انسان نہیں بن سکتا۔ یہ عہدہ
اورمقام ان لوگوں کے لیے ہے جونہ تو خدا سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی انہیں آخرت
کا ڈر ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر شریف آدمی انہیں ان کو منہ مانگی رشوت
دینے پر مجبور چلاآرہا ہے ۔ انہوں نے یہ واقعہ سناتے ہوئے ایک مصرعہ بولا "اتے
رب باری تے تھلے پٹواری"آسمانوں پر رب حکمرانی کرتا ہے اور زمین پر پٹواری
۔ حسن اتفاق سے میں بذات خود بھی الیکشن ڈیوٹی انجام دے چکا ہوں ۔ سیشن
کورٹ میں تمام پرائیڈنگ آفیسر کو بلا کر پولنگ سامان سمیت متعلقہ علاقے کے
پٹواری کے سپرد کردیاجاتا ہے ۔ پولنگ عملے نے کہاں رات گزارنی ہے ، کہاں سے
کھانے پینے کا سامان فراہم ہو گا ۔ یہ سب کچھ پٹواری کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
چونکہ ہر گاؤں کا نمبر دار پٹواری کا اسسٹنٹ کہلاتا ہے اس لیے وہ پٹواری کے
ہر مطالبے کو پورا کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ ایک دل جلے نے بہت خوب کہا کہ
جس طرح کراچی میں ایم کیو ایم کے سیکٹر کمانڈر، اپنے قائد کے جلسے کو
کامیاب بنانے کے لیے زبردستی اپنے ماتحت علاقے کے شناختی اکٹھے کرکے انہیں
یہ کارڈ جلسہ گاہ میں جلسے کے بعد لوٹتا تھا اسی طرح حکمرا ن پارٹی کے
جلسوں کو کامیاب بنانے کے لیے بھی پٹواریوں کا ہی سہارا لیا جاتاہے جو
سرکاری جلسوں کی رونق دوبالا کرتاہے ۔ بطور خاص پٹواری وہ بنیادی کڑی کانام
ہے جہاں سے رشوت کا آغاز ہوتا ہے ،اوراوپر تک حسب مراتب پہنچتی ہے ۔ایک بار
حضرت موسی علیہ السلام نے رب کریم سے پوچھا ۔اے باری تعالی میری امت کا
بدترین انسان کون ہے۔ اﷲ تعالی نے فرمایا کل صبح جو شخص تمہیں نظر آئے گا
وہی تیری امت کا بدترین شخص ہے ۔ جب صبح ہوئی تو حضرت موسی علیہ اسلام کو
ایک شخص دکھائی دیا جس کے کاندھوں پر ایک بچہ بیٹھا تھا ۔ حضرت موسی علیہ
السلام نے اس شخص کو دیکھ کر اﷲ تعالی سے پوچھا ۔میری امت کا بہترین شخص
کون ہے ۔اﷲ تعالی نے فرمایا جو شخص سورج ڈھلنے سے پہلے تمہارے پاس سے گزرے
گا ۔وہی تمہاری امت کا بہترین شخص ہو گا ۔جب سورج ڈھلنے کے قریب تھا تو جو
شخص صبح آپ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تھا وہی شخص اپنے بچے کو کندھوں پر
بیٹھائے آپ کے قریب سے گزرا ۔ موسی علیہ السلام نے اﷲ تعالی سے پوچھا صبح
تویہ شخص بدترین تھا لیکن اب یہ بہترین کیسے ہوگیا ۔اﷲ تعالی نے فرمایا صبح
جب وہ جنگل سے گزر رہاتھا کندھے پر سوار بچے نے باپ سے پوچھا ۔ابا جان اس
جنگل سے بھی کوئی چیز بڑی ہے ۔باپ نے کہا ہاں بیٹا ،پہاڑ جنگل سے بڑے ہیں ۔بیٹے
نے پھر پوچھا کہ پہاڑ سے بھی کوئی چیز بڑی ہے تو باپ نے کہا ہاں بیٹا آسمان
پہاڑ سے بڑا ہے ۔بیٹے نے پھر سوال کیا۔ ابا جان کیا آسمان سے بڑی کوئی
چیزہے باپ نے کہا۔تیرے باپ کے گناہ بڑے ہیں ۔ بیٹے نے ایک بار پھر سوال کیا
۔ابا کیا تیرے گناہوں سے بھی بڑی کوئی چیز ہے تو باپ نہیں کہا ہاں بیٹا رب
کی رحمت میرے گناہوں سے بہت بڑی ہے ۔ احساس ندامت کی یہ بات سن کر اﷲ تعالی
نے اس بدترین شخص کو بہترین شخص میں بدل دیا ۔ یہ واقعہ سنانے کامقصد یہ ہے
کہ پٹواری قوم ایک سے بڑھ کر ایک ظالم ،کرپٹ ، ضدی اور رشوت خور ہوتی ہے ۔
لیکن احساس ندامت ان کو چھو کر بھی نہیں گزری ۔ایک پٹواری ٹرانسفر ہوتا ہے
تو دوسرا اس سے زیادہ ظالم آتا ہے۔ شہباز شریف اراضی کا ریکارڈ
جتناکمپیوٹرائز کردیں پٹواری سے جان کبھی نہیں چھوٹ سکتی ۔ آج بھی مکانوں
اور زمینوں کی رجسٹریاں پٹواری کے جنکشن سے ہی ہوکر گزرتی ہیں جو چاہے تو
دس میل دور زمین کو اٹھاکر دریا میں پھینک دے یا دریا میں ڈوبی ہوئی زمین
کو کسی زرخیز مقام پر پہنچا دے۔ یہ لوگ نسل درنسل ہی بدترین ہیں ان کو کبھی
بہترین نہیں بنایا جاسکتا ۔جو لوگ ایک زرداری سب پر بھاری کہتے ہیں ان کو
شاید کبھی پٹواری سے واسطہ نہیں پڑا ۔جن کو واسطہ پڑتا ہے پھر وہ یہی نعرہ
لگاتے ہیں کہ ایک پٹواری سب پر بھاری ۔اﷲ سے پناہ ہی مانگنی چاہیئے کہ ان
سے کبھی واسطہ نہ پڑے اگر واسطہ پڑ جائے تو پھر نانی ضرور یاد آتی ہے ۔یہ
کسی قانون اور ضابطے کو نہیں مانتے اور نہ ہی خدا اور روز قیامت سے ڈرتے
ہیں ۔ان کے قلم میں جتنی طاقت ہے وہ اسے خلق خدا کے خلاف ہی استعمال کرتے
ہیں ۔ان کی جانب سے کبھی کسی کو ٹھنڈی ہوانہیں آئی ۔ |