اس وقت راقم الحروف کے سامنے دو المناک واقعوں کے
متعلق چند تفصیلا ت ہیں۔جن کی بنیاد پر ان دو واقعات کے مابین تقابلی جائزے
سے ایک خاص پیغام قارئین کرام تک پہنچانے کی بساط بھر سعی کی جائے گی۔ پہلا
حادثہ سرینگر کشمیر کے ایک گنجان آباد علاقے مہجور نگر میں پیش آیا ۔دوسرا
دلدوز سانحہ پاکستان کے ایک صوبہ سندھ کے ایک علاقہ سیہون شریف میں رونما
ہوا۔ہر دو واقعات کا تقابلی جائزے کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ ظلم و بربریت
کو ہمدردی کے روبرو کیا جائے ۔شقاوت ِ قلبی اوررحم دلی کاآمنا سامنا
ہو۔درندگی کو انسانیت کا آئینہ دکھایا جائے۔غلط فکرو سوچ کو صحیح طرز ِ
تفکر سے موازنہ کیا جائے۔اور انتہاء پسند ذہنیت کورد کر کے راہ ِ اعتدال کی
نشاندہی کی جائے۔کیونکہ شقاوت ِقلبی رحم دلی کے سامنے،ظلم و بربریت ہمدردی
وایثارگری سے درندگی انسانیت کے پس منظر میں ،اور غلط فکر ایک اچھی فکر کے
ساتھ اور زیادہ نمایا ں بلکہ عریا ں ہو جاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح نور
کے سامنے ظلمت شرمسار ہو جاتی ہے ۔اور دوسری جانب ہمدردی اور ایثار(جو اس
مادی دور میں نایاب ہے) کی قدرو قیمت بھی دو چند نظر آئے گی۔
اول الذکر حادثہ کے متعلق تفصیلات ایک ویب سائٹ انتھ ڈاٹ کام میں چھپی ہیں
جن کے مطابق ۱۴ فروری ۲۰۱۷ کو مہجور نگر علاقے میں ایک تین منزلہ عمارت میں
اچانک بھیانک آگ نمودر ہو گئی ۔اس عمارت میں رہ رہے ایک سکھ گھرانے کے سبھی
افراد مکان سے باہر آکر جان بچانے میں کامیاب تو ہو گئے لیکن بد قسمتی سے
اسی گھرانے سے تعلق رکھنے والی بائیس سالہ دوشیزہ اس آتش زدہ مکان سے باہر
نہ آسکی۔چنانچہ چند ایک رکاوٹوں کے سبب فائر ٹندر بر وقت جائے واردات پر نہ
پہنچ سکے۔مقامی مسلمانوں نے جب روشنی نامی اس دوشیزہ کے آگ میں پھنس جاٍنے
کے بارے میں سنا تو وہ سب شتابانہ اپنے گھروں سے باہر آگئے اور روشنی کی
زندگی کو بچانے کی چارہ جوئی کرنے لگے ۔ ریاض احمد ریشی نامی ایک آٹو
ڈرائیور ،حاجی اخلاق احمد اور مدثر احمد کبو جیسے جانباز وں کی جانبازی اور
ہوشمندی سے آگ کے شعلے اگلنے والے مکان کے اس حصے تک پہچنے کا راستہ مہیا
ہوا۔جہاں یہ دوشیزہ آ گ کے شعلوں سے موت و جیات کا جنگ تنِ تنہا لڑ رہی تھی
۔بہرحال متذکرہ افراد اپنی جان جوکھم میں ڈالے مکان میں کلمہ لاالا پڑھ کر
داخل ہوئے ۔ روشنی کو وہاں سے نکال کر ہسپتال تو پہنچایا گیا مگر ڈاکٹر اس
کی جان نہیں بچا پائے۔
اس رپوٹ کو تحریر کرنے والے صحافی ماجد حیدری کے مطابق روشنی کی المناک موت
سے اس کے خانوادے پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔ ساتھ ہی ساتھ مقامی مسلمان بستی میں
بھی غم و الم کی لہر دوڑ گئی۔مذکورہ رپورٹ کے مطابق اس دوشیزہ کی دو بہنیں
بیرونِ ریاست یعنی چندی گڑھ میں پڑھائی کے سلسے میں مقیم تھیں۔ لھٰذا ۴۱
فروری کو فوت شدہ سکھ خاتون کے آخری رسومات 15 فروری بعدِ دوپہر انجام پائے
۔ سکھوں کے مذہبی روایات کے مطابق فوت شدہ شخص کے ورثا تب تک کھانے پینے سے
پرہیز کرتے ہیں جب تک اس کے آخری رسومات تکمیل کو نہ پہنچیں۔ اس لحاظ سے
غمزدہ خاندان سے وابسطہ تمام افراد ڈیڑھ دن تک کھانے پینے سے گریزاں
رہے۔مقامی مسلمانوں نے نہ صرف پسماندگان کی ہر پہلو سے ڈھارس بندھائی ۔بلکہ
ایک مقامی معزز شہری حاجی اخلاق احمد کا کہنا تھا کہ’’اس دو شیزہ کی المناک
موت سے ہم اس قدر متاثر ہو گئے کہ کافی کوششوں کے باوجود بھی ہم سے بھی کچھ
کھایا نہ گیا۔ہمیں اس بات کا دکھ ہے کہ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی ہم اس کی
جان نہ بچا پائے۔‘‘
مزید بر آں مقامی مسلمان خواتین نے نہ صرف اگلے ہی روز جلوس کی صورت میں اس
واقعے کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کیا اس جلوس میں یہ خواتین کچھ اس
قسم کے نعرے لگا رہی تھیں۔روشنی مویہ بے گناہ۔۔۔لا الٰہ الااﷲ یعنی روشنی
بچاری بے گناہ مر گئی ۔۔۔۔۔ لا الٰہ الااﷲ ۔ یتی گو کربلا۔۔ اس کی موت سے
یہاں کربلا برپا ہوگئی ۔لا الٰہ الااﷲ ۔یہ نعرے بذاتِ خود مذہبی عصبیت کی
رد اور انسانی ہمدردی کی غمازی کرتے ہیں۔
اب ذرا دوسرے المناک واقعے کی طرف رخ کریں۔ مذکورہ بالاواقعے کے ٹھیک دو
روز بعد پاکستان کے صوبہ سند ھ میں ایک معروف ولی اور صوفی بزرگ کے مزار پر
ہزاروں عقیدتمندحاضر تھے۔ کہ ایک خود کش حملہ آور نے آ کر اپنے ساتھ ساتھ
قریباً سو افراد کی جان لے لی۔ جس میں بیس کم سن بچوں سمیت بہت سی خواتین
بھی جان بحق ہو گئیں۔جائے واردات پرایک تصویر میں چند ایک بچوں کی جلی بھنی
لاشوں کے ساتھ ساتھ شیر خوار بچے کا فیڈر(دودھ کی بوتل) بھی پڑا ہوا دکھائی
دیتا ہے ۔ اور اس کے تھوڑے ہی فاصلہ پرچند ایک شیر خوار بچے کے مسخ شدہ
لاشے بھی اس منظر کو اور بھی زیادہ درد ناک انداز میں پیش کر رہے تھے۔
ان دو مختلف غم انگیز واقعات کے تقابلی جائزے سے یہ نکتہ ابھر کر سامنے آ
جاتا ہے کہ ایک کلمہ گو اور دوسرے کلمہ گو میں زمین و آسمان کا فرق ہو سکتا
ہے۔ ایک کلمہ گووہ ہے کہ جو کلمہ پڑھ کرکسی غیر مسلم دوشیزہ کی جان بچانے
کے لئے آگ کے شعلوں میں کود پڑھتا ہے اور دوسرا کلمہ گو وہ ہے کہ جو یہی
کلمہ پڑھ کر ہزاروں کلمہ گوافراد کو موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش
کرتاہے۔واضع رہے اس طرح کے خود کش دھماکہ دنیا کے مختلف ممالک ہوتے رہتے
ہیں ۔چند ایک مسلم ممالک توسالہا سال سے ان خود کش دھماکوں کی زد میں ہیں۔
اور ایک بڑی تعداد میں بے گناہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ یہ حقیقت کڑوی ہے سہی
مگر حقیقت ہے کہ ان دھماکوں میں ملوث افراد کا تعلق ایک خاص فکروذہنیت سے
ہے جس کے مطابق اس مخصوص فکر سے روگردانی کسی بھی انسان کو تکفیر کے کھاتے
میں ڈال دیتی ہے۔نیز اس تکفیر کے جرم میں اسے قتل کرنا کوئی جرم ہے ہی
نہیں۔فی الوقت شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے خود کش دھماکے کو ہی
لیجئے۔یہاں بھی خود کش دھماکہ کرنے والے کسی اور مذہب کا پیرو کار نہیں
بلکہ مسلمانوں کے ہی اس گروہ سے تعلق رکھنے والا نوجوان نکلا جو اپنے آپ
کوخالص اور حقیقی مسلمان سمجھتا ہے۔اسے بڑھ کر المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ
شہباز قلندرؒ کا اصل نام سید عثمان مروندیؒ ہے اور اس خود کش دھماکہ کرنے
والے کا نام بھی محمد عثمان ہی بتایا جا رہا ہے۔ خود کش بمبار کی جو تصویر
سماجی رابطہ سائٹس پر دکھائی جا رہی ہے اس کے مطابق یہ ایک نوجوان ہے اور
جیسے اس نے ابھی ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہے۔ظاہر ہے ایک نوجوان
فطرتاً تمام تر عصبیتوں سے پاک ہوتا ہے۔ اور ا س کے وجود کا پیمانہ جامِ
محبت سے سر شار ہوتا ہے۔کسی دوسرے کے ساتھ نہ سہی اسے کم از کم حبِ ذات
(اپنے آپ سے محبت)تو حد درجے کا ہو گااور اس طور جینے کی تمنا ہر دوسرے شخص
سے اسے زیادہ ہوگی۔ لھٰذا اس کے پیکر سے روحِ محبت نکال کر نفرت کا بارود
بھرنا کارے دارد والا معاملہ ہے۔جان لیجئے جو لوگ انہیں جان دے کر جان لینے
پر آمادہ کرتے ہیں ان کے پاس دوسروں کو متاثر کرنے کی زبردست اور غیر
معمولی قوت ضرور ہوگی۔نیز اس حقیقت سے بھی مفر ممکن نہیں کہ جس مذہبی اور
انسانی جذبہ نے یہاں سرینگر میں ایک چند افراد خود کو آگ میں کود پڑھنے پر
آمادہ کیا تاکہ ایک غیر مسلم دوشیزہ کی جان بچ جائے اسی جذبے کے غلط
استعمال کا شاخسانہ ہے کہ پاکستان ،عراق اور دیگر ممالک میں پے در پے خود
کش حملے ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان دھماکوں کے پس ِ منظر اور
اصل محرکات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ جیسا کہ عام طور پر کہا جا تا ہے کہ
یہ دہشت گردی چند مٹھی بھر سر پھرے لوگوں کا کام ہے اور بس!اس طرح کی سوچ
خود فریبی کے مترادف ہے۔ عالمی سطح پر دہشت گردی کا عفریت با ضابطہ کسی نہ
کسی فکری پناگاہ میں ضرور رہتا ہوگا۔جس کی غذا کسی نظریاتی چولھے سے پکا کر
آتی ہوگی۔کسی کی جان دنیا کی لالچ میں لیناایک عمومی بات ہے لیکن اس دنیاوی
زندگی سے بالا تر کوئی’’ مقدس مقصد‘‘ ہی ہو سکتا ہے جو ایک فرد کو اپنی جان
دینے کے لئے آمادہ کرے۔ اور جب تک نہ ایک فرد کو یہ باور کرا یا کہ وہ اپنی
اس فانی اوردنیاوی زندگی کو تج کر اخروی اور ابدی زندگی حاصل کر لے۔نیز
رغبتوں اور میلانات سے بھر پوراس دنیاوی زندگی کو وہ مفت میں کیوں
گنوائے۔جن قرآنی آیات کو پڑھ کر ہمارے یہاں اب بھی لوگ کسی دوسرے مذہب کی
خاتون کی زندگی اپنے رب سے مانگتے ہیں ان ہی آیات کی تلاوت کر کے وہاں
دسیوں بے گناہ افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے۔اور اس قسم کے انتہاء پسندحلقوں
میں ان سانحوں سے خوشی کی زیریں لہر دوڑتی ہے۔جبکہ یہاں پورا علاقہ ایک غیر
مسلم لڑکی کی موت سے غم انگیز ماحول میں ڈھوب جاتا ہے۔
بعض دفعہ دس بارہ سال کے کم سن بچوں کو بھی ایسے انسانیت سوز اقدامات انجام
دینے سے قبل پردھر لیا گیا۔ایسے نافہم بچے کہ جن کے ناپختہ شعور کا پودا
کسی بھی سمت موڑا جا سکتا ہے ۔ کیونکر خودبخود اس خطرناک کام کے لئے آمادہ
ہو سکتے ہیں ۔جسے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ کوئی بد خصال فرد یا جماعت ہے
کہ جو ان خالی الذہن بچوں کو ورغلانے میں ماہر ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کم
سن بچے اور نوجوان بھی ہمدردی کے حقدار ہے ۔اور انہیں بہلا پھسلا کر مرنے
مارنے کے لئے تیار کرنابذات ِ خود ایک ظلم ہے کہ جس کا اولین شکار یہی
نوجوان اور بچے ہوتے ہیں۔ ًًًًًًًًًًًً البتہ اصل مجرم تو ان کم سن خود کش
افراد کے وہ مربی و مرشد ہیں ۔ جو اپنے اوچھے مفادات حاصل کرنے کے لئے
انہیں بطور ذریعہ استعمال کرتے ہیں۔اسی دلیل کی بنیاد پر کہا جا سکتاہے کہ
دہشت گردی تب تک ختم نہیں ہو سکتی ہے کہ جب تک نہ دہشت گردوں کو ختم نہ کیا
جائے اور دہشت گردوں کو اس وقت تک ختم کرنا ناممکن ہے کہ جب تک ان افراد کے
گریباں پر ہاتھ ڈالا نہ جائے جو سادہ لوح افراد کو دہشت گرد بنانے میں
کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔ ان دہشت گرد ساز افراد کو نیست و نابود کرنے کا
ایک موثرطریقہ کاریہ ہے کہ اس فکر و سوچ اور ذہنیت کے خلاف مذہبی،معاشرتی
اور نظریاتی سطح پر محاذ قائم کیا جائے ۔یہی مخصوص ذہنیت ہے جو ایک شخص کو
اپنے تئیں پکا اور سچا مسلمان اور دیگر مکتبہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں
کو مرتد و کافر گرداننے پر اکساتا ہے۔دوسری جانب مہجور نگر میں ظاہر ہونے
والے خالص انسانی جذبے کی حفاظت اور تقویت کے لئے ہر فرد کو فعال کردار ادا
کرنا ہوگا۔محبت کا یہی جذبہ ہے کہ جسے نفرت کے سوداگروں کو شکست فاش دی جا
سکتی ہے۔اور یہ پیغام عام کرنے کے لئے کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا
چاہئے کہ
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں کا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
اقبالؒ
|