دہشت گردی کی حالیہ لہر……پس چہ باید کرد؟
(Abdul Qadoos Muhammadi, )
مولانا
محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان
چنددنو ں سے دل زخم زخم ہے، ہر طرف لہو بکھرا پڑا ہے، ہر طرف لاشے اور آنسو
ہیں، حادثات اور سانحات کا ایسا تسلسل کہ ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ کر رہ گئے
۔ انسانی لہو شاید ہی کبھی اتنا ارزاں، اس قدر بے وقعت اور بے حیثیت ہوا ہو۔
دین اسلام جس لہو کے تحفظ اور سلامتی کی ضمانت دیتا ہے،دین اسلام جس انسانی
جان کو حرمت عطا کرتاہے ایسی حرمت کہ بیت اﷲ شریف سے بھی ایک مسلمان کی
حرمت اور تقدس کو زیادہ قراردیاگیا۔ حضرت بلالؓ کو بیت اﷲ کی چھت پر کھڑا
کر کے پیغام دیا گیا کہ ایک مسلمان کی حرمت بیت اﷲ سے بھی زیادہ ہے ۔ اﷲ رب
العزت نے قرآن کریم میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا
اور ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف قرار
دیا ۔ ہمارے آقاصلی اﷲ علیہ وسلم نے انسانی جان اور انسانی لہوکی حرمت کو
بیان کرنے کے لئے یہاں تک فرمایاکہ اگرساری دنیا کے سارے کے سارے انسان کسی
ایک جان کو نا حق قتل کرنے پر جمع ہو جائیں تو اﷲ رب العزت ان سب کو جہنم
میں ڈال دیں گے۔ قتل ایک ایسا جرم عظیم ہے جس کے انجام اور سزا کے طور پر
ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈالے جانے کی وعید ارشاد فرمائی گئی ہے۔
اندازہ کیجیے کہ گناہوں اور جرائم کی فہرست تو بہت طویل ہے لیکن ان سب
گناہوں میں سے شرک کے بعد صرف قتلِ ناحق ہی ایک ایسا گنا ہ ہے جس کے بارے
میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والا سدا جہنم میں رہے گا ۔یہاں
یہ بھی واضح رہے کہ کسی بے گنا ہ مسلمان کا لہو بہانا تو درکنا ر ہمارے
آقاصلی اﷲ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا کہ اگر کسی شخص نے کسی ذمی اور
معاھد کو نا حق قتل کر ڈالا تو میں میدانِ حشر میں میں محمدصلی اﷲ علیہ
وسلم اس ذمی کا وکیل بنوں گا ۔ انسانی جان کی حرمت و تقدس اور قتل غارتگری
اور دہشت گردی کے بیہمانہ فعل کی جتنی مذمت ہمارے دین میں آئی ہے اتنی کسی
بھی آسمانی یا غیر آسمانی مذہب میں موجود نہیں لیکن ہمارا المیہ یہ کہ اسی
دین کے نام لیواؤں کا لہو بہہ رہا ہے بالخصوص وطن عزیز پاکستان میں ایک
طویل وقفے کے بعد دہشت گردی اور قتل وغارتگری کا افسوس ناک سلسلہ ایک مرتبہ
پھرشروع ہوگیا ہے۔ دہشت گردی کی حا لیہ لہر کے اسباب ومحرکات کا جا ئزہ
لینے کے لئے ہمیں گزشتہ کچھ عرصے کا منظر نامہ سامنے رکھنا ہو گا کیونکہ
کچھ عرصے سے پا کستان میں جس طرح امن وامان کی صورتحال میں تیزی سے بہتری
آئی تھی ، ملک نے تعمیر وترقی کے منازل جس تیزی سے طے کرنے شروع کئے ، سی
پیک کا منصوبہ، توانائی کے حوالے سے مختلف پروجیکٹ ، گوادر بندرگاہ کی
فعالیت سمیت کئی ایسی چیزیں سامنے آئیں جو پاک وطن کو معاشی استحکام اور
تعمیر وترقی کی منزل سے ہمکنار کرنے کا سبب بنتے دکھائی دے رہے تھے دوسری
طرف اسلامی ممالک کے عسکری اتحادکی باگ ڈورپاکستان کے ہاتھ میں آ گئی،
عالمی سطح پر ہونے والی توڑ جوڑ میں مختلف بلاکس کی تشکیل میں پاکستان کو
کلیدی حیثیت حاصل ہونے لگی ایسے میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع کیا گیا جو
دراصل پاکستان کے مستقبل، پاکستان کے معاشی استحکام اور پاکستان کی تعمیر
وترقی پر حملہ ہے۔ ہمیں یہاں یہ بات ضرور پیشِ نطر رکھنی چائیے کہ جب دہشت
گردی کے واقعات کے ڈانڈے پڑوسی ممالک کے ساتھ جڑتے نظر آتے ہیں یا سرحد پار
پاکستان دشمنوں کے ہر کارے حرکت میں آتے نظر آتے ہیں تولازم نہیں ہوتاکہ
ایسے دشمن عناصر براہ راست کاروائیاں کرتے ہوں بلکہ وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو
ورغلا کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اس لئے ہمارے حکمرانوں کو
ہرسانحہ کے بعد محض رٹے رٹائے بیانات دینے پر اکتفا ء نہیں کرنا چائیے بلکہ
دہشت گردی اور تخریب کاری کی ہر کوشش کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کرنی
چائیے۔
صد شکر کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پوری قوم دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف
متحد ، پرعزم اور منظم دکھائی دی۔ تمام طبقات ایک پیج پر نظر آئے لیکن
حالیہ لہر کے بعد دشمن کے بعض پروردہ عناصر نے قومی یکجہتی کو سبوتا تر
کرنے کی کوشش شروع کردی۔ دھماکے تو بیک وقت چاروں صوبوں میں ہوتے ہیں لیکن
جنوبی پنجاب، جنوبی پنجاب کی مالا جپنے کی کوشش اس بھونڈے انداز سے کی جاتی
ہے کہ دشمن بھی خوشی سے بغلیں بجا اٹھتا ہے ۔جس طرح عالمی سطح پر دہشت گردی
کو مذہب سے نتھی کرکے باقی ہر قسم کی درندگی کو جواز فراہم کیا جاتا ہے
ہمارے ہاں بعض عناصر دہشت گردی کو کبھی مذہب اور کبھی مسلک سے نتھی کرکے اس
کی آڑ میں مسلکی منافرت پھیلاتے پائے گئے اور قوم کی یکجہتی ،یکسوئی اور
اتحاد واتفاق کوپارہ پارہ کرنے کے جتن کرنے لگے۔
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ عملی زندگی میں تو تمام مسالک ومکاتب فکر کے
راہنما بلا امتیاز مسلک دہشت گردی کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہیں لیکن
پروپیگنڈے کے بل بوتے پر قوم کو تقسیم کرنے کی ناکام کوشش بھی بعض کر رہے
ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ محض بیانات پر اکتفاء نہ کیا جائے بلکہ
عملی اقدامات اٹھائے جائیں، دوسروں کے گھروں میں تڑپتے لاشوں کو دیکھ کر لا
تعلقی کا مظاہرہ نہ کیا جائے بلکہ اس آگ کے اپنے دامن اور اپنے گھر تک
پہنچنے سے پہلے اس کو بجھانے کی کوشش کی جائے ۔ سب کو ملک وملت کی طرف
بڑھتے ہوئے اس سیلاب بلاخیز کے سامنے بندباندھنے کے لئے میدان عمل میں
اترناہو گا۔پالیسی سازوں کو بلاامتیاز اوربلا تفریق دہشت گردی کے خاتمے کے
لئے اقدامات اٹھانے ہوں گے اور کسی کے ساتھ کسی قسم کی رعایت کا تصور تک
ختم کرنا ہوگا مگریہ احتیاط ملحوظ رہے کہ ایسی اندھادھندکاروائیاں، حواس
باختگی کاایسامظاہرہ جو محرومی کے احساس کو مزید اجاگر کرے،مساجد اور دینی
مدارس پر بلاجواز چھاپے ،مذہبی شناخت رکھنے والوں کو ہراساں کرنے،ماورائے
عدالت اور دیگر امتیازی اقدامات اٹھانے سے بہرحال گریز کرناہوگاکیونکہ ان
اقدامات سے آگ بجھنے کے بجائے مزید بھڑکنے کا اندیشہ ہے۔ |
|