قبل
از 4 1ــ ـٔصدی اہل عرب اور اہل عجم ُضلم وبربریت کے گھٹا ٹوک اندھیرے میں
غرق تھے ہرسمت اورہرراہ انسانیت کی پستی نظرآتی تھی بیٹیوں کا پیدا ہونا
انکے لے شرم اورعار کی بات تھی زمانہ بھر جہالت کاعلیل تھا،قتل وقتال کی
وباء کادور دورہ تھا -
عورتوں کوپاؤں کی جوتی کی نوک سے تشبیھ دی جاتی تھی ان پر ظلم و ستم کے
پھاڑ توڑے جاتے تھے انکے درست حقوق وفرایض سے مرد ناآشناتھے مرد تو دور کی
بات عورتیں کوبھی اس بات کا علم نہ تھاکہ انکے کیا حقوق و فراض ہیں نفس پر
ستی اہل عرب وعجم کا شعار تھا،شیراب نوشی کالبریز جام تمام ،بد فعلوں کا
منبح ومہمور تھا ،پانی کا متبادل جام شراب ہوا کرتاتھا۔
لیکن جب کاینات ہستی میں ـ(سراج)چراغ اوروہ چراغ جو منیر(روشن)اور ابدی
روشنی کا حامل ہے، وہ چراغ جس نے کایـٔنات میں پہیلے ہوئیــــ ظلم
وعناد․جبر وبربریـت ،قتل وقتال اورجہالت کے گھٹا ٹوک اندہرے میں ڈوبے ہوے
معاشرے پر چراغ ابدی روشن کیاتوکایـناتِ دنیاکے ہر فردنے دیکھاکہ مشرق سے
مغرب تک شمال سے جنوب تک جس سمت نگاہ جاے زمانہ ھدایت کی روشنی سے منوّر
ہواـ۔محمدرسولُ اﷲﷺ کی ذاتِ اقدس نے دین اسلام کا علم اٹھایا اور اسکی
سربلندی کے لے ہرممکن جدوجہد کی۔
لسان کُل گواہِ نبوّت ھے
مشکل تھے جو راستے وہ آسان ہـوگے
دشمن بھی یہ دیکھ کر حیران ہوگے
رکھاجب میرے نبیﷺنے زمانے میں قدم
توپتھر بھی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگے
سرورِکایناتﷺنے آنے والی انسانیت کے ہر فردِآخر تک چرا غِ ابدی کو روشن کیا
اوروہ چراغ دینِ اسلام کی صورت میں تھا،
لیکن بد قسمتی سے آج ۰۰۴۱ سال بعد اُسی دین اسلام کواوراسکے متوالوں کومسخ
کرنے کی نکا م کوشش کی جارہی ہے اورمغربی ہتکنڈے اس پیشِ رفت کے سربراہی
میں مزن ہیں․․اورجذباتِ رذیلہ مسلمانوں کے خلاف ہے․انکی منشاء اور مراد
مسلمانوں کی پستی ہے․آپنی تمام قوّت مسلم معاشرے کے بگاڑکیلے صرف کرتے ہے
․یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان مغربی طرزوانداز کی پیروی کرنے کو اپنا وقار
سمجھتے ہیں ۔
آج دور جدید کے س برقی دور میں نئی نئی ایجادات کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے
بھی شریعت مطھّرہ کو چھوڑ کر اِن نئی ایجادات اور نئے طرزوں انداز کو جو
مغربی ممالک اور انکی اقوام کی پیداوار ھے ․انکو اپنا لیا غیروں کے طریقوں
کو اپنا سمجھا مصطفیﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے متبادل اشیاء کو لایا گیا اور
ایسے متبادل آلات کی طرف رُخ پذیری ہوئی جسکی وجہ سے مسلمان جو ایک کلمہ کا
داعی تھا وہ مغربی
نازونیم کا پرچار کر بیٹھاانکی شیطانی چالوں کا شکار ہوا،
سازوں موسقی کی دُھن میں مست ہوکر قرآن کی تلاوت کو چھوڑ بیٹھاجس گھر کی
رونق قرآن کی تلاوت تھی وہ موسقی کی نظر ہوئی،، جن محفلوں میں ذکر خُدا اور
ذکر مُصطفیﷺ کیا جاتا تھا وہ محفلیں رکس وجام کی محفلوں میں تبدیل ہوگئں،،
مغربی فنون کا نام لیکریونیورسٹیاں اور دیگر تعلیمی ادارے قائم کئں جھاں
مدارس کے وہ طلباء جو اپنے خفیف سینوں میں علمِ نبوت کو اٹھائے پھڑتے ہیں
انکے لئے دہشتگردی کو منسوب کیا اور فنون حاصل کرنے والے طلباء جوعلم دین
سے ناآشنا ہیں اُنھوں نے بغیرعلم کے اِن وارثان نبوت سے اپنے دالوں کو میلا
کیا ’‘جن عورتوں کی زینت اُنکے گھر کی چار دیواری ہوتی تھی اُنھوں نے مغرب
کے عمل کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے آپ کو بے پردہ روڈ اور بازار میں پھروایا۔
یہی تو بات ہے اور وہ کلام ہے جو لسان نبوت سے جاری ہوا’’’من تشبّھ بقومٍ
فھو مِنھم‘‘‘(جس نے جس قوم کی مشابھت اختیار کی کل بروز محشراُسی کے ساتھ
انجام ہوگا) آج ہم نے سنّت نبوی کو چھوڑا اور اغیار کے طریقوں کو اپنا یا
اور آج ہمارے معاشرئے میں زوال کا جو دور دورہ ہے وہ ہمارئے اپنے ہی اعمال
ہیـ․لیکن آج ہم اگر خُداکی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں ہر مسلمان دین کا
داعی بن جائے تو معاشرئے کا سارا بگاڑ ختم ہوجائگا۔
شاعر اقبال تڑپ اُٹھا اور گلزار کہکشاں جڑ دئیے
’’ خُدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ‘‘
’’ نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا ‘‘ |