جوں
ہی فروری کے مہینے کا آغاز ہوتا ہے تو بازاروں،دوکانوں میں سرخ رنگ کے
مختلف طرح کے گفٹ اور ڈیکوریشن پیسز نظر آتے ہیں پوری دنیا میں اک عجیب سی
افراتفری محسوس ہوتی ہے اس فراتفری میں ہر عمر کے لوگ شامل ہیں پہلے تو یہ
افراتفری صرف یورپ ،امریکہ،آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک تک محدود تھی مگر
گزرتے وقت اور تیز ترین کمیونیکیشن کی بدولت یہ افراتفری اب ایشیاء میں بھی
تیزی سے بڑھ رہی ہے آخریہ افراتفری ہے کیا چیز؟یہ کس بلا کا نام ہے ؟ جی تو
اس افراتفری کا نام" ویلنٹائن ڈے " ہے۔ یہ ماہ فروری کا مقبول ترین ایونٹ
یا موقع سمجھاجاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے ہے کیا؟کیا یہ اک تہوار ہے ؟ اس میں
ہونے والی رسم و رواج کیا ہیں؟اور یہ کیو ں تیزی سے اپنا اثر پھیلا رہا
ہے؟اس تحریر میں ویلنٹائن ڈے کی اصل حقیقت کو سامنے لانے کی کوشش کریں گے۔
اس سے بیشتر کے " ویلنٹائن ڈے کی ہسٹری کو ڈسکس کیا جائے میں قارئین کرام
کو واضح کر تا چلوں کہ ویلنٹائن ڈے 14)فروری(کوئی مسیحی تہوار نہیں اور نہ
ہی انجیل مقدس میں ایسے دن یا تہوار کا ذکر موجود ہے سو براہ کرم اس دن کو
مسیحی مذہب کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔ کیونکہ مسیحی مذہب میں عورت کے پردے ،پاکیزگی
اور طرز زندگی پر واضح روشنی ڈالی گئی ہے اسی طر ح مرد کی بھی حددو مقرر کی
گئی ہیں تاکہ معاشرے میں برائی واقع نہ ہو سکے اب آتے ہیں ویلنٹائن ڈے کی
ہسڑی کی جانب ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے مختلف آر اء مختلف کہانیاں اور قیاس
آرائیاں پائی جاتی ہیں اس لئے یہاں پر سب سے زیادہ مستند کہانیاں جو
ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ہیں بیان کی جائے گی جو کہ دو ہیں۔ پہلی کہانی کے
مطابق تیسری صدی عیسوی میں رومن امپائر کا شنشاہ دوئم کلیڈؤسClaudius))تھا
اس شنشاہ نے اپنے دورِ حکومت میں ایک حکم نامہ جاری کیا کہ تمام جوانوں کو
فوجی تربیت دی جائے انکو جنگی صلاحیتوں میں ماہر ہونا ضروری ہے اور ان کی
شادیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی تاکہ جوانوں کو اپنی بیویوں ،اولاد اور
گھر کی فکر نہ ہواور میدان جنگ میں بھرپور جوہر دِکھا سکیں ایسے عالم میں
ویلنٹائن جوکہ ایک پادری تھا اُس نے شہنشاہ کے حکم کے خلاف آواز اٹھائی اور
چپکے چپکے نوجوانوں کی شادیاں کروانا شروع کر دی جیسے ہی شہنشاہ کو اس بات
کا علم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو قید خانے میں ڈال دیایہاں پر بھی ویلنٹائن
نے اپنے مشن کو جاری رکھاوہ قیدیوں کو کہتے کہ آپ رہا ہوکر شادی کریں اور
اچھی خوشحال زندگی بسر کریں اور خداوند کریم کے ڈر خوف میں زندگی گزاریں
قیدخانہ کا جیلر بھی ویلنٹائن سے بہت متاثرہوا اس جیلرکی ایک بیٹی تھی جو
کہ بہت خوبصورت حسین وجمیل تھی اس کا نام "جولیا"تھاجوکہ اکثراپنے والدکو
ملنے جیل آتی تھی اور جولیابھی اکثرویلنٹائن کی باتیں سنا کرتی تھی وہ بھی
و یلنٹائن سے بہت متاثر ہوئی۔ایک دن و یلنٹائن نے جولیاکو خط دیاجس میں اس
نے اپنی محبت کا اظہارکیامگر اسی رات و یلنٹائن کو پھانسی ہو گئی اس لیے ہر
سال 14فروری و یلنٹائن کی یاد میں منایا جاتاہے۔دوسری کہانی کے مطابق تیسری
صدی عیسوی میں رومن امپائر کا شہنشاہ دوئم کلیڈؤسClaudius))تھاجوکہ کٹر
یہودی او رمسیحیوں کے سخت خلاف تھاوہ اکثرمسیحی لوگوں کو قتل کراواتا،انکو
قید میں ڈال دیتا۔ ویلنٹائن جوکہ اک پادری تھا اس کو بھی شہنشاہ نے جیل میں
قید کروا دیامگر سینٹ ویلنٹائن نے اپنی تبلیغ کو جاری رکھا اور فرمان الٰہی
کو سنانے او ر ظالم کے آگے کلمہ حق کہنے کو ترجیح دی اسکی قید کے دورا ن
اکثر جیلرکی بیٹی اپنے باپ کو ملنے آتی تھی جس کا نام جولیا تھا وہ بہت خوب
صورت تھی اور پیدائشی اندھی تھی ۔وہ جب بھی آتی تو سینٹ ویلنٹائن کی باتیں
سنتی اور متاثر ہوتی۔اک دن جولیانے سینٹ ویلنٹائن سے کہاکہ آپ میرے لئے
دعاکریں کے میں دیکھ سکوں۔ سینٹ وئلینٹائن نے اس سے پوچھاکہ جولیاکیاتم خدا
وند کریم پر ایمان رکھتی ہو تب جولیانے جواب دیاکہ میں ایمان رکھتی ہوں پھر
سینٹ ویلنٹائن نے جولیا کے لئے خداوندکریم سے شفاء کی دعا کی اور خداپاک کی
ذات نے جولیاپر رحم کیا اور وہ دیکھنا شروع ہوگئی جولیاکی زندگی میں ایسے
معجزے نے خدا پر ایمان کو اور ذیادہ مضبوط کیاوہ خوشی سے سب کو بتانے چلی
گئی دوسری طرف سینٹ ویلنٹائن کو پھانسی کا حکم بھی اسی دن ہوگیاسو سینٹ
ویلنٹائن نے جلدی سے اک خط جولیاکے نام لکھاجس میں بیان تھاکہ جب تک زندہ
رہو ہمیشہ خداپاک پر ایمان رکھو، ظالم کے سامنے کبھی سر نہ جھکانا،دوسروں
کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آنادوسروں کی بھلائی کرنااور دوسروں کے کام
آنا۔ یہ تھی دو مستند کہانیاں ،ان کہانیوں کے مطابق ویلنٹائن اور جولیا کے
درمیان جو بھی رشتہ تھا وہ تو خدا ہی جانتا ہے مگر پوری دنیا کے بزنس مین
ویلنٹائن ڈے کی مد میں خوب کمائی کرتے ہیں تمام نوجوان بے تحاشا فصول خرچی
کرتے ہیں ۔ جبکہ تمام مذاہب میں اخلاقیات کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور پاکیزہ
رشتوں میں پاکیزہ محبت کا بھی درس دیا جاتا ہے مگر افسو س کی بات یہ ہے کہ
آج کے دور میں چند ایک لوگوں کی وجہ سے اخلاقیات کا تو جنازہ ہی نکل گیا ہے
رشتوں میں ہمدردی ،لحاظ اور اداب ختم ہو گیا ہے مطلب کی رشتے داری رہ گئی
ہے۔دوسری جانب نوجوان لڑکے،لڑکیوں نے ماڈرن ازم کے نام پہ بے حیائی کی تمام
حدیں پار کر دی ہیں-
او ر وہ بڑی تیزی سے برائی میں دھنستے جا رہے ہیں اس میں والدین بھی برابر
کے شریک ہیں جو کہ اپنے بچوں پر پوری توجہ نہیں دیتے۔میری تمام والدین سے
اس تحریر کی وساطت سے التماس ہے کہ والدین اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم دیں
انکو اخلاقیات سکھائیں،تابعداری کرناسکھائیں غلط اورصحیح میں تمیز بتائیں
بچوں کے ساتھ وقت گزاریں اور انکی ہر حرکت پر کڑی نظر رکھیں۔ ماں،باپ
،شوہر،بیوی ،بہن،بھائی،بیٹی،بیٹا یہ سارے رشتے تو ہیں ہی محبت کے ان رشتوں
کو کسی ایک دن کے لئے ے مخصوص نہیں کیا جا سکتاان رشتوں میں تو محبت ہر روز
گہری ہوتی جاتی ہے اور یہ رشتے کسی تہوار کے محتاج نہیں۔ملک پاکستان میں
14فروری کے دن کو حیاء ڈے کے طور پر منایا گیا ہے اور پہلی با ر حکومت
پاکستان نے پابندی عائد کی ہے کے کوئی بھی غیر اخلاقی حرکت کرے گا تو اس کو
قانون کے مطابق سزا ملے گی یہ ایک مثبت قدم ہے ایسے فضول تہوار کو روکنے کے
لئے کیونکہ یہ ہمارا کلچر نہیں ہے۔
|