پرعزم پاکستان ٹریننگ

مملکت خداد اد پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جو وقتاً فوقتاً اپنے بدلتے ترجیحات کی وجہ سے اپنی قومی پالیسیاں بدلتے رہے ہیں جس کی وجہ سے سماجی اور عوامی سطح پر ہزاروں قسم کے الجھن اور دوہرارویہ پایا جاتا ہے ان بدلتی ترجیحات کی وجہ سے آج معاشرہ لفظ’شدت پسند،انتہا پسند ‘، ’فرقہ اور مسلک ‘اور قومی بیانیہ کو سمجھنے سے قاصر ہیے اور اچانک آزادی ملنے والے الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے آج عوام سماج بیزار نظر آتی ہے قومی زہنیت اجاگر کرنے کی بجائے قومی میڈیا بسااوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کی ترجمانی کر رہاہو۔۔ عوامی سطح پر ان مسائل پر قابو پانے کے لئے وفاقی وزارت اطلاعات اور پاکستان پیس کولیکٹو(PPC-Pakistan Peace Collective) کے اشتراک سے مختلف منصوبے شروع کئے گئے جن کا مقصد عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنا تھا۔ان ہی منصوبوں میں ایک منصوبہ پرعزم پاکستان ٹریننگ تھا۔اسلام آباد میں منعقدہ اس ٹریننگ سیشن کی افتتاحی تقریب میں چیف ایگزیکٹوپاکستان پیس کولیکٹوز بشریٰ تسکین نے اس ٹریننگ کی اہمیت ، مقصد اور افادیت سے آگاہ کیا جبکہ چئیرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمدنے یونیورسٹی کے طلباء کے لئے تنازعاتی رپورٹنگ پر کورس کی تشکیل کا اعلان کردیا تاکہ طلباء تنازعات کے دوران اپنے پیشہ کے تقاضے سے ہم آہنگ ہوں۔اس موقع پر چیف آپریٹنگ آفیسر پی پی سی شبیر انور بھی موجود تھے ۔

پرعزم پاکستان ٹریننگ میں ملک بھر سے 22کے قریب جامعات کے طلبہ و طالبات نے شرکت کی قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت کے شعبہ ابلاغیات سے راقم اور نازیہ پروین(جس پر اپنے ڈیپارٹمنٹ کا شکریہ ) ، یونیورسٹی آف پشاور سے عمیر احمد،سیدہ ماہ نور شاہ اور نازش خٹک، پنجاب یونیورسٹی سے علی ممتاز اور اویس احمد ، نیشنل کالج آف آرٹس(NCA) سے اشعر خالد،موسیٰ یاوری اور ڈینیل اسعدی(جرمن طالبعلم)، فیڈرل اردو یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ سائنس و ٹیکنالوجی سے حسنین رسول سولنگی اور مصباح مشتاق ملک ، سردار بہاررخان یونیورسٹی کوئٹہ سے حمنہ ملک اور سمین صدیق ، فاطمہ جناح یونیورسٹی اسلام آباد سے روقیہ ، انعم ، صدف اور قراۃ العین، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے ثنا نیازی ،گومل یونیورسٹی سے سلمان خان ،خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک سے باسط سلطان، مالاکنڈ یونیورسٹی سے خورشید انور اور بلندہ خان، بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی سے فہد ملک ، اقرا یونیورسٹی سے فاطمہ، غاشیہ قاسم اورزبیر ،یونیورسٹی آف کراچی سے سید ہ افرہ اور حسن منہاج سمیت دیگر جامعات کے بڑی تعداد میں طلباء نے شرکت کی۔۔ ان طلبہ کو ان کے یونیورسٹی کے متعلقہ جامعات کے چیئرمین کی جانب سے منتخب کیا گیا تھا۔۔۔۔

اس ٹریننگ میں درج اول تمام مسائل پر سیر حاصل گفت و شنید ہوئی اس ٹریننگ میں شرکاء کی رہنمائی کے لئے محمد اکمل خان صاحب ، عثمان ظفر صاحب، طاہر عمران میاں صاحب ، فیضان گل ، صہیب، امان اﷲ ، اور زوباریہ سمیت PPCکے دیگر زمہ داران ہمہ وقت موجود رہے۔ جن سے ہر الجھن کا حل(Solution) ملتا رہا۔اس ٹریننگ میں ابتدائی طور پر بیانیہ کی تعریف کی گئی کہ بیانیہ ہوتا کیا ہے اور قومی بیانیہ کو کس انداز میں بنانا اور اجاگر کرناپڑتا ہے اور میڈیا کے طالبعلم کی حیثیت سے ہمیں دوران حادثات کن امور کی دیکھ بھال کرنا ضروری ہے۔

بیانیہ صحیح معنوں میں کئی واقعات کی ایک داستان ہوتی ہے بیانیہ میں حکایات ،دیومالا،کہانیاں، متھ(ایسے خیالات جن کا وجود ہوتا ہے مگر حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا ہے )جیسی روایتوں سے بھی سرا ملتا ہے اور بیانیہ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے کسی خاص وقت میں بیانیہ کچھ اور ہوتا ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی ہیں جیسے ماضی میں انتہا پسند اور دہشتگرد کی تعریف کچھ اور تھی قومی سطح پر بدلتے وقت کے ساتھ اس کی تعریف بھی تبدیل ہوگئی۔قومی بیانیہ بنانے کے لئے حکومت ،ریاست اور عوام کے درمیان دوریوں کو کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ریاستی پالیسیوں کے مطابق ہی قوم اپنے امور سرانجام دیں اس کی ایک مثال یوں ہے کہ ماضی میں عوام کے جیب سے مختلف شکلوں میں جمع کیا جانے والا دو تہائی چندہ تخریب کاریوں کے لئے استعمال ہوتا رہا جس کو کم کرنے کے لئے پی پی سی نے ہی حق حقدار تک نامی عوامی شعوری مہم کی ابتدا ء کی اور یہ باور کرایا کہ چندہ دل کھول کر دیا جائے مگر تحقیق کے بعد۔۔۔ کیونکہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں اول درجوں میں ہوتا ہے جہاں پر خیراتی رقم سب سے زیادہ دی جاتی ہے۔۔۔

اس ٹریننگ میں قومی سطح پر مذہبی بیانیہ اور مذہب کے نام پر انتہا پسندی اور شدت پسندی پر معروف صحافی و اینکر پرسن جناب خورشید ندیم صاحب کے ساتھ دو گھنٹے کی طویل اور انتہائی مفید نشست رہی خورشید ندیم کی مذہب، فرقہ اور مسلک کی تفریق ایک حقیقت پسندانہ اور تاریخی روایات سے بھرپور تھی۔ سماجی بیانیہ یعنی دہشتگردی کی تعریف میں ہم کہاں غلط کھڑے ہوتے ہیں کے موضوع پر معروف سکالر جناب منظر زیدہ کا لیکچر تھا۔ میڈیا کا دہشتگردی اور شدت پسندی پر بیانیہ پر معروف اینکر پرسن و سینئر صحافی جناب عامر متین صاحب کا لیکچر تھا جنہوں نے پاکستان کے جغرافیہ اور میڈیا میں ہونے والے معاملات پر معلومات سے بھرپور لیکچر دیا جناب عامر متین صاحب سے گلگت بلتستان کے حوالے سے بھی راقم نے سوال اٹھایا جس پر عامر متین کا حوصلہ افزا جواب موصول ہوا جبکہ پاکستان کے چاروں صوبوں بڑے شہروں سمیت قبائلی علاقوں پر عامر متین نے اپنا تجربہ سامنے رکھا جو کہ یقینا انوکھا اور ایسا تھا کہ جسے پہلے کسی نے نہ سنا گیا ہو۔زرائع ابلاغ کو استعمال میں لاتے ہوئے قومی بیانیہ کو بنانے کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے قانونی امور بیرسٹر ظفر اﷲ خان کا لیکچر تھا بیرسٹر ظفر اﷲ خان اس سے قبل مختلف اعلیٰ سرکاری عہدوں پر بھی اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں انہوں نے قومی پالیسیوں پر مفصل روشنی ڈالی جن میں وہ ریاستی پالیسیاں بھی تھیں جن کی وجہ سے مملکت خداداد پاکستان میں دہشتگردی کا تصور سامنے آیا۔ان سارے نمایاں شخصیات نے قومی زہنیت کو سامنے رکھ کر مثالیں دی اور اپنی گفتگو کی۔

بیانیہ کے علاوہ جس اہم اور قیمتی رخ پر توجہ رہی وہ ٹیکنیکل ڈویلپمنٹ تھی۔ میڈیا کے لئے ہونے والی کسی بھی رپورٹ کے معیار اور اس کے کاغذی مرحلے اور ایک رپورٹ کے مختلف زاویوں سمیت مقامات کے انتخاب پر بی بی سی کے سوشل میڈیا انچارج طاہر عمران میاں نے لیکچر دیا۔ سنگل کیمرا پروڈکشن (پروڈکشنA to Z) پر نیشنل کالج آف آرٹس کے توصیف زین العابدین ،کاؤنٹر نگ وائلنٹ ایکسٹریمزم(انسداد شدت پسندانتہا پسندی) بذریعہ زرائع ابلاغ پر امتیاز گل ، شدت پسندی پر تصویری کہانی بنانے پر شاہد محمود ندیم ، اور دہشتگردی سے متعلقہ رپورٹ میں انٹرویو کے ٹیکنیک اور تصویری کہانی کے زریعے انتہا پسند ی کے سدباب کے رپورٹ پر بی بی سی کے آصف فاروقی نے لیکچر دیا۔فیلڈ پروڈکشن کے تیکنیکی اور نئے مراحل پر معروف ہدایت کار و فلم ساز سرمد سلطان کھوسٹ جبکہ فیلڈ پروڈکشن کے دوران کیمرا تیکنیک پر شکیل عدنان کے ساتھ نشست تھی۔ پوسٹ پروڈکشن (پروڈکشن کاآخری مرحلہ ) پر نیشنل کالج آف آرٹس کے حسیب احمد(لالا) نے لیکچر دیا جبکہ کسی رپورٹ میں آڈیو اور موسیقی کے دخل اور اہمیت پر فرحان مشتاق(فرحان مشتاق صاحب اس سے قبل ریڈیو پاکستان گلگت میں اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں اور ریڈیو پاکستان گلگت کے لئے اپنے نیک تمناؤں کااظہار بھی کیا)نے لیکچر دیا۔ آلات کے انتخاب پر سید جاوید کاظمی (تمغہ امتیاز ) جبکہ رپورٹ میں روشنی(Light) کے استعمال پر شاہد افضال بٹ ہمارے درمیان موجود رہے اس دوران معروف ڈرامہ نگار اور پروڈیوسر ایوب خاور صاحب طلبہ سے اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے متعلقہ لیکچر(تصویری کہانی اور کاغذی مراحل ) کے علاوہ بھی طویل دورانیہ تک ہمارے ساتھ رہے ایوب خاور ایک پختہ اور باصلاحیت شاعر بھی ہیں اور ان کی دو کتابیں بھی مارکیٹ میں موجود ہیں جبکہ ایک مرحلے میں انہوں نے گلگت بلتستان کے شعراء کی بھی بھرپور تعریف کی۔۔عثمان ظفر نے سٹریٹجک کیمیونکیشن اور خادم حسین ،اکبر شیرازی صاحب نے پراڈکٹ ڈیویلپمنٹ پراسس پر خطاب فرمایا تھا۔۔۔
مختلف جامعات کے شعبہ ابلاغیات سے وابستہ طلبہ کو درج بالا زہنی اور تکنیکی سہولیات کے علاوہ جوبات نمایاں رہی وہ پاکستان بھر کے جامعات (یونیورسٹی) کے طلبہ و طالبات کے مابین ہم آہنگی تھی یہ باتیں راقم نے اختتامی تقریب میں اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے بھی کیا۔اور یہ ہم آہنگی یقینی طور پر درج اول ’بیانیہ ‘ کے ساتھ جڑی ہے اگر ملک کے جامعات کا آپس میں ہی ہم آہنگی نہ ہو تو یقینی طور پر مستقبل اور عملی میدان میں بھی مسائل کا سامنا ہونا تھا کئی انٹرایکٹو سیشنز میں تمام طلبہ کو علاقوں کی نمائندگی کرنے کا موقع بھی ملااور وہاں درپیش مسائل کا زکر بھی ہوا۔۔۔ پرعزم پاکستان کے ٹرینرز، آفیشلز اور وفاقی وزارت اطلاعات کی یہ کاوش یقینی طور پر قابل تحسین ہے میرے گمان کے مطابق یہ ریاستی اور قومی سطح پر پہلا منصوبہ ہے جس سے عوام اور ریاست کے مابین فاصلے کم ہوجائیں گے اور مستقبل میں میڈیا کو جوائن کرنے والے طلبہ کے لئے بھی ایک ’سبجیکٹ ‘ کی طرح اہم ہوگا۔۔۔ دعا ہے کہ پر عزم پاکستان کا کاوشیں جلد رنگ لے آئیں اور امید ہے کہ ایسے ٹریننگ سیشنز جاری رہیں گے اور جلد عوام تک پہنچ جائیں گے۔۔۔۔
Faheem Akhtar
About the Author: Faheem Akhtar Read More Articles by Faheem Akhtar : 46 Articles with 30566 views Student of media and communication .. View More