گزشتہ
شب میں اپنے دوستوں کے ہمراہ فیکٹری آفس میں بیٹھا گرما گرم چائے سے لطف
اندوز ہو رہا تھا کہ اسی اثنا ء میں ایک انڈے بیچنے والا لڑکا آگیا۔عمر
کوئی 13-12 سال ہوگی شکل پہ ہی لکھا تھا کہ فاقوں کا مارا ہے۔دروازے کے
باہر کھڑا ہمیں دیکھتا رہا۔میں نے اندر آنے کا اشارہ کیا تو دوروازہ کھول
کر اندر آگیا۔میں نے کہا اس یخ سردی کے موسم میں اور اس وقت انڈے کیوں بیچ
رہے ہو؟کیا مجبوری ہے؟سکول جاتے ہو؟کہنے لگاکہ صاحب پہلے سکول جاتا تھا اب
چھوڑ دیا ہے۔میرے والد وفات پا چکے ہیں۔میں اپنے گھر میں سب سے بڑاہوں ۔میں
نے پوچھا باقی بہن بھائی تو کہنے لگا وہ مجھ سے چھوٹے ہیں اور سکول پڑھتے
ہیں۔میں صنعت روڈ پر خرادکا کام سیکھ رہا ہوں،وہاں سے 4ہزار ماہوار ملتا
ہے۔میری ماں شادی بیاہ پر برتن دھوتی ہے اور کپڑے سلائی کر تی ہے۔اس نے
اپنے گھر کا پتہ بھی بتایا،مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ وہ ہمارے ایریا
کے قریب ہی رہتا ہے ،اور ہمیں معلوم ہی نہیں۔میرا دل کیا کہ اس کو کچھ نہ
کچھ پیسے دوں۔ عجیب بے چینی میں اٹھا باہر نکلا۔ پیسے دینے کی ہمت نہ ہو
سکی ،کہیں اسکی خوداری کو ٹھیس نہ پہنچے۔بھیک یہ مانگ نہیں رہا،انڈے بیچ
رہا ہے ،تاکہ محنت کی روٹی کھا سکے اور گھر والوں کو کھلا سکے اس کی بھی
ماں ہے۔جس کا دل ہر وقت اس میں اٹکا رہتا ہوگا کہ کب انڈے بکیں اور اس کا
لعل گھر آئے۔ سخت سردی میں ٹھٹھرتا لعل۔ جو اپنے گھر کا چولہا جلانے کیلئے
سخت سردی میں مارا مارا پھر رہا ہے ہے۔ یہ اور اس جیسے کئی دوسرے بچے جو
انڈے بیچ رہے ہیں، یہ وہ بچے ہیں جن کو اگر سردی لگ بھی جائے تو اپنے کولر
میں بھرے انڈوں سے ایک انڈہ نہیں کھا پاتے کیونکہ چند انڈے ہی انکی ساری
رات کی کمائی ہوتے ہیں۔پھر ہم نے اس بچے سے سارے انڈے خرید لیے۔میں نے اپنے
دوستوں کو کہا کہ کیوں نہ اس بچے کو چائیلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کر دیا
جائے،تاکہ یہ پڑھ لکھ سکے اس کا مستقبل بن جائے۔میرے دوست بولے کہ جناب اس
بچے کو آپ چائیلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے تو کردیں گے اس سے بچے کا مستقبل
بھی بن جائے گا لیکن اس کے گھر والوں کا کیا ہوگا جن کیلئے یہ اس وقت مارا
مارا پھر رہا ہے۔اس آمدنی کا کیا ہوگا جو یہ بچہ گھر لیکر جاتا ہے۔میں نے
کہا بات تو کسی حد ٹھیک ہے۔اب یہ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ چھوٹے سے بچے کو
پڑھائی چھوڑ کر کام کرنا پڑ رہا ہے ۔اپنے خاندان کو پالنے کیلئے بڑا بننا
پڑ رہا ہے۔اگرحکومت او ر چائیلڈ پروٹیکشن بیورو والے اس جیسے بچوں کیلئے
کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ان کو اپنی تحویل میں لینے کے ساتھ ساتھ اس کے گھر
والوں کیلئے بھی کچھ کریں۔کوئی وظیفہ ہی مقرر کر دیں تاکہ بچے کے ساتھ اس
کے گھر والے بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ہمارے ہاں اتنے ادارے این جی اوز ہیں جو
غریبوں کی مدد کیلئے کام کرتے ہیں لیکن نہ جانے کہا ں ہیں ؟
میری حکومت اور چائیلڈ پروٹیکشن بیورو سے استدعا ہے کہ کوئی ایسا طریقہ کار
وضع ہونا چاہیے جس سے ان جیسے بچوں کے گھر بھی چل سکیں،اور آخر میں ہمیں
بھی چاہیے کہ اپنے گردونواح کے لوگوں کے بارے معلومات ضرور رکھیں۔ہمارا حال
یہ ہو چکا ہے کہ ہمیں برما اور شام کے مسلمانوں کیلئے تو چندہ اکٹھا کرنے
کے کیمپ لگانے آتے ہیں۔لیکن ساتھ والے گھر میں فاقوں کی نوبت ہے معلوم ہی
نہیں۔ |