ویلنٹائن ڈے ۔۔۔اور ۔۔۔ہماری زندگی
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
ویلنٹائن ڈے کی حقیقت پر بات کرنی ایسے
فضول ہے کہ جیسے منہ سے ویلنٹائن نکالتے ہی سر شرم سے جھک کر اپنے آپ سے
سوال کرنے لگتا ہے کہ کیا تم مسلمان ہو۔۔۔؟ ؟؟بڑی شرم و غصہ کے ساتھ یہ بات
کرنی پڑ تی ہے کہ ہمارے آنے والی (بعض )نوجوان نسل کو کسی بھی قسم کا کوئی
بھی اسلامی تہوار مناتے ہوئے توشرم محسوس ہوتی ہے ۔۔۔مسجد میں بیٹھ کر قاری
صاحب سے نماز کا سبق ٹھیک کرنے میں انکو شرم محسوس ہوتی ہے۔۔۔ چہرے کے اوپر
سنت رسول ﷺ (داڑھی مبارک) سجانے سے شرم محسوس ہوتی ہے۔۔۔نماز کے لیے مسجد
جانا اور سر پر ٹوپی پہن لینے سے شرم محسوس ہوتی ہے۔۔۔کسی ا ندھے کو سڑک
پار کروانے سے شرم محسوس ہوتی ہے۔۔۔ کسی بوڑھی عورت کا سامان اُٹھا کر لے
جانے سے شرم محسوس ہوتی ہے۔۔۔ تبلیغ اسلام کی کسی بھی سرگرمی میں شامل ہونے
سے شرم محسوس ہوتی ہے۔۔۔ اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جانے سے شرم
محسوس ہوتی ہے۔۔۔اپنی بہن کو سکول کالج یا مدرسے تک چھوڑنے سے شرم محسوس
ہوتی ہے۔۔۔ باپ ایک گلاس پانی مانگ لے تو دینے میں شرم محسو س ہوتی
ہے۔۔۔کسی کے جنازے کو کندھا دینا تو درکنار جنازہ (معذرت کے ساتھ اگر آتا
بھی ہو تو)پڑھنے میں شرم محسو س ہوتی ہے۔۔۔مگر ادھر ایک بات کرتا جاؤں کہ
نہیں شرم آتی ہم کو تو انگریزوں کے تہواروں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنی
تہذیب و تمدن کا حصہ بناتے ہوئے بلکہ یہ بات یہاں تک ہی محدود ہو تو سہی
مگر ہم ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ان تہواروں میں اس فخریہ انداز سے حصہ لیتے
ہیں جیسے یہ ہمارے لیے باعث ِثواب ہو ۔ مغربی روایات کی تقلید کرتے ہوئے
سادہ لوح مسلمان بھی لا شعوری طور پر اس تہوار کو منانے کے خواہش مند نظر
آتے ہیں ، حالانکہ یہود و نصاریٰ اﷲ کے غضب و غصے کے مستحق ہیں اور ان کو
گمراہ قرار دیا گیا ہے۔اس تہوار میں ہونے والی جتنی بھی بے ہودیاں ہیں ان
کا ہمارا مذہب اسلام مذمت کرتا ہے ۔ میں قرآن مجید اور کچھ احادیث نقل کرتا
ہوں کہ جن میں صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے مذہب نے ہم کو کتنا پاکیزہ زندگی
عطا کی ہے اور تمام بے حیائی و فحاشی سے کس احسن طریقے سے روکنے کے احکامات
صادر فرمائے ہیں۔
جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے انکو دنیا
اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہو گا۔۔۔(سورۃ النور۔۔۱۹) ـاور تجھ سے
یہود و نصاری ہر گز راضی نہیں ہوں گے یہاں تک کہ وہ ان کی ملت کی پیروی کرے۔
کہہ دیجئے اﷲ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے ۔(البقرۃ:۱۲۰)تو کیا وہ اﷲ کے دین
کے علاوہ کچھ اور تلاش کرتے ہیں حالانکہ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے
خوشی اور ناخوشی سے اسی کا فرماں بردار ہے اور وہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں
گئے۔ آل عمران ۸۳اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے تو وہ اس سے
ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اُٹھانے والوں میں سے
ہوگا۔ آل عمران ۸۵نظر کے پیچھے نظر نہ لگاؤ (یعنی دوبارہ نہ دیکھ)تیرے لیے
پہلے (معاف)ہے دوسری نہیں ۔ ابوداؤد ۲۱۴۹کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ تنہائی
اختیار نہیں کرتا مگر ان دونوں کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے ۔ الترمذی ۱۱۷۱
جو عورت اپنے ولیوں کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اسکا نکاح باطل ہے تین
بار فرمایا۔ ابوداؤد ۲۰۸۳ اﷲ تعالیٰ نے ان دنوں کے بدلے تمہیں بہتر دن دیئے
ہیں عید الفطر اور عید الاضحی النسائی ۱۵۵۶جس نے کسی قوم (کے شعار) کی
مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے ۔ ابو داود ۴۰۳۱ اور اسی حدیث کے
تحت حسن صحیح میں حافظ ابن کثیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ "یہ
حدیث کفار کے اقوال و افعال ، لباس ، تہوار ، عبادات اور ان کے علاوہ دیگر
امور میں مشابہت اختیار کرنے پر وعید اور سخت ممانعت پر دلالت کرتی ہے جو
شریعت نے ہمارے لیے مشروع و جائز قرار نہیں دیئے ہیں۔"حیا اور ایمان اکھٹے
رہتے ہیں جب ان میں سے کوئی ایک اُٹھا لیا جائے تو دوسرا خود بخود اُٹھ
جاتا ہے۔ّالحدیث)
پادری ویلنٹائن تیسری صدی کے اوآخر میں روحانی بادشاہ کلا ڈیس ثانی کے زیر
حکومت رہتا تھا کسی نافرمانی کی بدولت بادشاہ نے پادری کو جیل بھیج دیا۔
جیلر کی لڑکی سے اس کی شناسائی ہو گئی اور وہ اسکا عاشق ہو گیا۔ وہ لڑکی
ایک سرخ گلاب کا پھول لے کر اس کی ملاقات کے لیے آتی تھی جب بادشاہ نے یہ
معاملہ دیکھا تو اسے پھانسی دینے کا حکم صادر کیا ۔ پادری نے آخری لمحات
میں بھی اپنی محبت کا اظہار اس انداز سے کیا کہ اپنی معشوقہ کے نام ایک
کارڈ ارسال کیا جس پر یہ عبارت تحریر کی:"مخلص ویلنٹائن کی طرف سے"۔پھر اس
کو ۱۴ فروری ۲۷۰ء کو پھانسی دے دی گئی ۔ اس کے بعد یورپ کی بہت سی بستیوں
میں ہر سال اس دن لڑکو ں کی طرف سے لڑکیوں کو کارڈ بھیجنے کا رواج چل
پڑا۔ہمارے ملک ِ پاکستان میں اس رسم و رواج کا آغاز 90ء کی دہائی میں ہوا
تھا اور اس کو اچھالنے اور شائع کرنے والے ہمارے ملک کے ذرائع ابلاغ نے بڑا
اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس غیر اسلامی و شرم حیا سے پیدل رسم و رواج کو ختم
کرنے کے لیے حکومت وقت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھی اپنا کردار ادا
کرے اور پابندی لگائی جائے اس کے علاوہ اس بڑھتی ہو ئی غیر رسمی و غیر
اخلاقی تہوار کو ہم سب کا مسلمان ہونے کے ناطے فرض بنتا ہے کہ اس کو روکنے
کے لیے اقدامات کریں ٹی وی و ریڈیو چینلز کو ،جیسے اسے پروموٹ کیا تھا اب
وہ ہی اس غیر اسلامی دن کے خلاف اقدامات کریں اور اسلام میں اس کی کوئی بھی
شرعی حیثیت نہ ہونے کے بار ے میں عوام الناس کو آگاہ کریں، سکول میں اساتذہ
کا کا م ہے کے وہ بچوں کو انتباء کریں ، گھر میں والدین کا کام ہے کہ وہ
اپنی اولاد کو اس رواج سے روکیں، دوستوں کا کام ہے کہ وہ اپنے دوستوں سے اس
رواج سے اجنتاب برتنے کی کوشش کروائیں حتی کہ ہر فرد کی بطور ِ مسلمان ہونے
کے ناطے ذمہ داری نبائے اور اپنا مثبت کردار پیش کر کے اپنے معاشرے سے اس
برائی کو نکال باہر کریں ۔ یہ ہی اہم شناخت ہے کہ ہم یہود و نصاریٰ کے دوست
نہیں بلکہ ہم صرف اور صرف مسلمان ہیں ۔۔۔۔ اور کچھ نہیں ۔۔۔اور مسلمان ہونے
کے ناطے ہماری معاشرے میں بہت سی ذمہ داریاں ہیں جن کو ہم نے پسِ پشت ڈال
دیا ہے۔۔۔اور اگر ہم کو کوئی ان سے چھٹکا را حاصل کرنے کا بول د ے تو ہم اس
کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اپنے اندر جھانک کر دیکھو اور بدلو اپنے آپ کو
۔۔۔ یہ ہی ہماری کامیابی کا راز اور ہماری کامیابی کی بنیاد ہے۔ |
|