تحریر:
ثمرین یعقوب، کوہاٹ
’’تمہارا قد کتنا چھوٹاہے‘‘۔ ارے بہن تم تو ناراض ہی ہوگئیں۔ میں تو صرف
مذاق کر رہی تھی۔ مذاق کے لبادے میں لپٹے ہوئے طنز نجانے کتنے افراد کی
زندگیوں کی خوشیاں چھین چکے ہیں۔ ایک مسلمان پر جس طرح دوسرے مسلمان کی جان
اور اس کے مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے اسی طرح اس کی عزت اور آبرو پر
حملہ کرنا بھی قطعا ناجائز ہے۔ عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کے کئی طریقے
ہیں۔ ان میں ایک اہم طریقہ کسی کا مذاق اڑانا ہے۔ مذاق اڑانے کا عمل دراصل
اپنے بھائی کی عزت و آبرو پر براہ راست حملہ اور اسے نفسیاتی طور پر مضطرب
کرنے کا ایک اقدام ہے۔ اس تضحیک آمیزرویے کے دنیا اور آخرت دونوں میں بہت
منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔ چنانچہ باہمی کدورتیں، رنجشیں، لڑائی جھگڑا،
انتقامی سوچ،بدگمانی، حسد اور سازشیں دنیا کی زندگی کو جہنم بنادیتے ہیں۔
دوسری جانب اس رویے کا حامل شخص خدا کی رحمت سے محروم ہوکر ظالموں کی فہرست
میں چلا جاتا ، اپنی نیکیاں گنوابیٹھتا اور آخرت میں خود ہی تضحیک کا شکار
ہوجاتا ہے۔ اس تربیتی مضمون کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس رویے کی سائنٹفک
انداز میں وضاحت کی جائے۔ اس کے اسباب جانے جائیں اور اس سے بچنے کے لیے
عملی مشقیں مکمل کی جائیں تاکہ دنیا و آخرت میں اﷲ کی رضا کو حاصل کیا
جاسکے۔
مذاق اڑانے کی قرآن و حدیث میں ممانعت
یہ رویہ اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ اﷲ نے اس کو براہ راست موضوع بنایا ہے۔
چنانچہ سورہ الحجرات میں واضح طور پربیان ہوتا ہے۔ ’’اے ایمان والو! نہ
مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں
اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں کیا عجب وہ ان سے بہتر نکلیں۔ (الحجرات
11:49)
مذاق اڑانا ایک شخص کی تحقیر کرنا اور اسے بے عزت کرنا ہے۔ اسی لیے روایات
میں کسی کی آبرو کو نقصان پہچانے کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ حضرت
علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
’’جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرے گا تو اس پر اﷲ فرشتوں اور تمام
لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوگی (صحیح
بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 440 ) ۔ مذا ق اڑانے کا عمومی مقصد کسی مخصوص شخص
کی تحقیر کرنا اور اسے کمتر مشہور کرنا ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے تکبر کا رویہ
کارفرما ہے۔ دوسری جانب تکبر ہی قرآ ن و حدیث میں سخت الفاظ میں مذمت بیان
ہوئی ہے۔
عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا
وہ جنت میں نہیں جائے گا اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے
کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جو تی بھی اچھی ہو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے تکبر تو
حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔ (
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 266)
ایک اور روایت میں بھی اس رویے کی بالواسطہ مذمت ہوں بیان ہوئی ہے۔ حضرت
ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا ’’تم لوگ ایک
دوسرے پر حسد نہ کرو اور نہ ہی تناجش کرو (تناجش بیع کی ایک قسم ہے) اور نہ
ہی ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ ہی ایک دوسرے سے رو گردانی کرو اور تم میں
سے کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اﷲ کے بندے بھائی بھائی ہو جاؤ
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا
ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے سینہ مبارک
کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا تقویٰ یہاں ہے کسی آدمی کے برا
ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ایک مسلمان
دوسرے مسلمان پر پورا پورا حرام ہے اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی عزت
و آبرو‘‘۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2044)
مذاق اڑانے کا منطقی نتیجہ کسی شخص کی دل آزاری کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس
ایذا رسانی کی بھی ان الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ عبداﷲ بن عمرو نبی صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذاء نہ پائیں‘‘۔ ( صحیح
بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 9 )
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا مزاح
اس ضمن میں ہمیں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے مدد لینی
چاہیے۔ آپ اپنے اصحاب اور ازواج سے مزاح کیا کرتے تھے۔ اس بات سے ان خشک
مزا ج اہل علم کے اس نظریے کا انکار ہوتا ہے جس کے تحت وہ حضرات مذاق کو
ایک شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوہ سے مذاق کے
تمام حدود و قیود کا علم ہوتا ہے۔ چند احادیث و آثار ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو
کبھی سارے دانت کھول کر اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کا حلق نظر آنے
لگے، بلکہ آپ صرف تبسم فرماتے تھے۔ (بخاری : حدیث :۵۲۰۱)اس حدیث کامطلب یہ
نہیں کہ قہقہ لگانا ممنوع ہے لیکن بہر حال ایک سنجیدہ مزاج شخصیت کو ٹھٹھے
مار کر ہنسنا زیب نہیں دیتا۔
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے صحابہ نے کہا کہ اے
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم آپ ہم سے خوش طبعی کی باتیں کرتے ہیں۔ آپ نے
فرمایا (ہاں لیکن) میں حق بات ہی کہتا ہوں۔ (ترمذی حدیث۶۵۰۲) اس حدیث کا
مفہوم یہ سمجھنا چاہیے کہ مذاق میں بھی کوئی جھوٹ، فحش یا غیر اخلاقی بات
کرنا جائز نہیں اور جو بات ہو وہ حق ہو۔
حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سواری طلب
کی تو آپ نے (مذاق میں) اس سے کہا کہ میں تو تمہیں اونٹ کا بچہ دونگا۔ اس
شخص نے کہا کہ میں اونٹ کے بچے کا کیا کرونگا۔ آپ نے فرمایاکہ ہر اونٹ کسی
اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔ (ترمذی حدیث صحیح غریب :۶۵۰۲ )
حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت انس کو
کہا ’’ یا ذوالاذنین‘‘ یعنی اے دو کانوں والے۔ (ترمذی حدیث ۷۵۰۲) کیونکہ ہر
شخص کے دو کان ہوتے ہیں اس لیے اس میں تحقیر بھی نہیں اور تفنن طبع بھی ہے۔
حضرت حسن سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت آپ کے پاس آئی اور جنت
میں داخلے کی دعا کی درخواست کی۔آپ نے فرمایا کہ بوڑھی عورت جنت میں داخل
نہیں ہوسکتی۔ وہ روتی ہوئی واپس ہونے لگی تو آپ نے کہا کہ اس سے کہہ دوکہ
وہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہوگی بلکہ اﷲ تعالیٰ سب اہلِ جنت
عورتوں کو نوعمر کنواریاں بنا دیں گے اور حق تعالیٰ کی اس آیت میں اس کا
بیان ہے جس کا بیان ہے کہ ہم نے ان (جنتی) عورتوں کو خاص طرز پر بنایا ہے
کہ وہ کنواری ہیں۔(شمائل ترمذی: حدیث ۷۷۲)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذاق میں کسی کو ایذا پہنچانا تو جائز نہیں
جبکہ یہاں ان بوڑھی خاتون کو تکلیف ہوئی۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان محترمہ
بات کو غلط سمجھ بیٹھیں جس کی بنا پر انہیں دکھ ہوا۔ اگر وہ اصل مفہو م تک
پہنچ جاتیں تو انہیں دکھ نہ ہوتا بلکہ وہ خود بھی محظوظ ہوتیں۔
حضرت ابوسعید اور حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما ان دونوں حضرات سے
روایت ہے کہ انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
فرماتے ہیں کہ کسی مومن آدمی کے جب بھی کوئی تکلیف یا ایذاء یا کوئی بیماری
یا رنج یہاں تک کہ اگر اسے کوئی فکر ہی ہو تو اس سے اس کے گناہوں کا کفارہ
کر دیا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2067 )
مزاح کرنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ سیاست دانوں کے خلاف جو مذاق کیا جاتا
ہے وہ عام طور پر ان کی ناقص کارکردگی کے خلاف ایک احتجاج ہوتا ہے جس میں
دل کی بھڑاس نکالی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں سیاستدانوں کامذاق اڑانے پر کوئی
پابندی نہیں۔ لیکن جہاں تک اسلامی اقدار کا تعلق ہے تو سیاستدانوں کی ذاتی
زندگی کو نشانہ بناکر مذاق اڑانا ممنوع ہے۔
کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اگر ہم مذاق کی ان پابندیوں کا خیال رکھیں تو کیا
زندگی بالکل مزاح سے خالی اور روکھی پھیکی نہیں ہوجائے گی۔ یہ ایک شیطان کا
فریب ہے جبکہ حقیقت اس کے بر خلاف ہے۔ اگر ہم غور کریں تو علم ہوگا کہ
تفریح انسان کی ضروریات میں سے اہم ضرورت ہے۔ لوگ تفریح کرنے کے مختلف
انداز اختیار کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو شراب، شباب ، عریاں فلمیں ، فحش
گانے اور اس طرح لغویات میں خود کو مصروف رکھتے ہیں۔ دوسری جانب کچھ لوگ ان
لغویات سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے کھلی فضا کی تازگی، آسمان کی وسعت، پرندوں
کی چہچہاہٹ اورستھری کتابوں کی ورق گردانی سے محظوظ ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے
تو دونوں کا مقصد تفریح اور لطف کا حصول ہے اور دونوں اپنے مقاصد میں
کامیاب ہورہے ہیں۔ لیکن ایک کا طریقہ غلط اور دوسر ے کا درست ہے۔ یہی
معاملہ مذا ق کرنے کا بھی ہے۔ اگر ہم ناجائز مذاق کرنا ترک کردیں تو طبیعت
خوب بخود ستھرے اور شائستہ مزاح کا ذوق پیدا کرلے گی۔
کچھ لوگ بہت حساس ہوتے ہیں اور سیدھی بات کو بھی مائنڈ کرجاتے ہیں۔ ان سے
بات چیت کرتے وقت اور خاص طور پر مذاق کرتے وقت محتاط رہنا چاہیے کیونکہ یہ
کوئی مناسب رویہ نہیں کہ ہماری کسی جائز بات سے بھی بلا وجہ ہمارے بھائی کو
تکلیف پہنچے۔ |