انفرادیت کا روگ
(Dr. Muhammad Javed, Karachi)
انسانی معاشرہ انسانوں کی باہمی محبت ،اخوت
اور تعاون باہمی سے وجود میں آتا ہے اور یہی عناصر اس کے استحکام کا باعث
ہوتے ہیں ۔جب کوئی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے وہاں باہمی محبت ،اخوت
اور تعاون کا فقدان ہوتا ہے۔معاشرہ انفرادیت کا اس قدر شکار ہو کر رہ جاتا
ہے کہ صرف اپنی ذات کے لئے جینا ہی جینا کہلاتا ہے۔اپنی ذاتی خواہشات ،آسائشات
اور ضرورتیں ہی مقاصد ہوتی ہیں انسانیت کی سوچ صرف کتابوں اور مذاکروں تک
ہی محدود ہو جاتی ہے۔ہم اپنے معاشرے کا تجزیہ کریں تو یہ تصویر نظر آتی ہے
کہ ہر فرد صرف اپنی ذات،اپنے گھر ،اپنے بچوں کی فلاح ان کی سہولت ان کے
آرام اور خوشحالی کے لئے مصروف عمل ہے اس کی بلا سے کوئی اس کے پڑوس میں
بغیر دوا کے مرے یا کسی کی عزت نیلام ہو یا کوئی بھوک سے مرے،یا کسی کے
ساتھ بے انصافی ہو۔اسے تو اپنی ضرورت اور اپنی خوشحالی سے غرض ہے چاہے وہ
کسی کی خوشیوں کو تہ وبالا کر کے ملے یا کسی کو تباہ وبرباد کر کے ملے۔اسے
تو اپنا سکھ چین چاہئے دوسرں سے اسے کوئی غرض نہیں۔پورا معاشرہ اس کیفیت سے
کیوں گذر رہا ہے؟ ہر شخص تعاون باہمی کی بجائے ایک دوسرے کے لئے خطرہ مال
وجاں کیوں بن کر رہ گیا ہے۔؟دفتروں میں جائیں یا اداروں کا حال
دیکھیں،دوکاندار کے پاس جائیں یا بیوپاری کے پاس،تجارت پیشہ سے ملیں یا
سرمایہ کار سے ایک موچی سے لیکر ایک ریڑھی والے سے لیکر ایک فیکٹری مالک تک
ہر شخص دوسرے کے استحصال کے درپے نظر آتا ہے ۔دھوکہ ،مکاری چالاکی اور
ملاوٹ کے وہ وہ گر آزمائے جاتے ہیں کہ مہذب دنیا دنگ رہ جائے۔اس تمام عمل
میں کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ میرے اس عمل سے معاشرے کو کتنا نقصان
اٹھانا پڑے گا ۔کتنی جانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔افسوس آج ہمارے
معاشرے میں افراد کا ایک دوسرے سے اعتبار بھی اٹھ گیا ہے ۔اچھے برے کا
امتیاز کرنا مشکل ہو کر رہ گیا ہے۔ہر شخص دوسرے پہ کسی بھی معاملے میں
اعتبار کرنے سے گھبراتا ہے ایسا کیوں ہے؟بحیثیت مجموعی ہمارے اخلاقیات اس
قدر پست ہو چکے ہیں کہ ان کی بازگشت ہمیں اکثر عالمی سطح پر بھی نظر آتی
ہے۔جب گرین پاسپورٹ کے لئے الگ قطار بنانی پڑتی ہے۔جب گرین پاسپورٹ کے حامل
کے کپڑے اتار کر اس کی تلاشی لی جاتی ہے۔چاہے وہ ادنیٰ سا شہری ہو یا ہمارے
ملک کا بڑا آفیشل یا وزیر۔معاشرے کے تمدن کو یہ گھن کب لگتا ہے؟معاشرے اس
طرح کے روگ میں کب مبتلا ہوتے ہیں؟سماجی مفکرین کہتے ہیں کہ جب کسی قوم میں
انسانوں کا مخصوص طبقہ تمدنی لحاظ سے آگے بڑھ جائے اور دوسرے لوگ جو تعداد
میں بہت زیادہ ہوں بہت پیچھے رہ جائیں تو پھر اس تمدن کو گھن لگ جاتا ہے ۔قوم
کے محدود طبقے کی اس غیر فطری ترقی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ لاکھوں اور
کروڑوں انسان تو معمولی معاش کی ضروریات کو ترستے ہیں اور چند ایک کے پاس
دولت جمع ہو جاتی ہے ان حالات میں قوم کو روگ لگ جاتا ہے افراد کی صلاحتیں
بے کار ہو جاتی ہیں ۔عیش پرستی عام طور پر پھیلنے لگتی ہے عمومی مفاد کا
کسی کو خیال نہیں رہتا نفسیٰ نفسی کا معاملہ ہوتا ہے ہر شخص کی یہ کوشش
ہوتی ہے کہ اپنا پیٹ بھرے اپنی خواہشات کو پورا کرے خواہ ہمسایہ فاقوں کے
مارے مر جائے۔گویا تعاون باہمی،اخوت اور محبت کے یہ عناصر بغیرعادلانہ
معاشرے کے اپنی جگہ نہیں بنا سکتے۔قومی زندگی کا یہ روگ ایک ہمہ گیر تبدیلی
کا متقاضی ہے۔نئی نسلیں اس ذمہ داری کو شعوری انداز سے سمجھیں انفرادی
جدوجہد کی بجائے اجتماعی جدوجہد کے راستے کو اپنائیں۔جب معاشرے کو چلانے
والا اجتماعی نظام فرسودہ ہو جائے اور افراد معاشرہ کے لئے وبال بن جائے تو
اسے صرف اصلاح سے درست نہیں کیا جا سکتا بلکہ اسے مکمل طور پر تبدیل کرنے
سے ہی معاشرے کا جمود ٹوٹ سکتا ہے۔اور یہ مکمل تبدیلی مسلسل ،منظم اور
پرخلوص جدوجہد کی متقاضی ہے۔ |
|