نفسِ ذکیہ - قسط نمبر ۔ 9

’’برائے مہربانی اپنے سیٹ بیلٹ باندھ لیجئے ۔ جہاز لینڈ ہو رہا ہے۔‘‘
ہوائی جہاز میں ائیر ہوسٹس نے اعلان کیا۔ تمام مسافروں نے اپنے اپنے سیٹ بیلٹ باندھ لئے۔

دلاور اور سبین نے بھی سیٹ بیلٹ باندھ لئے۔ دونوں بہت ایکسائٹڈ تھے۔ وہ بھی اسی جہاز میں بیٹھے تھائی لینڈ جا رہے تھے۔ یوں تو تھائی لینڈ لوگ ہنی مون پر جاتے ہیں۔ مگر یہ دونوں پہلے ہی نکل پڑے تھے۔

ائیر پورٹ پر امیگریشن کرانے کے بعد دونوں نے ایک ٹیکسی لی اور اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔
ہوٹل ریسیپشن پر ایک خاتون نے انہیں ان کے کمروں کی چابیاں دیں۔ دونوں الگ الگ کمروں میں ٹھہرے تھے۔

’’تھوڑی دیر ریسٹ کر لیتے ہیں…… پھر ملتے ہیں‘‘۔ دلاور بولا۔تقریباََ شام ہو چکی تھی۔ یعنی اب انہیں رات کو ہی ملنا تھا۔
ویسے تھائی لینڈ میں جس مزے کے لئے یہ لوگ آئے تھے وہ مزہ انہیں رات کو ہی ملنا تھا۔ لہذا دونوں نے اپنے اپنے کمروں کی راہ لی۔

رات کے نو بجے سبین ایک چھوٹا سا وائٹ کلر کا اسکرٹ بلاؤز پہن کر اپنے روم سے باہر آئی۔ اس کی ٹانگیں بالکل کھلیں تھیں اور گلا بھی بہت بڑا تھا۔ دلاور بھی سفید رنگ کی اسکن ٹائٹ شرٹ اور بلیک پینٹس زیب تن کئے نیچے ریسیپشن پر اس کا انتظار کر رہا تھا۔ دونوں بلا کے خوبصورت لگ رہے تھے۔

دونوں نے ایک ٹیکسی بلائی اور ایک مشہور نائٹ کلب میں پینے پلانے چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔

’’کیا معاملہ ہے یار!‘‘۔ میں نے دوسرے روز ہی فہد کے ایک قریبی دوست کوبلا کر پوچھ گچھ شروع کر دی۔ وہ بھی میرے اسٹور میں ہی کام کرتا تھا۔
’’بس سر وہ……‘‘۔ وہ تھوڑا رکا، پھر بولا ۔’’ بس سر! وہ ایک لڑکی کو پسند کرتا ہے‘‘۔
’’اچھا!‘‘ میرے چہرے پر حیرانی اور فکر مندی کے ملے جلے تاثرات تھے۔
’’تو؟؟؟‘‘ میں نے آگے پوچھا۔
’’بس بات دونوں کے گھر والوں پر کھل گئی ہے …… تو ……‘‘
’’تو بس وہی آپس میں لڑائی جھگڑے…… اور دشمنیاں…… جو شروع ہو جاتی ہیں ایسے معاملوں میں……‘‘ اس نے مختصراْ بات کی۔
’’اچھا!‘‘ میں غور سے اس کی بات سن رہا تھا۔ اور معاملے کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’تو وہ مان نہیں رہے؟‘‘ میں نے یوں ہی بات بڑھانے کے لئے سوال کیا۔
’’نہیں سرٖ! وہ مان نہیں رہے…… بلکہ فہد پر اور اس لڑکی پر بہت تشدد بھی کیا ہے انہوں نے……‘‘
’’وہی جو غیرت کا مسئلہ بن جاتا ہے……‘‘ وہ ایسے انداز میں بولا کہ اب اتنی بات تو مجھے خود سمجھ آجانی چائیے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہی ہوتا ہے۔ غیرت کے نام پر تو قتل بھی ہو جاتے ہیں۔ آئے دن اخباروں میں ایسی خبریں لگتیں رہتی ہیں۔

’’ہم م م……‘‘ میں نے ہونٹ بسور کر سر دائیں سے بائیں جانب ہلایا۔
باقی حالات تو میں واقعی سمجھ گیا تھا۔ عاشق اپنے محبوب کی یاد میں تڑپ رہا ہے۔ وہی جو لیلی مجنوں، شیریں فرہاد کی باتیں ہم سنتے آتے ہیں۔

پرمیں نے پہلے کبھی بذاتِ خود اپنی آنکھوں سے ایسا مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ کسی نے اپنے ہاتھوں کی رگیں کاٹ ڈالیں ہوں…… کسی کے فراق میں…… میرے پلے یہ بات نہیں پڑ رہی تھی۔ کیا یہ جزبات حقیقتاْ انسان پر اس طرح اپنا تسلط جما لیتے ہیں کہ وہ اپنی ہستی کو ہی نیست و نابود کرنے پر تل جائیں…… اپنے آپ کو نقصان پہنچانے لگیں۔ کیا حاصل ہوتا ہے اس سے انہیں؟ کیا جتانا چاہتے ہیں یہ عاشق سب پر؟؟؟ کہ انہیں اپنے محبوب سے وصال کے لئے اینی جان کا نذرانہ بھی پیش کر سکتے ہیں؟؟؟ کیا یہ ایک احتجاج ہوتا ہے معاشرے کے سامنے…… جب وہ مغلو ب ہو جاتے ہیں …… کچھ اور بن نہیں پڑتا تو بھوک ہڑتال کی طرح اپنا خون بہانے لگتے ہیں……

یا پھر وہ یہ جتانا چاہتے ہیں کو ان سے ان کے جسم کا ایک ٹکٹا الگ کیا جا رہا ہے…… اور جب جسم کا کوئی حصہ کاٹ کر الگ کیا جاتا ہے تو خون تو نکلتا ہے……

’’السلام علیکم!‘‘ میں اپنے آفس میں بیٹھا یہی پہیلیاں سلجھانے کی کوشش کر رہا تھا کو مجدی کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ میں جن سوچوں میں گم تھا ، یک دم وہاں سے نکل آیا۔
کچھ دیر ہم رسمی بات چیت کرتے رہے کہ پھر مجھے ایک کام یاد آ گیا۔ ’’ یار ایک انگوٹھی خریدنی ہے‘‘۔

’’انگوٹھی!‘‘ مجدی کی ہونٹوں پر ایک شرارت بھری مسکراہٹ آ گئی۔
’’انگوٹھی یا جوتے؟‘‘ اس نے مذاق کیا کہ میرا تو جوتوں کا کاروبار ہے۔ مجھے انگوٹھی سے کیا لینا۔
’’ہا ہا ہا…… انگوٹھی بھئی……‘‘ ۔ ’’ کیا ایک تم ہی لوگوں کو انگوٹھیاں پہنا سکتے ہو؟؟؟‘‘ ۔ میں نے بھی طنز کیا۔ ابھی حال ہی میں مجدی کی منگنی جو ہوئی تھی۔
’’ہا ہا ہا…… نہیں یار ضرور پہناؤ انگھوٹھیاں……مگر یہ تو بتاؤ کہ کس کو؟؟؟‘‘ مجدی نے تفتیش شروع کر دی۔ میں نے مسکرا مسکراکر مجدی کو اپنے اور فوزیہ کے بارے میں بتایا۔

۔۔۔۔۔۔۔

ساحلِ سمندر بے شک ایک دلفریب مقام ہوتا ہے۔ محبت کرنے والے تنہائی چاہتے ہیں…… پر فضا مقام چاہتے ہیں…… خاموشی چاہتے ہیں…… رات کی چاندنی چاہتے ہیں۔ میں اور فوزیہ ساحلِ سمندر پر شام کے ایک پہر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چہل قدمی کر رہے تھے۔

عجیب احساس ہوتا ہے اس محبت میں بھی۔ جدائی ہو تو ملنے کو جی کرتا ہے۔ دور ہوں تو پاس آنے کو جی کرتا ہے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ہو تو گلے لگنے کو جی کرتا ہے…… اور یہ تڑپ اور کشش بڑھتے بڑھتے دو وجودوں کو ایک کر دیتی ہے۔ میں اور فوزیہ بھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کچھ ایسے ہی احساس میں جل رہے تھے۔ہم دونوں ہی زور زور سے ہر ہر قدم پر پانی پر پیر مار رہے تھے۔ شاید یہ ہماری بے چینی کو تسکین پہنچانے کا ایک زریعہ تھا۔

جوں ہی کوئی بڑی لہر آنے لگتی فوزیہ ڈر کر میرے اور قریب ہو جاتی …… میں شکر کرتا کہ لہر آتی اور ہماری قربت کو بڑھا جاتی۔ جب وہ ہم سے ٹکراتی تو جیسے کوئی طوفان آ جاتا۔ فوزیہ ڈگمگا جاتی اور میں بڑھ کر اس کو سنبھالتا کہ کہیں وہ گر نہ جائے…… کتنا مسحور کن تھا وہ احساس…… کتنا دلکش اور پر فریب تھا وہ وقت……

شام ختم ہونے کو تھی۔ سورج غروب ہو نے لگا۔، ہم ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ٹکٹی باندھے سورج کو ڈوبتا دیکھ رہے تھے۔ آہستہ آہستہ ہماری آنکھوں کو دھوکا دیتے سورج غائب ہو گیا۔
فوزیہ نے ایک گہرا سانس لیا۔ میں نے مسکرا کر اسے دیکھا۔ میرے آنکھوں میں چمکتی محبت کو فوزیہ نے محسوس کیا۔ وہ بھی شرما کر مسکرا دی اور ہم سمندر سے منہ پھیر کر واپس پلٹے۔

فوزیہ نے میرا ہاتھ اٹھا کر دیکھا۔
’’یہ چھ انگیاں کیوں ہیں تمہارے ہاتھوں میں؟؟؟‘‘ مجھے اس وقت فوزیہ سے ایسے سوال کی توقع نہ تھی۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’ہیں؟؟؟‘‘ وہ ہنسنے لگی اور مجھ سے پھر وہی سوال کیا۔ میں پھر چپ ہی رہا۔
’’چھ انگلیاں کیوں ہیں؟؟؟ سب کے ہاتھوں میں تو پانچ ہوتی ہیں…… ‘‘ وہ پھر میرا مذاق اڑانے لگی اور اپنا ہاتھ اٹھا کر مجھے دکھایا۔ ہاں۔ اس پر پانچ انگلیاں ہی تھیں جیسی سب کی ہوتی ہیں۔
میں با مشکل اور نا چاہتے ہوئے ہلکا سا ہنس دیا۔
’’نارمل نہیں ہو تم…… ابنارمل ہو……ہاہاہا……‘‘ ۔ آج پہلی بار فوزیہ نے کوئی ایسی بات کی تھی۔ وہ مذاق ہی کر رہی تھی۔ مگر میرے لئے یہ صرف مذاق نہ تھا۔ اگر میرا ہاتھ ہی نہ ہوتا تو کیا فوزیہ تب بھی مجھ سے مذاق کرتی۔ اگر کسی کی آنکھیں نہ ہوں اور کوئی ان سے ان کے اندھے پن کے بارے میں مذاق کرے تو کیا اسے برا نہیں لگے گا۔
الحمد ﷲ مجھ میں تو اﷲ نے کوئی کمی نہیں رکھی تھی مگر میری اس عجیب خلقت کا مذاق بچپن سے ہی اڑایا گیا تھا۔ اور آج میری محبت نے بھی میرا مذاق اڑا دیا۔ میں اندر ہی اندر فوزیہ کی باتوں پر دکھی ہو گیا۔ مگر میں نے یہ اس پر ظاہر نہ ہونے دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

دو دن بینکاک میں رہنے کے بعد دلاور اور سبین نے پھوکٹ نامی ایک جزیرے کی سیر کرنے کا پروگرام بنایا۔

تھائی لینڈ میں لوگ ذیادہ تر بینکاک جاتے کہ وہ یہاں کا دار الخلافہ ہے۔ اس کے علاوہ خوبصورت ساحلوں اور قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لئے پٹایا یا پھوکٹ آئی لینڈ ہی لوگ جایا کرتے تھے۔ سر سبز و شاداب یہ جزیرہ دنیا بھر کا پسندیدہ سیاحتی مرکز تھا۔ دنیا کے کونے کونے سے لوگ یہاں چھٹیاں گزارنے آئے ہوئے تھے۔ خواں وہ چین سے ہوں یا عرب سے، امریکہ سے ہوں یا یورپ سے …… پاکستان سے ہوں یا افریکہ سے…… یہاں ہر نسل مل جائے گی۔ تھی تو یہ جگہ زمین پر جنت کی مانند مگر سچ پوچھو تو سارے جہنمی یہاں موجود ہوتے تھے۔ کرتوت جو جہنمیوں والے ہوتے……

یہاں کے ہوٹل پہنچتے ہی ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی۔ شام کا وقت تھا۔ ماحول رومانٹک ہو گیا۔
’’واؤ……‘‘ سبین نے ہوٹل کا سوئمنگ پول دیکھ کر ایکسائٹڈ ہو کر کہا۔
وہ واقعی بڑا دلفریب پول تھا۔ بہت بڑا اور کھلا…… کناروں پر چھوٹی چھوٹی آبشاریں بنائیں گئیں تھی…… اور ناریل کے درخت لگے تھے۔ پول کے پانی میں انڈر واٹر لائٹیں بھی لگی ہوئیں تھی۔پول ہی میں ایک منی بیئر بار بھی بنایا گیا تھا۔ مدھم مدھم سی آواز میں وہیں میوزک بھی بج رہا تھا۔ اوپر سے بارش…… اُف …… تباہی کا ماحول تھا۔
’’مجھ سے تو صبر نہیں ہو رہا……‘‘۔


’’چلو جلدی سے چینج کر کے آتے ہیں اور سوئمنگ کرتے ہیں……‘‘ سبین ایکسائٹمنٹ میں پاگل ہو رہی تھی۔
’’ہاہاہا…… لیٹس گو!‘‘ دلاور بھی اچھل پڑا۔

خوب انجوائے کرنے کے بعد یہ دونوں تھک گئے۔
’’ چلو پھر رات کو نکلیں گے‘‘۔ دلاور نے رات کا پروگرم بنایااور دونوں اپنے اپنے کمروں میں گھس گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔

’’ٹرنگ ٹرنگ……‘‘ سبین کے روم میں فون سیٹ کی گھنٹی بج رہی تھی۔
وہ تو گھوڑے بیچ کر سوئی ہوئی تھی۔ منہ پر تکیہ رکھا تھا۔ فون کی آواز کیسے آتی۔
پھر اسے یوں لگا جیسے خواب میں کسی فون کی گھنٹی بج رہی ہو۔ آہستہ آہستہ وہ اپنے ہواسوں میں آنے لگی۔
’’اوہ…… یہ تو فون بج رہا ہے……‘‘۔ اس نے اپنے آپ سے کہا اور تکیہ ایک طرف کو پھینکا۔

’’ہیلو میڈم! آٹھ بجے کا ٹائم تھا باہر نکلنے کا؟؟؟‘‘
’’آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئیں؟؟؟‘‘ یہ دلاور کی آواز تھی۔
’’اوہ ڈیئر…… مجھے تو بہت نیند آ رہی ہے……‘‘ ۔’’ کل چلیں گے……‘‘ یہ کہہ کر سبین پھر نیند کی وادیوں میں گم ہونے لگی۔
’’ارے نہیں…… چلو…… بہت مزے کی جگہ ہے یہ……‘‘
’’روزروز تھوڑی آنا ہوتا ہے……‘‘
’’ہیلو…… ہیلو……!!!‘‘ دلاور کی کوئی نہیں سن رہا تھا۔ سبین ریسیور رکھ کر پھر سو چکی تھی۔ دلاور کی چہر ے پر ایک شیطانی مسکراہٹ آ گئی۔ آج اکیلے عیاشی کرنے کا اچھا موقع مل گیا۔ محض ایک لڑکی کے ساتھ کہاں اس کا دل بھرتا تھا!
وہ تیار تو پہلے سے ہی تھا۔ باہر جا کر منی ایکسچینج سے ذولقرنین کے ادھار دئیے ہوئے پیسے چینج کرائے اور وہاں کی مشہورِ زمانہ بانگلہ اسٹریٹ کی طرف چل پڑا۔

یہ اسٹریٹ کیا تھی…… عیاشی کا گڑھ تھا۔ دائیں اور بائیں ہر جانب بیئر بار بنے تھے۔ کہیں مساج پالر تھے۔ جہاں عورتیں مردوں کا باڈی مساج کرتیں…… کہیں نیم برہنہ حالت میں تھائی لڑکیاں پول ڈانس کر رہی تھیں۔ کہیں اسٹرپ ڈانس کی محفل سجی تھی تو کہیں ، فحاشہ عورتیں مردوں کی گود میں بیٹھیں انہیں شراب پلا رہی تھیں۔ شریف آدمی تو یہاں پْر بھی نہ مارے۔
’’بوس…… یہ دیکھیں……‘‘۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک شخص ایک فوٹو البم لئے دلاور کے کان میں آ کر بولا۔ البم میں بہت سی لڑکیوں کی برہنہ تصویریں تھیں۔
دلاور نے مزے سے البم کا ایک ایک ورق پلٹ کر دیکھنا شروع کر دیا۔
’’ہیلوو و و …… مساج ……مساج……‘‘ ۔اتنے میں کسی نے دلاور کی پینٹس پر بڑی غیر مناسب جگہ پر ہاتھ پھیرا۔ اس نے اچک کر دوسری طرف دیکھا۔ کوئی لڑکی عریاں لباس زیبٍ تن کئے دلاور کو مساج کروانے پر اکسا رہی تھی۔
پھر کسی نے آکر دلاور کے ہاتھ میں ایک الکحول ڈرنک تھما دی۔ یہ وہاں فری بٹ رہیں تھیں۔

’’آہ…… کیا بات ہے……‘‘ ۔ دلاور نے خود سے کہا…… بیئر کا ایک گھونٹ چڑھایا اور ایک ایک کر کے سارے کارنامے انجام دئیے۔

۔۔۔۔۔۔۔

مجدی ابھی ابھی چرچ سے پرے کر کے میری طرف آیا تھا۔ کوئی امید کی کرن نظر نہیں آرہی تھی۔ نہ کہیں کوئی جاب کا آسرا تھا……نہ کہیں سے کوئی انٹرویو کی کال آئی تھی۔ وہ بہت پریشان تھا۔ ان کے ہونے والے سسر اچھے خاصے کھڑوس آدمی تھے اور کیونکہ وہ ایک کھاتی پیتی فیملی تھی لہذا پیسے کا غرور بھی تھا۔ بہرحال ابھی تک معاملہ ہاتھ میں ہی تھا۔ مگر انہیں اس بات کی اطلاع ہو چکی تھی کہ مجدی بے روزگار ہو گیا ہے لہذا مجدی اور اپنی بیٹی کے رشتے کے معاملے میں وہ لوگ پریشان تھے۔

کبھی کبھی تو مجدی کویہی لگتا جیسے اس کی دعائیں کوئی سن ہی نہیں رہا۔ پھر وہ اپنے آپ کو کوستے لگتا…… وہ کوئی بہت ٹیلینٹڈ آدمی تو تھا نہیں۔ کبھی اپنی قسمت کا رونا رونے لگتا اور سب سے ذیادہ ٹھیس تو اسے اس معاشرے نے پہنچائی تھی، ہمیشہ سے ہی کرسشن ہونے کی وجہ سے وہ تعصب کا شکار رہا تھا۔
’’تو مسلمان ہو جاؤ نہ تم!!!‘‘ ۔ میں نے مجدی کو فٹاک سے جواب دیا۔ وہ پھر وہی راگ الاپ رہا تھا کہ اسے نوکری اس لئے نہیں ملتی کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔
’’ہاں!…… مسلمان ہو جاؤں…… دہشت گرد بن جاؤں……‘‘ ۔ مجدی نے چڑ کر کہا۔
’’کیا؟؟؟‘‘ ۔’’ کیا سارے مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں؟؟؟‘‘ میں نے آنکھیں پھاڑ کر حیرانی سے مجدی کا جواب سنا۔ وہ ایسی باتیں کرتا نہیں تھا مگر ظاہر ہے آج کل پہلے سے ہی چڑا ہوا تھا لہذا الٹی سی بات کہہ دی۔
مجدی نے کوئی جواب نہیں دیا نس منہ بنایا۔
’’کیا ہم دہشت گرد ہیںٖٖ؟؟؟‘‘ ظاہر ہے مجھے اس کی بات بہت بری لگی تھی۔ اور اس کا مجدی کو بھی اندازہ تھا۔
مجدی نے پھر منہ بنایا اور کچھ نہیں کہا۔
’’عجیب باتیں کر رہے ہوں؟‘‘ میں نے اسے صحیح سنائی۔ اُس نے سر جھکا لیا۔

کچھ دیر کے لئے خاموشی چھا گئی۔ دونوں اندر ہی اندر ایک تذبذب کا شکار تھے۔
’’میرا کیا قصور ہے کہ میں کرسشن گھر میں پیدا ہو ا؟؟؟ اگر تم میرے گھر میں پیدا ہوتے تو میری طرح کرسشن ہوتے …… تب میں پوچھتا!!!‘‘ مجدی نے دبی سی آواز میں کہا۔
بہت گہرائی ، بہت سے سوال، بہت فکر انگیز تھی اس کی بات…… میں چپ سا ہو گیا …… دل ڈوب سا گیا…… یہ تصور کر کے ہی کے میں غیر مسلم ہوتا…… وہ بھی اس معاشرے میں…… پاکستان میں…… جو کچھ مجدی کے ساتھ ساری زندگی ہوتا رہا میں خود اس کا شاہد تھا۔

ایک بار ہماری گلی میں ایک صفائی کرنے والا آیا۔ جسے ہم جمعدار کہتے ہیں۔ پتا نہیں وہ کہاں سے آ گیا تھا۔ خود ہی باہر آ کر گلی کی صفائی کرنے لگا۔ میں اس وقت چھوٹا تھا اور گلی میں ہی کھیل رہا تھا۔ کوئی ہماری گلی کو صاف نہیں کرتا تھا۔ اس طرح اچانک ایک آدمی کو صفائی کرتا دیکھ کر میں نے اس سے سوال کیا ۔’’ انکل آپ ہماری گلی کی صفائی کیوں کر رہے ہیں؟؟؟‘‘
اس نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا اور پھر سے صفائی کرنے میں مشغول ہو گیا۔
میں گھر کے اندر بھاگا اور امی کو اطلاع دی کہ کوئی آدمی آیا ہے اور باہر صفائی کر رہا ہے۔
’’اس سے کہہ دینا…… کوئی پیسے ویسے نہیں دیں گے ہم…… ‘‘ امی نے مجھے سمجھایا۔

’’امی دے دیں نا پیسے …… وہ صفائی بھی تو کر رہا ہے!!!‘‘ میں نے امی سے اصرار کیا۔
’’کیوں؟ مانگے ہیں کیا اس نے پیسے؟؟؟‘‘ امی نے مجھ سے پوچھا۔
’’نہیں…… مانگے تو نہیں ہیں……‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’پھر؟؟؟ بیٹا گلی صرف ہماری تھوڑی ہے ۔ سب کی ہے۔ صرف ہم کیوں پیسے دیں؟؟‘‘ امی نے حجت بیان کی۔میں’’ اچھا‘‘ کہہ کر پھر باہر آ گیا۔

تھوڑی دیر تو میں اسے صفائی کرتا دیکھتا رہا پھر بولا۔’’ انکل !ہم پیسے نہیں دیں گے‘‘۔
اس نے پھر کوئی جواب نہیں دیا اور صفائی کرتا رہا۔ میں بھی حیرانی سے دیکھ رہا تھا کہ مفت میں کون کام کر رہا ہے۔ میں کم عمر تھا مگر اتنا تو سمجھتا تھا کہ مفت میں کوئی کام نہیں کرتا۔
کچھ دیر میں اس نے صفائی مکمل کر لے۔ گلی صاف ستھری ہو چکی تھی، سارا موٹم موٹا کچرا کچرا کنڈی میں ڈال دیا گیا تھا اور بچا کچا اکھٹا کر کے اسے آگ لگا دی گئی تھی۔
’’بیٹا ایک گلاس پانی لا دو‘‘۔ اس صفائی والے نے کام ختم کر کے کہا۔ وہ اپنے ہاتھ پاؤں جھاڑ رہا تھا۔ میں اندر کو بھاگا کہ پیسے تو دے نہیں رہے ہم۔ کم از کم میں اسے پانی تو پلا دوں۔ میرے دل میں اس کا احساس تھا۔

’’کیا کر رہے ہو ذولقرنین؟‘‘ امی نے مجھ پر نظر رکھی ہوئی تھی۔
’’وہ امی! وہ پانی مانگ رہا ہے۔‘‘ میں نے جلدی سے کہا اور فرج سے پانی کی بوتل نکال کر کچن میں سے گلاس ڈھونڈنے لگا۔
’’رُکو……‘‘۔ ’’ پہلے جاؤ اس سے اس کا نام پوچھ کر آؤ……‘‘ امی نے حکم دیا۔

میں تھوڑی ہی دیر میں نام پوچھ کر واپس آ گیا۔ ’’ امی ! مائیکل ہے اس کا نام……‘‘۔
امی اٹھیں۔ کچن میں آئیں۔ میں پیچھے کو ہو کر کھڑا ہو گیا۔
وہ بہت سے کیبنٹ کھول کھول کر کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہیں تھی۔ کبھی کوئی برتن نکالتیں تو کبھی کوئی…… پھر اسے واپس رکھ دیتیں…… پھر کوئی دوسرا کٹورا نکال لیتیں……
’’یہ لو……‘‘۔ امی نے ایک پرانا کپڑے دھونے والا پلاسٹک کا مگا مجھے تھما دیا کہ اس میں اسے پانی پلا دوں۔

۔۔۔۔۔۔۔

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 85347 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More