پورے ملک میں ہر شخص اس وقت ذہنی طور
پر مفلوج ہو چکا ہے۔ یہودی لابی کافی حد تک اپنی سازشوں میں کامیاب ہو چکی
ہے۔ یہ کہانی اول دن سے ہی موجود ہے مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ
ظفر اپنی عیش و عشرت میں محو تھا کہ انگریزوں نے اسے بندی بنا لیا اسکی
اپنی سلطنت میں اس کے خلاف پنپتی سازشوں کی اسے کانوں کان خبر نہ تھی حقیقت
میں اگر دیکھا جائے تو مغلیہ سلطنت میں جتنے بھی بادشاہ گزرے وہ صرف اپنی
خانہ جنگی میں مگن رہے دنیا میں اسلام کے اقدار کیا ہیں انہیں کچھ خبر نہ
تھی جبکہ نہ ہی ان کی اسلام کیلئے کوئی قابل ذکر خدمات رہیں۔ مسلمان ان سے
پہلے وقت میں ایک تہائی دنیا پر فتح حاصل کر چکے ہیں ان کی یہ فتوحات صرف
اس وجہ سے تھیں کیونکہ ان میں کوئی اقتدار کا لالچ نہیں تھا !نام کی ہوس
نہیں تھی !انکی عزت کا معیار خالصتاََ اﷲ کی رضا اور اسلام کی فروغ و تبلیغ
تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے جان و مال سے اس عمل کو پورا کر کے دکھایا۔
پنجابی کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ ''کر کے کھاؤنی بڑی اوکھی اے''بالکل ویسے
ہی ان مغلیہ بادشاہوں اور مادیت کے بھوکے لوگوں کو کیا پتہ کہ آزادی حاصل
کرنے کیلئے کتنی مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں۔ اگر ان نام نہاد بادشاہوں نے
اپنے جواں سالہ بیٹوں کو اپنے ہاتھوں میں شہید ہوتے دیکھا ہوتا !بستیوں کو
خاندان اور بچوں سمیت جلتے دیکھا ہوتا تو شاید قدر بھی ہوتی لیکن یہاں تو
پکی پکائی تھالی میں پڑی تھی جسے صرف کھانا تھالیکن ان ہوسیوں اور مادیت کے
پجاری شہنشاہوں سے یہ بھی نہ سنبھالی جا سکی اور کتوں کو ڈال دی۔ ہمارے
آباؤ اجداد کی محنت سے کمائی ہوئی دولت آج وہ یہودی کتے کھا رہے ہیں۔
یہودیوں اور منگولوں نے اس وقت کے مسلمان حکمرانوں کی سلطنتوں کا ایسا
خاتمہ کیا کہ عبرت کا نشان بنا ڈالا حقیقت میں تو یہ عذابِ الٰہی تھا جو اﷲ
تعالیٰ کے جلال کی صورت میں مسلمانوں پر نازل ہوا۔ خداوند برترو بالا کی یہ
ناراضگی اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمان کس قدر بھٹک چکے ہیں مسلمانوں نے آٹھ
سو سال اور یہودی لابی نے ہم پر دوسو سال تک حکومت کی ہم پر عروج کے بعد
زوال بھی آیا لیکن اﷲ تعالی نے صرف امتحان میں ڈال کر سبق دینا تھا اور
اپنے بندوں کو اپنے راستے پر یکجا کر نا تھا اس وقت پوری دنیا میں اگر
دیکھا جائے تو اسلامی ممالک کے پاس نہ تو وسائل کی کمی ہے اور نہ ہی طاقت
کی۔ مصر ، شام، عراق، تیونس،سعودی عرب، دبئی، ایران ، افغانستان، پاکستان،
مراکش سمیت تمام ممالک قدرتی دولت سے مالا مال ہیں لیکن صرف اﷲ تعالی کی
رسی کو چھوڑنے اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے آج تمام ممالک
حا لتِ جنگ میں ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو اﷲ تعالی نے کسی چیز کی
کمی نہیں چھوڑی اس خطے میں چاروں موسم اور قدرتی پانی ہے جو کہ زراعت کیلئے
انتہائی موزوں ہے جسکی وجہ سے پاکستان میں قحط سالی کا سوال ہی نہیں پیدا
ہوتا اتنا بڑا ساحل سمندر ہے جسکی وجہ سے پاکستان کبھی بھی معاشی بدحالی کا
شکار نہیں ہو سکتا تھا چولستان کا ایک بڑا ٹکڑا اور دنیا کی بلند ترین
چوٹیوں پر مشتمل ایک طویل پہاڑی سلسلہ جن میں بے شمار قدرتی وسائل پنہاں
ہیں جو ہمیں کبھی کمزور نہیں ہونے دے سکتا لیکن ان سب کے باوجود ہم آج تک
رسوا ہو رہے ہیں جس کے پیچھے بڑی وجہ یہی ہے کہ اﷲ تعالی کی طرف سے دئیے
گئے اس انمول تحفے کی قدر نہیں کر سکے شاید ہمیں یاد نہیں کہ راقم تاریخ نے
سب کچھ رقم کر رکھا ہے سنہرے حروف کے ساتھ کہ کس قدر جدو جہد اور قربانیوں،
آزمائشوں سے ہمارے اجداد نے یہ سر زمین حاصل کی تھی کلمہ حق اور صرف خالص
اﷲ جل شانہ کی عبادت کی طرف ہم نے قدم اٹھایا کہ مسلمانوں کو ایک آزار
اسلامی ریاست میسر ہو اوراس نیک کام میں اﷲ تعالی نے اپنی نصرت سے مسلمانوں
کو عظیم الشان فتح نصیب فرمائی۔ ہمارے آباؤ اجداد کی لازوال قربانیوں اور
انتھک محنتوں کے نتیجے میں ملنے والی اس سر زمین پاک پر ہم نے غیر مہذب
یہودیوں کی ثقافت اور تہذیب کو اپنایا۔ اطاعت اﷲ اور اطاعت رسول کو چھوڑ کر
شیطان کی پیروی کی رشوت خوری، سود خوری، جھوٹ، نا اتفاقی اور استحصال سے ہم
نے اپنی زندگی جینے کا فیصلہ کیا یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں خانہ جنگی کی
صورتحال بپا ہے۔ اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ
ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریز حکومت کی سازش تھی کہ وہ مسلمانوں کو امیر و
غریب اور فرقہ بندیوں میں بانٹتے اور ا ن کے ساتھ ایسا ہی تعصبانہ رویہ
اختیار کرتے جو لوگ ان کی قدم بوسی کرتے انہیں اعلی درجے پر فائز کرتے اور
جو لوگ ان کے سامنے نہیں جھکتے انہیں انہی منافقوں کے ہاتھوں مرواتے جس سے
مسلمانوں کے اپنے درمیان دراڑیں پڑتیں اور وہ ایک دوسرے کے خلاف ہی نسلوں
تک لڑتے رہتے ویسے ہی آج بھی یہودی لابی کے نوازے کچھ منافقین وہی کردار
ادا کر رہے ہیں اور اس بات کا اقرار خود بھارتی سابقہ آرمی چیف کر چکے ہیں
کہ وہ کس طرح ایران ، افغانستان اور پاکستان میں موجود ایمان فروش لوگوں کو
خریدتے ہیں اور پھر ان سے دہشتگردی کرواتے ہیں موجودہ دور میں جو پاکستان
پھر سے دہشتگردی کے ہاتھوں دوچار ہے جسکے خلاف ایک نیا آپریشن ردّالفساد
شروع کیا گیا ہے اگر دیکھا جائے تو یہی یہودی لابی کی سازش تھی کہ اگر
پاکستان کو توڑنا ہے تو اس کی عسکری قوت کو کسی طرح کمزور کرنا ہو گا جس
کیلئے انہوں نے مختلف ہتھکنڈوں کا سہارا لیا لیکن وہ بھی جب کام نہیں آئے
تو اب عوام اور اداروں کو متصادم کروانے کی ٹھان رکھی ہے جس میں واضع طور
پر سیاسی پالیسیاں ملکی سلامتی مخالف نظر آ رہی ہیں ایک طرف تو ایران اور
افغانستان پاکستان میں ملکی سالمیت مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں
تو دوسری طرف چاہ بہار پورٹ کو گوادر پورٹ کی سسٹر پورٹ قرار دے کر ایران
کو گھر بیٹھے فائدہ دے دیا گیا ہے تمام عسکری قیادتیں اور ادارے اس
دہشتگردی کے خاتمے کیلئے دن رات کوششوں میں مگن ہیں اور ملک کے بہادر
سپوتوں کی قربانیاں دی جارہی ہیں اور دوسری طرف سیاسی قیادتیں ملک کو تباہی
کے دہانے پر پہنچانے کیلئے سرگرم ہیں۔ کرپشن کر کے عوام میں اداروں کی ساکھ
خراب کی جا چکی ہے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر اخلاقیات سے گری ہوئی
حرکات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کا تقدس پامال کر رکھا ہے یوں لگتا ہے
جیسے ایوانوں میں انسانوں کی جگہ کوئی عجیب مخلوق بس رہی ہو۔ مصطفیٰ کمال
کا بیان کہ کراچی میں رینجر تو نوے کی دہائی سے آپریشن کر رہی ہے لیکن
دہشتگردی آج تک ختم نہیں کی جا سکی عسکری قیادتوں کے خلاف عوام کو بھڑکانے
کی عکاسی کرتا ہے۔ آپریشن ردّالفساد سمیت دیگر دہشتگردی کے خلاف جدوجہد میں
عسکری اداروں کو اس امر پر غور کرنا ہو گا کہیں پھر سے سیاسی قیادتیں عوام
میں ادراوں کا غلط عکس ڈالنے کیلئے ایسے ہتھکنڈوں کا سہارا لے جسکی وجہ سے
عوام کا اعتبار ریاستی ادراوں سے ختم ہو سکتا ہے اور عوام کو بھی چاہئیے کہ
وہ میڈیا اور سیاسی و خارجی سازشوں کو سمجھ کر فوج اور اداروں کا ساتھ دے
اور ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر دہشتگردی کے خاتمے کیلئے عملی
اقدامات کرے کیونکہ ان سیاسی قیادتوں کو تو اس ملک کین کبھی قدر نہیں ہو
سکتی کہ انہوں نے اس ملک کیلئے کوئی قربانی نہیں دی سوائے ملک کو لوٹ اور
بیچ کھانے کے جبکہ عسکری قوتوں کا ساتھ دینے میں ہی ہماری بقاء ہے۔۔ |