ایم فل کا کریز
(A Waseem Khattak, Peshawar)
ملک
بھر کی تمام یونیورسٹیوں میں ایم فل اور ایم ایس میں داخلہ لینے والے طلباء
کی تعداد میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اگر2010کے بعد یونیورسٹیوں
کاریکارڈ اٹھا کردیکھیں تو اس وقت یہ صورتحال نہیں تھی اب ہر طالب علم اپنی
تعلیم کو بہتر کرنے کے لئے اعلی تعلیم حاصل کر رہا ہے اور کہیں نہ کہیں پر
کسی نہ کسی طریقے سے خودکو ایم فل اور ایم ایس میں انرول کردیا ہے ، کیونکہ
ان کے بقول ایم اے کی ڈگری کی اب وہ وقعت نہیں رہی اب ملازمت میں ایم فل
اور ایم ایس کی ڈگری مانگی جا رہی ہے جس کے لئے پاکستان میں پرائیویٹ
تعلیمی اداروں نے اودھم مچائی ہوئی ہے اور دھڑا دھڑ ایم فل اور ایم ایس کی
ڈگریاں طالب علموں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹی جارہی ہے جس سے اعلی تعلیم
حاصل کرنا بھی اب ایک مذاق بن گیا ہے کیونکہ جب ملک میں تعلیم، تعلیم کے
بجائے کاروبار بن جائے وہاں ڈگری ہولڈر پیدا ہوتے ہیں اعلی تعلیمی شعبہ میں
ترقی کی جڑیں پرویز مشرف کے دور میں جاتی ہیں اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے
پہلی بار ملکی تاریخ میں تعلیمی کاروبار میں داخل ہوئے اور یہاں اچھی خاصی
رقم لگائی یہ رقم ریاست نے نہیں، بلکہ ملکی سرمایہ داروں کے ٹولے نے کی۔
ایک دہائی قبل تو اس سارے عمل کو بہت زیادہ پذیرائی ملی کہ ملک میں تعلیمی
ادارے کھل رہے ہیں لیکن سرمایہ داروں کے خمیر میں جو بے ایمانی شامل تھی،
تعلیمی اداروں میں اس کا عملی مظاہرہ کیا گیا سرکاری اداروں کو بھی فعالیت
ملی اور اساتذہ کو بیرون ملک تحقیق کے لئے بھیجا گیاجہاں سے انہوں نے
ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں لیں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا ادارہ بنایا گیا جس میں
اقربا پروری کی گئی مگر ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کی
تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا اس وقت ملک بھر 173 اعلیٰ تعلیمی ادارے کام
کر رہے ہیں، جن میں سے 72 نجی یونیورسٹیز شامل ہیں۔ جو بی اے سے لیکر ماسٹر
کی ڈگریاں دے رہے تھے اب وہی پرائیویٹ ادار ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں
بھی دے رہے ہیں کیونکہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری موجودہ دور میں لوگوں
کی ضرورت بن گئی ہے،کیونکہ سرکاری و نجی ملازمتوں اور پروموشنز کے لیے ان
ڈگریوں کی شرط عائد کر دی گئی۔ اس ضرورت کا سب سے زیادہ فائدہ نجی
یونیورسٹیز نے اُٹھایا اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کے پارٹ ٹائم پروگرام
متعارف کروائے گئے، حتیٰ کہ ایسی جامعات بھی ہیں جو ایم فل کی کلاس ہفتے
میں صرف ایک دن کرواتی ہیں۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے اب مافیا کی شکل
اختیار کر لی ہے، اور اعلیٰ تعلیم کو بھی مارکیٹ میں صرف ڈگری فروخت کرنے
کی حد تک محدود کر دیا گیا ہے۔سرکاری یونبورسٹیوں کی دیکھا دیکھی اب
پرائیویٹ یونیورسٹیوں نے بھی دکانداری شروع کردی ہے جس کی وجہ سے پاکستان
میں اعلیٰ تعلیم کا معیار تیزی سے گر رہا ہے، اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کی
ڈگریوں پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔کچھ عرصہ قبل ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان
نے ملک بھر میں بتیس ایسی پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی نشاندہی کی ہے جو اعلیٰ
ڈگریوں کے ساتھ فراڈ کر رہی ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ایچ ای سی کو
وارننگ دینی پڑی کہ اگر ان ڈگریوں کو فوری طور پر بند نہ کیا گیا، تو پھر
ان ڈگریوں کو ایچ ای سی تسلیم نہیں کرے گی۔ان یونیورسٹیوں میں ایم فل اور
پی ایچ ڈی کے داخلوں کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں، جن میں طلباء کی
تعداد ضوابط سے کئی گنا زیادہ اور مستقل فیکلٹی کا نہ ہونا سرفہرست ہے۔ جس
میں انٹر بیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد بھی شامل ہے اس کے علاوہ
سائنسی مضامین کے لیے ریسرچ لیبز کے بغیر ہی ڈگریاں کروائی جارہی ہیں جس کا
ایچ ای سی نے سخت نوٹس لیا ہے اگر آج دیکھا جائے تو ملک بھر میں نجی
یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی میں تھوک کے حساب سے داخلے کیے گئے
ہیں ، اور اس کا مقصد تعلیم عام کرنا نہیں، بلکہ تعلیم کو کاروبار بنا کر
اس سے منافع کمانا ہے ۔ ان داخلوں میں نہ تو کوئی میرٹ ہے، نہ ہی کوئی
فارمولا، بس ڈگری خریدنے کے پیسے ہونے چاہیے۔ جہاں سرکاری تعلیمی اداروں
میں اب بھی معیار باقی ہے، اور داخلے کی شرائط کڑی ہیں، تو وہیں ان نجی
یونیورسٹیوں میں ہر اس شخص کو داخلہ دے دیا جاتا ہے جو فیس بھر سکتا ہو۔اس
طرح ہر طالب علم اب ایم فل اور پی ایچ ڈی میں داخلہ لے رہا ہے اس وقت خیبر
پختوا میں مجموعی طور پر پرائیویٹ یونیورسٹیوں سیمت سرکاری یونیورسٹیوں کی
تعداد30سے زیادہ ہے جس میں اگرایک اندازہ لگایا جائے تو ہر یونیورسٹی میں
دس شعبہ جات ہیں جبکہ بڑی یونیورسٹیوں میں شعبوں کی تعداد 30سے زیا دہ ہے
اور ہر یونیورسٹی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی میں داخلے ہورہے ہیں جس میں
پانچ سے دس طلبا ء وطالبات ہر سال داخلہ لے رہے ہیں اور یہ حساب گزشتہ چھ
سالوں سے لگایا جائے تو تعداد کتنی بنتی ہے ؟ اور ان میں سے کتنے طالب
علموں کو ڈگریاں ملی ہیں اور کتنوں کو ان ڈگریوں سے ملازمتیں ملی ہیں ، ان
کے تحقیقی مقالوں کی حیثیت کیا ہے اور ان تحقیقی مقالوں سے حکومت کو اور
عام عوام کو کیا فائدہ ملا، کیونکہ دیکھنے میں آرہا ہے کہاعلیٰ تعلیم کے
ساتھ ملکی سرمایہ دار کھلواڑ کر رہے ہیں، اس سے نہ طلباء کو کوئی فائدہ
ہورہا ہے، اور نہ ہی ملکی معیشت کو۔ بلکہ بے روزگاروں کی ایک ایسی فوج تیار
ہو رہی ہے جو نوکریاں نہ ملنے کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہیں اگر ملک بھر میں
جاب مارکیٹ کی جانب توجہ نہیں دی گئی اور فارغ التحصیل طلباء وطالبات کے
لئے ملازمتوں کے مواقع پیدا نہیں کئے گئے تو ملک بھر میں ڈگریوں کے حصول کے
لئے لوگ داخلے لیں گے اور یوں بیروزگاروں کی فوج تیار ہوتی رہیں گی، جو
معیشت کی ترقی میں ہاتھ بٹانے کے بجائے صرف بوجھ بنے گی
|
|