بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(شریعت اسلامیہ میں ڈاکہ زنی وخونریزی کی سزا)
اسلام کے فوجداری قانون میں سزائیں تین قسم کی رکھی گئی ہیں، حدود، قصاص
اور تعزیرات۔ اس کے برعکس پوری دنیا کے قوانین میں سزاؤں کو
صرف”تعزیرات“کہا جاتا ہے۔ اس بنیادی فرق کی وجہ اس بنیادی تصور میں اختلاف
ہے جو وحی کے قوانین اور انسانی کاوش کے درمیان تفاوت پر بنیاد کرتا ہے۔
انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین میں صرف انسانوں کی حق تلفی کی جاتی ہے جب کہ
اﷲ تعالیٰ نے جو قوانین نازل کیے ہیں ان کی خلاف ورزی میں خالق کی نافرمانی
بھی شامل ہے جس کی سزا اس دنیا میں اور آخرت میں بھی ہے۔ اس فرق کی بنیاد
پر اسلامی شریعت کی نافذ کردہ سزاؤں میں”حدود“ایسی سزائیں ہیں جو خصوصی طور
پر بطور حق اﷲ تعالیٰ نافذ کی جاتی ہیں اور ان میں کمی وبیشی یا معافی کا
اختیار کسی حاکم کو حاصل نہیں ہے کیونکہ ان کا مدعی خود اﷲ تعالی٧ ہے اور
اس نے اپنا یہ اختیار کسی کو تفویض نہیں کیا۔”قصاص“وہ سزائیں ہیں جو بطور
حقوق العباد کے نافذ کی جاتی ہیں اور مدعی ان سزاؤں کو معاف بھی کر سکتا ہے،
ان میں کمی بھی کرسکتا ہے اور ان کی جگہ دیت بھی وصول کر سکتا ہے۔ جبکہ
”تعزیرات“وہ سزائیں ہیں جو حاکم کی صوابدید پر چھوڑ دی گئی ہیں چاہے تو
معاف کردے اور چاہے تو عبرت کا نشان بنا دے۔
حد حرابہ قرآن مجید میں سورة المائدہ کی آیت 33,34سے ماخوذ ہے ”جو لوگ اﷲ
تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے
ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں یا سولی پر چڑھائے
جائیں یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ ڈالے جائیں یا وہ جلاوطن کر دئے
جائیں۔ یہ ذلت و رسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے
اس سے بڑی سزا ہے۔ مگر جو لوگ توبہ کرلیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ،
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا
ہے۔“قرآن مجید نے لفظ ”حرابہ“استعمال کیا ہے جو”حرب“سے ماخوذ ہے اور اس کا
اصل مطلب چھین لینا اور سلب کرلینا کے ہیں اور یہ لفظ ”سلم“یعنی امن و
سلامتی کے متضاد کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت میں نازل
کیے گئے حکم کا اطلاق کسی فرد پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے مخاطب وہ گروہ اور
جماعتیں ہیں جو اجتماعی شکل میں رہزنی اور قتل و غارت گری پر کھڑی ہوں اور
اسلامی ریاست کا امن سکون برباد کرنے کے درپے ہو جائیں۔ بغاوت اور مسلح
کشاکش بھی اسی قانون کے زمرے میں آتے ہیں جبکہ ملک میں اسلامی قوانین نافذ
ہوں اور حکمران خلافت راشدہ کی طرز پر شورائیت کے نظام کے تحت نظام مصطفیٰ
رائج کیے ہوئے ہوں۔ اسلامی قوانین کے ماہرین جنہیں اصطلاح میں ”فقہائے
کرام“کہا جاتا ہے ان کا اس بات پر اجماع ہے کسی ایک فرد کے جرم ڈکیتی یا
چوری یا جیب کتری وغیرہ پر اس حد کا اطلاق نہ ہوگا۔ دوسری حدود اور حد
حرابہ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اس حد کا اطلاق اسلامی ریاست میں بسنے والے
غیر مسلموں پر بھی ہوتا ہے جنہیں اصطلاح میں ”ذمی“کہا جاتا ہے۔
جب کبھی بھی اسلامی ریاست میں انسانوں کا کوئی گروہ یاجماعت درج ذیل جرائم
کا مرتکب ہوگا تو اس پر حد حرابہ جاری کی جائے گی:
۱۔مال لوٹنا یا ڈکیتی کرنا۔
راستہ روک کر مسافروں کا لوٹنا۔
۲۔ عزت وآبرو پر حملہ کرنا۔
۳۔قتل و غارت گری و خونریزی۔
۴۔حکومت وریاست کے خلاف بغاوت۔
کسی بھی اور ذریعے سے بدامنی پھیلانا۔
قرآن مجید نے حد حرابہ کی ذیل میں چار سزائیں بتلائی ہیں
۱۔ان کو قتل کیا جائے یا
۲۔سولی چڑھایاجائے یا
۳۔ ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں یا
۴۔ ان کو جلاوطن کردیا جائے۔
ایک بار پھر یہ بات واضح رہے یہ سزائیں پوری جماعت کے لیے یا اس پورے گروہ
کے لیے تجویز کی گئی ہیں جو درج بالا جرائم کا مرتکب پایا جائے گا۔ تاہم ان
میں سے کوئی ایک سزا ہی جاری کی جاسکے گی کیونکہ قرآن مجید نے ”یا“کے لفظ
کے ساتھ حاکم کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ ان میں سے کوئی ایک سزا دے کر باقی
سزائیں ساقط کرسکتا ہے۔ حاکم چاہے تو پورے گروہ کو کوئی ایک سزا دے دے اور
یہ اختیار بھی حاکم کے پاس موجود ہے کہ پورے گروہ میں سے فرداً فرداً مختلف
سزائیں دے۔ آپ ﷺ نے ایک واقعہ میں اسی طرح فیصلہ فرمایا تھا کہ حضرت ابن
عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے آپ ﷺ بے ابوبردہ اسلمی سے صلح کا
معاہدہ فرمایا لیکن اس نے عہد شکنی کی اور کچھ لوگ جو مسلمان ہوکر مدینہ
آرہے تھے ان پر ڈاکہ زنی کی، اس پر جبرئیل یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ
۱۔ جنہوں نے قتل کیا اور مال بھی لوٹا ان کو سولی چڑھایا جائے۔
۲۔ جنہوں نے صرف قتل کیا اور مال نہیں لوٹا ان کو قتل کیا جائے۔
۳۔ جنہوں نے صرف مال لوٹا اور قتل نہیں کیا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے
کاٹے جائیں۔
۴۔ جنہوں نے صرف لوگوں کو ڈرایا اور امن عامہ میں مخل ہوا ان کو جلاوطن کیا
جائے(یا وہ قید خانے میں ڈال دئے جائیں)۔
دور نبوت میں کچھ لوگ مدینہ آئے اور بوجوہ انہیں طویل قیام کرنا پڑا لیکن
جب جانے لگے تو لوٹ مار اور خون خرابہ کر کے چلتے بنے، آپ ﷺ نے انہیں
گرفتار کرایا اور ان پر حد حرابہ جاری فرمائی۔
مذکورہ قرآنی آیت کا آخری حصہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قابو پانے سے
پہلے اگر یہ گروہ توبہ کر لے تو اس پر حد حرابہ ساقط ہوجائے گی یعنی تب ان
کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ قبیلہ مراد کا ایک فرد حضرت ابو موسی اشعری
کے پاس آیا جب وہ کوفہ کے گورنر تھے اور مسجد میں تشریف رکھتے تھے، اس نے
کہا اے امیر میں فلاں ابن فلاں ہوں، میں نے اﷲ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ کے
خلاف لڑائی لڑی اور زمین میں فساد کی کوشش کی لیکن اس سے پہلے آپ مجھے
گرفتار کرتے میں تائب ہوکر آ چکا ہوں۔ حضرت ابو موسی اشعری نے کھڑے ہوکر اس
کی معافی اعلان کردیا۔اسی طرح علی اسدی نامی ایک شخص جس نے خوب لوٹ مار اور
قتل و غارت گری کی اور گرفتار نہ ہوا پھر توفیق ایزدی سے قرآنی آیات سن کر
توبہ کرتا ہوا ایک رات مدینہ میں مسجد نبوی میں آن بیٹھا، اجالا ہوا تو
لوگوں نے پہچان لیا اور اسے قتل کرنے پر آمادہ ہوئے۔ دور نبوت و دور خلافدت
راشدہ بیت چکا تھا چنانچہ وہاں موجود اصحاب رسول ﷺ نے اس شخص کی توبہ کو
قابل معافی گردانا اور اسے چھوڑ دیا گیا بعد میں اس شخص نے رومیوں کے ساتھ
جہاد کیا اور شہادت کا اعلیٰ مقام بھی حاصل کیا۔ تاہم اس حکم میں یہ بات
پیش نظر رہے کہ توبہ کے بعد صرف حقوق اﷲ ہی اس پر سے ساقط ہوں گے اور جن
جرائم کا مدعی اﷲ تعالیٰ تھا ان کے بارے میں اس سے باز پرس یا سزا نہیں دی
جائے گی جبکہ اگر اس نے کسی بندے کا حق مارا ہوگا تو اس کی معافی اسے نہیں
مل سکے گی یہاں تک کہ مدعی اسے معاف کرنے پر رضامند ہو جائے۔
مغربی تہذیب نے اسلام کی لائی ہوئی سزاؤں کو غیر انسانی قرار دیا اور نام
نہاد انسان دوست قوانین جاری کیے لیکن اب ان ممالک میں امن عامہ کا معاملہ
اس حد تک خراب ہوچکا ہے کہ وہاں کی حکومتیں مجبور ہیں کہ پریس، میڈیا، عوام
اور دوسری دنیاؤں سے چھپ کر ایسے فسادی گروہوں کو ماورائے عدالت ہی ان کے
وجود سے زمین کو پاک کردیا جاتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر ہی نہیں ہوتی۔
یہودیوں کے ساتھ ہولو کاسٹ کا برتاؤ اسی رویے کی ایک عمدہ مثال ہے کہ یورپی
حکومتوں نے اس نسل کو نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن
ایک وقت کے بعد وہ حقائق منظر عام پر آ گئے اور دنیا کو اس سے آگاہی ہو
گئی، اور پھر بوسینیا ہرزگوینیا کے اندر مسلمانوں سے کیا جانے والا سلوک
آخر کس انسان دوست قانون کے تحت تھا؟؟جبکہ کتنے ہی جرائم پیشہ گروہ ہیں جو
خفیہ ایجنسیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں کیونکہ عدالتوں میں پیش کرنے کے بعد
ملکی قوانین جو”انسانیت دوست“قوانین ہیں ان کے جرائم کی کماحقہ سزا دینے کے
قابل نہیں ہوتے اور کم تر سزا پا چکنے کے بعد ان گروہوں کے عزائم اور ارادے
مزید بلند ہوجاتے ہیں اور امن و امان قائم کرنے والی مشینری ان کے ہاتھوں
مفلوج اور بے بس ہو جاتی ہے۔ پس اسلام نے جو سزائیں مقرر کی ہیں وہ نہ صرف
یہ کہ انسانیت سے قریب ترین ہیں بلکہ ان سزاؤں کے نفاذ کے بعد امن عامہ کی
ضمانت بھی یقینی ہے اور جب تک عالم انسانیت رحمة اللعالمین ﷺ کے لائے ہوئے
قوانین کی طرف پلٹ کر نہیں آئے گی اس کرہ ارض پر امن و پیار و محب و آشتی
کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ |