خبر پڑھتے ہی اپنے حالات آنکھوں کے سامنے گھومنے
لگتے ہیں، اپنے ہاں تو یہ عام معمول کی باتیں ہیں ، تاہم اصل خبر تو سعودی
عرب سے آئی ہے، اور ایسی خبریں وہاں سے آئے روز آتی ہی رہتی ہیں، ان میں سے
بہت سی ایسی ہوتی ہیں، جن پر غیر ملکیوں کو بھی بہت سے تحفظات ہوتے ہیں، جن
خبروں پر کوئی اعتراض نہیں بھی ہوتا، تنقید اُن پر بھی کر دی جاتی ہے۔ خبر
کچھ یوں ہے کہ وہاں سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعے دوسروں پر نازیبا اور جھوٹے
الزامات کے جرم میں ملوث لوگوں کو سزائیں دی جارہی ہیں ، جرمانے ہو رہے ہیں
اور کوڑے بھی لگائے جارہے ہیں۔ خبر اس زاویہ نگاہ سے شائع نہیں کی گئی کہ
عوام خبردار ہو جائیں، کہ سعودی عرب میں یہ کچھ ہورہا ہے، بلکہ خبر اپنی
روح کے مطابق (یعنی اطلاع دینے اور لوگوں کو باخبر رکھنے کے لئے )لوگوں تک
پہنچائی جارہی ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا دوسروں تک بات پہنچانے کے مقبول ترین ذریعہ ہے،
لگتا یوں ہے جیسے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی پوری دنیا سے زیادہ پذیرائی
پاکستان میں ہی ہورہی ہے۔ جب موبائل کی ابتدا تھی تو پاکستان کے فوجی
حکمران پرویز مشرف یہاں کے عوام کی خوشحالی کی مثال یہی دیا کرتے تھے کہ
پاکستان میں اتنے کروڑ لوگ موبائل فون استعمال کر رہے ہیں۔ اب بھی کہا جاتا
ہے کہ پاکستان موبائل فون استعمال کرنے والوں میں تیسرے نمبر پر ہے۔ مگر یہ
تحقیق اور سوچ الگ ہے کہ حقیقت میں موبائل ضرورت کتنے لوگوں کی ہے اور اس
کا بے جا استعمال کرنے والے کتنے ہیں؟ فیس بک کے استعمال کو ہی دیکھ لیں،
ہر آدمی اپنے موبائل پر فیس بک کھول کر بیٹھا ہوا ہے، اپنے مختلف پوز بنانا
اور اپ لوڈ کرتا ہے۔ دوسروں کی پوسٹوں پر لائیک دیتا اور کمنٹ کرتا ہے،
اپنا تعارف بڑھاتا اور تعلقات پیدا کرتا ہے، کبھی کوئی نئی خبر بھی مل جاتی
ہے، مگر زیادہ تر یہی تفریح اور خود نمائی کا دھندہ ہی چلتا ہے۔ اس قسم کی
مصروفیت مقصدیت سے خالی ہوتی ہے، تاہم کسی حد تک انٹرٹینمنٹ ہو جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر مصروفیت کا دوسرا اور اہم اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ اسے
دوسروں کی پگڑی اچھالنے، ان پر الزامات لگانے، ان کی کردار کشی کرنے ، بے
ہودہ تبصرے کرنے اور حتیٰ کہ مغلظات تک سے گریز نہیں کیا جاتا۔ دوسروں کی
جعلی تصویریں بنانا، کسی اور کے ساتھ ہی ان کو جوڑ دینا اور نیا سکینڈل
بنانے کی کوشش کرنا عام روایت ہے۔ جب ایک طرف سے ایسی کوئی پوسٹ جاری ہوتی
ہے، تو دوسری جانب سے اس کا جواب در جواب اور پھر ایک جنگ کا ماحول بن جاتا
ہے، جسے گھمسان کی جنگ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ اس جنگ میں نہ اخلاقیات
کا کوئی وجود ہوتا ہے، نہ اصولوں پر چلنے کے بارے میں سوچا جاتا ہے، نہ کسی
کا لحاظ کیا جاتا ہے، بس ایک ہی بات ذہن میں ہوتی ہے کہ دوسرے کو کسی بھی
حد تک جاکر ناکام بنانا ہے۔ اس بے ہودگی کے ماحول میں انسان اس سماجی رابطے
کی ویب سائیٹ پر زیادہ دیر قیام نہیں کرسکتا، کیونکہ اس کام کے لئے بڑا
حوصلہ بھی چاہیئے، بس اپنا کام کریں اور واپس آجائیں۔
اگر سعودی عرب میں اس قسم کے تبصروں اور سرگرمیوں کی سزا ہے تو معاشرے کو
کسی حد تک قابوبھی رکھا گیا ہے، پاکستان میں ایسا قدم اٹھانے کا سوچا جائے
تو یار لوگ سخت ناراض ہو جاتے ہیں، گویا آزادی پر قدغن لگانے کا فیصلہ ہو
جاتا ہے، آزادی رائے کا ہر کسی کو حق ہے، مگر یہ وضاحت کوئی نہیں کرتا کہ
یہ حق کس قدر ہے، اس کی حد کیا ہے؟ کیا ہے الزام پر ختم ہوگا، گالی پر یا
پھر دست درازی پر؟ بعض اوقات بات اس سے بھی آگے بڑھ جاتی ہے۔ یوں معاملہ
دہشت گردی تک پہنچ جاتا ہے، کیونکہ بات تو دوسرے کو برداشت کرنے کی ہے، ہر
کسی کی اپنی برداشت ہے، اور اسی کی حد ہے۔ یہاں سوشل میڈیا کی بات تو بہت
پیچھے رہ گئی، اپنے ہاں تو جلسوں میں بھی ایک دوسرے کو معاف نہیں کیا جاتا،
باقاعدہ للکارا جاتا ہے، الزام تراشیاں ہوتی ہیں، ٹی وی ٹاک شوز سیاستدانوں
کو بہترین پلیٹ فارم میسر ہے، جس پر جس طرح مرضی بڑھ چڑھ کر اپنے جذبات کا
اظہار کریں اور قوم کے بلڈ پریشر میں اضافہ کا موجب بنیں۔اس قسم کی سرگرمیو
ں کو اخلاق کے ذریعے روکنے کا وقت شاید گزر چکا ہے، قانون سازی ہونی چاہیے،
اور قانون پر عمل بھی۔
|