سلمان ندا کی ماں کی بمباری بھول گیا -- اس کی سوچوں اب
ندا کے گرد گھومنے لگے تھیں --- ہمارے معاشرے نے زندگی مشکل بنا دی تھی---
جس گھر میں چاروں طرف غربت ، مایوسی اور روز ایک نئی آزمائش ڈیرے تھے وہاں
اپنی چھوتھی دہائی (4th Decay) میں داخل ہو جانے والی لڑکی جو بہت جلد عورت
بن جانے والی تھی--- وہاں شادی ایک بہت بڑا مسلہ بنا دی گئی تھی -- اس میں
زیادہ ہاتھ بھی عورت زات کا تھا --- جب ماں ہوتی ہے تو چاند سی بہو چایئے
بہن کو بھائی کے لیے چاند سی مگر بما جہیز لڑکی چایئے--- دیورانی ، جیٹھانی
کے لیے فرمانبردار قسم کی غلام چایئے ہوتا ہے--- جو جہیز لائے یا نہ لائے
جو ان سے زیادہ خوبصورت نہ ہوں --- صرف جی جی کے الفاظ جانتی ہوں -- اس کی
گردن Right Left کبھی حرکت نہ کرتی ہوں -- یہ سب ان ہی عورتوں کے کمالات
تھیں -- شکار بھی عورت اور شکاری بھی عورت--- وہ ندا کو کیا جواب دیتا
لوگوں نے کھا پی کے اس کے آنکھوں کو خوابوں کے حوالے کر کے پلٹ کے خبر بھی
نہ لی کہ جن آنکھوں کو خواب دیکھانے کی عادت ہوگئی ہے وہ کس حال میں ہے پھر
دوسرا وار پھر تیسرا-- پھر برس ک برس بیت جائے اپنی سہیلیوں اور رشتے داروں
کی شادیوں میں جا جا کے عجیب عجیب باتیں سن کے لڑکی کو یقین ہو جاتا ہے کہ
اس میں ہی کوئی بڑی کمی ہے-- ورنہ کیسے کیسے لوگ شادی کر کے آباد ہوئے ہیں
--- پھر کبھی وہ صورت کبھی سیرت کبھی غربت کبھی ماں باپ، اور قسمت کو دوش
دینے لگتی ہے--- مگر اس کے دوڑتی ہوئی عمر نہیں روکھ کے دیتی -- ہر صبح ،
ہر شام، ہر رات، ایک انجان سا خوف اس کے ساتھ چمٹ جاتا ہے--- جو اس کے
آنکھوً کے گرد حلقے بالوں میں سفیدی ، پچھکے ہوئے زرد گال دے کر ایسا بنا
دیتا ہے جیسے جوانی حسن نامی چیز کا اس کی زندگی میں گزر ہی نہ ہوا ہوں ---
پورا معاشرہ ایسی لڑکیوں کا مجرم تھا اور اس جرم کو حق لازمی ، ضروری ، اور
دانائی سمجھ لیا گیا تھا-- ندا کا ہر شکوہ بجا تھا -- اس میں کوئی شک نہیں
غربت قسمت ، اس کی معمولی شکل کا کوئی قصور نہ تھا--- بس یہ سارا معاشرہ ہی
اس کا مجرم تھا اس کا صرف ایک ہی جرم تھا وہ اپنی مرضی کے بغیر ہی اس
معاشرے میں پیدا ہو گئی تھی مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے ایک پیار کرنے والا
شوہر چھوٹا سا گھر اولاد کچھ مالی آسودگی اس کو قبول صورت سے پرکشش عورت یا
لڑکی میں بدل سکتی تھی اس میں کوئی شک نہیں کہ شوہر اپنی ساری محبت اپنی
بیوی پر نچاور کرے تو وہ خود کو گھر اور اولاد پر لٹا دیتی ہے--- اس کا
سکون شوہر کی خدمت میں بدل جاتا ہے --- اس کی ممتا بچوں پر بہار کی برسات
کی طرح برستی ہے--- میں کھل کے جینا چاہتی ہوں بس ایک نرم سی محبت میرا
خواب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
|