بقاء کی تگ و دو!!!

دور حیات ایک ایسا لفظ ہے جو زندگی کی مکمل تاریخ پر احاطہ کئے ہوئے ہے اور اس کو سمجھے بغیر نہ تو انسان بلکہ دنیا میں موجود جتنی بھی مخلوقات ہیں زندہ نہیں رہ سکتیں ۔یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ دور حیات ہے کیا؟ تو ہم سب سے پہلے دنیا میں چھوٹے سے چھوٹے جاندار جو عام آنکھ سے نظر نہیں آتے بلکہ انہیں دیکھنے کیلئے عدسے کی ضرورت پڑتی ہے کی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انکی بھی ایسے ہی گزرتی ہے جیسے ایک انسان کی لیکن ان میں بھی کچھ جاندار تو بغیر نقصان پہنچائے ہی زندگی گزار دیتا ہے لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسرے جانداروں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اپنی بقاء کو قائم رکھتے ہیں۔ بقاء کی اس دوڑ میں بہت سے جاندار اپنا وجود برقرار رکھنے میں ناکام ہو جاتے ہیں اور جو طاقتور ہو تے ہیں وہ زندہ رہتے ہیں ۔اگر اس زمین کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس مٹی کی تاثیر ہی ایسی ہے کہ خود زندہ رہو چاہے کوئی رہے یا نہ رہے ۔جب اﷲ تعالیٰ حضرت آدم ؑ کو خلق کرنے لگے تو فرشتوں نے دیکھا کہ ایک طرف بدبودار ٹھیکرے کی طرح بجتی ہوئی مٹی پڑی ہے دوسری جانب بدبودار گندہ پانی ہے تو فرشتوں نے سوال کیا کہ اے پروردگار یہ جو کچھ بھی تخلیق ہونے جا رہا ہے یہ تو زمین میں فتنہ پیدا کرے گا تو اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ تم وہ نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں ۔اب اگر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تعلیمات پر روشنی ڈالی جائے تو آدم ؑ سے لے کر حبیب ِ خدا محمدالرسول اﷲ ﷺ تک اشرف المخلوقات کو صرف ایک ہی پیغام پہنچانے کی کوشش کی گئی کہ امن و سلامتی کے ساتھ مل جل کر رہیں سب کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اﷲ تعالیٰ نے حقوق اﷲ میں تو رعائیت کا وعدہ کیا ہے لیکن حقوق العباد میں کو ئی رعائیت نہیں رکھی ہے ۔اور پھر اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اپنی معرفت کا مقصد دے کر دنیا میں دو راستوں پر بھی چھوڑ دیا ہے ایک بھلائی کی جانب تو دوسرا برائی کی جانب جاتا ہے اب یہ انسان کے عقل پر منحصر ہے کہ وہ کونسا راستہ اختیار کرتا ہے اسی طرح زندگی میں اپنی بقاء کی خاطر بھی انسان کے پاس دوراستے ہوتے ہیں ایک یہ کہ وہ محنت کر کے ترقی کرے اور اپنا لوہا منوائے اور دوسرا یہ کہ اپنے ہی ساتھ والوں کی ٹانگیں کھینچے اور انہیں پیچھے کی طرف دھکیلتا رہے جس کا فائدہ کبھی نہیں ہوتا کیونکہ ایسا کرنے والا انسان خود وہیں رہتا ہے جہاں وہ تھا ۔اسی کے پیش نظر اگر پاکستان کی حالت کی طرف دیکھا جائے تو اہل وطن کے زبان زدِ عام ایک ہی بات ہے کہ پاکستا ن ستر سال کا بزرگ ہو چکا ہے لیکن آج تک کچھ نہیں بن پایا کوئی قابل ذکر ترقی نہیں کر پایا آج بھی پسماندہ ممالک میں شمار ہوتا ہے تو میں اس کے جواب میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پاکستان کا دور حیا ت بھی انہی نقصان پہنچانے والے درندہ صفت لوگوں سے نبرد آزما ہوتے گزرا ہے جو اپنی بقاء کیلئے دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں لیکن پاکستان نہ مٹنے کیلئے وجود میں آیا ہے اس کا وجود تا قیامت رہنے والا ہے اسی لئے اتنے زیادہ جراثیموں اور بیماریوں میں مبتلا ہونے کے با وجود یہ آج بھی پورے شان و شوکت اور رعب کے ساتھ پوری دنیا میں اپنا وجود منوانے میں کامیاب رہا ہے ۔ آج ہمارا پڑھا لکھا طبقہ مغرب اور دوسرے غیر مذاہب کے ممالک کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہ انسانیت کے دعویدار ہیں اور ان کی ترقی کے سامنے ہم کچھ بھی نہیں تو میں بتاتا چلوں کہ امریکہ جیسی سپر پاور ریاست جتنی مقروض ہے اتنا شاید ہی کوئی ملک ہو اربوں ڈالر کا تو وہ صرف ہمارے پڑوسی ملک چین کا ہی مقروض ہے لیکن اس کی مضبوطی کے پیچھے صرف وجہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ یونائیٹڈ کنگڈم موجود ہے جو ہر دم اسکی مدد کرتا ہے اسی طرح جاپان ہیروشیما میں ایٹمی حملے کے بعد جو وہ اتنی جلدی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں کامیاب ہوا تو اسکے پیچھے بھی ان کے بین المذاہب قوتوں کا ہاتھ تھا روس کی تاریخی تباہی کے بعد اسے تیس سال لگے اس کے با وجود کہ پوری دنیا کی یہودیت اس کی انگلی پکڑ کر دوبارہ سے اپنے پاؤں پر اٹھانے کیلئے تگ و دو کر رہی تھی لیکن اس کے بر عکس مسلمان ریاستوں کے ساتھ کیا ہوا سوائے میر جعفر اور میر صادق جیسے غدار اور ملک و قوم کے مجرموں کے جنہوں نے دنیاوی سکون کیلئے اپنے ایمان کو بیچ دیا پاکستان ایسے غداروں سے چاروں اوڑ سے گھرا ہوا ہے جیسا کہ افغانستان اور ایران کا رویہ اس بات کا عکاس ہے کہ وہ کس قدر پاکستان کی ترقی و بقاء کے مخا لف ہے جو کبھی نہیں چاہتا کہ یہاں بسنے والے مسلمان بھی خوشحال ہوں اسی طرح بھارت تو ویسے ہی روایتی حریف ہے اور اگر چین کی بات کی جائے تو اسے بھی اپنے مفاد سے مطلب تھا جو کہ گرم پانی تک رسائی کا تھا ۔ اگر دیکھا جائے تو جو اتفاق اسلامی ممالک کے علاوہ دوسرے مذاہب میں ہے اگر ویسا ہی اتحاد اسلامی ممالک میں ہوتا تو آج پوری دنیا میں اگر کوئی سپر پاور ہوتا تو وہ اسلامی ملک ہی ہوتا نہ کہ عیسائی یا یہودی ۔رواں سال کے آغاز میں پاکستان کے معاشی استحکام اور سالمیت کا علمبر دار منصوبہ سی پیک کا آغاز کیا گیا ہے جس کو ثبو تاژ کرنے کیلئے پاکستان کو مختلف اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے لیکن ہمیشہ ہماری توجہ غلط جانب مبزول کروانے کی کوشش کی گئی ہے ہمیں کہا گیا کہ اس کا نقصان سب سے زیادہ بھارت اور ایران کو ہونے والا ہے جو کہ سرا سر بے بنیاد تھا وہ تو چھوٹے چھوٹے مہرے تھے اصل جس ملک کو نقصان تھا وہ ہمارے اپنے اسلامی ممالک ہیں جن کی خاطر داری میں ہم کوئی کثر اٹھا نہیں رکھتے جی ہاں گزشتہ دنوں میں اچانک سے عرب امارات کا شہزادہ بھارت کا دورہ کرتا ہے اور وہاں ستر ارب ڈالر ز سے زائد کے منصوبوں پر عہد سازیاں کی جاتی ہیں اور امداد کیلئے اعلان الگ سے کیا جاتا ہے ؟یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت اچانک سے اتنا عزیز کیسے ہو گیا ؟بھارت اور پاکستان دنیا بھر میں اپنی ساکھ بچانے کیلئے اور خاص کر بھارتی ہٹ دھرمیوں سے بچنے کیلئے پاکستان کی جانب سے جہاں بہترین عسکری پالیسیوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے وہیں سیاسی سطح پر بدترین خارجہ پالیسیاں بھی دیکھنے کو مل رہیں ہیں جیسا کہ حال ہی میں چاہ بہار پورٹ کو گوادر پورٹ کی سسٹر پورٹ کا درجہ دینا یعنی ایران کو گھر بیٹھے ہی بغیر کچھ کئے فائدہ دیا جا رہا ہے جس کا پاکستان کو کوئی قابل فہم فائدہ نہیں ہونے والا سوائے منافقانہ رویوں سے نبرد آما ہونے کے ۔ جبکہ عسکری قیادتوں کی کوششوں سے خلیجی مشقوں کا انعقاد کرنے سے نہ صر ف دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کافی حد تک مدد ملے گی بلکہ دوسرے ممالک کا پاکستان پر اعتماد بھی بحال ہو گا او ر اسی وجہ سے جہاں بھار ت اپنی سازشوں سے دنیا بھر میں پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کر رہا تھا اب وہ خود ہی اکیلا ہوتا جا رہا ہے ۔لیکن یاد رکھیں کہ پاکستان آج بھی مکمل طور پر آزاد نہیں ہے کیونکہ جب پاکستان کا نام آتا ہے تو سب سے پہلے شہہ رگ ذہن میں آتی ہے جو آج بھی دشمن کے ہاتھ میں ہے اسی لئے پاکستان کو چاہئے کہ وہ دیگر ممالک کی طرح ایسے جانداروں کی طرح نہ بنے جو اپنی بقاء کی خاطر دوسروں کی زندگیاں ختم کر دیتے ہیں بلکہ ان اچھے جراثیموں کی طرح بنے جن کی نشونما کے ساتھ دوسرے جانداروں کی بھی نشونما بھی ہوتی ہے ۔کشمیر ہماری شہہ رگ ہے اور دشمن کے ہاتھ سے اسے چھڑانا ہماری اولین ذمہ داری ہے ۔
Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 166854 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More