پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے بڑھتے
ہوئے واقعات نے ملک بھر کے کاروبار زندگی کو متاثر کردیاہے۔ اکثر اضلاع میں
سیکورٹی اجلاس طلب کرکے امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے مختلف
طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کی رائے لی جارہی ہیں۔ اپنی خامیوں کو دور کرنے کے
ساتھ ساتھ عوام ، تاجر حصرات کو بھی دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ان کی ذمہ
داریوں کا احساس دلایاجارہاہے۔ بعض اضلاع میں حساس سکولوں ، کالجزکو کچھ
مدت کیلئے بند کردیا گیاہے جبکہ عوامی اجتماعات پر دفعہ 144کا نفاذ کردیا
گیا ہے۔ غیر قانونی طورپر کئی عشروں سے یہاں پر مقیم افغان باشندوں کی پڑ
دھکڑ زور شور سے جاری ہے۔ بعض حساس اضلاع جیسے ڈیرہ اسماعیل خان جہاں گذشتہ
چھ ماہ سے موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کو مزید بڑھادیا گیا۔
ناکوں، چوکوں، ہر پولیس، فوج کی چیکنگ میں اضافہ اور سختی کے باعث دیگر
اضلاع سے آنے جانے والے کارو باری حضرات کی آمدروفت ختم ہونے کے باعث
کاروباری سرگرمیاں ماند پڑگئی ہیں۔ تعلیمی اداروں کی سیکورٹی میں مزیداضافے
کے ساتھ ساتھ حساس مقامات پر کیمروں کی مزید تنصیب کے علاوہ پہلے سے موجود
سی سی ٹی وی کیمروں کی بھی جانچ پڑتال کی جارہی ہے۔ گویا پورا ملک ایک
بحران اور تذبذب کی کیفیت میں ہے یہ سب کچھ خود کش حملوں اور دہشت گردی کی
کاروائیوں کو کنٹرول کرنے کیلئے کیا جارہاہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ
کیا یہ سب کچھ اپنی حفاظت کیلئے کافی ہے؟ ہم جو ساٹھ ہزار پاکستانیوں کو
دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں ، اربوں ڈالر اس پر خرچ کرنے
کے علاوہ کھربوں کا نقصان اٹھا چکے ہیں۔ مزید نقصان جانی و مالی برداشت
کرنے کی سکت رکھتے ہیں یا نہیں؟ کب تک ہم اس نہ ختم ہونے والی جنگ میں
دھنستے چلے جائیں گے اور مزید کئی جانوں کی بلی ہمیں چڑھانی ہوگی۔ ا سمیں
کوئی شک نہیں کہ ہمیں اپنی حفاظت کیلئے تمام تر اقدامات ، حفاظتی تدابیر
کرنی چاہئیں لیکن کیا اپنی حفاظت کیلئے ہمارے دین نے ہمیں صرف مذکورہ
تدابیر بتائیں ہیں یا اور کچھ بھی ہے ۔ ہمارا ایمان ہے کہ اگر تمام دنیا کے
ایٹم بم پاکستان پر آزمائے جائیں لیکن اگر میرے رب کی مرضی نہیں ہے تو ایک
بم بھی نہیں پھٹے گا ، کوئی خود کش حملہ آورہمارا کچھ نہیں بگاڑسکتا لیکن
بدقسمتی سے مسلمان جنہیں اﷲ تعالی نے اپنی کتاب قرآن مجید دی، نماز جیسا
عمل دیا آج ان دونوں کی تعلیمات کو چھوڑ کر صرف دنیاوی اسباب کو اپنی مدد و
حفاظت کیلئے کافی سمجھ بیٹھاہے۔ آج وہ نفری بڑھانے ، چیک پوسٹوں میں اضافہ
، سرحد کی بندش، سیکورٹی کیمروں کی بات تو کرتاہے لیکن وہ گھر سے نکلتے وقت
دعا نہیں پڑھتا۔ آیت الکرسی نہیں پڑھتا، حرام سے نہیں بچتا، کاروبار میں
جھوٹ بولتاہے، ناپ تول میں کمی کرتاہے، ملاوٹ کرتاہے، دوسرے کے حق کو دبانا
اور کھانا جائز سمجھتاہے۔ سرکاری مال و رقم کو ڈکار جاتاہے۔ بے حیائی، شراب
و کباب کی محفلوں میں سرگرم رہتاہے۔ رشوت لیتاہے، حرام حلال کی تمیز نہیں
کرتا، نما زو قرآن کی تلاوت، زکوۃ، صدقہ ، خیرات ، عشر کو ادا نہیں کرتا۔
حج جیسے عمل کو چھوڑبیٹھاہے۔ بدعات و شرک میں مبتلا ہے۔ ماں باپ کی
نافرمانی کرتاہے۔ بدزبانی، گالی گلوچ میں مبتلا ہے۔ حقوق اﷲ اور حقوق
العباد سے غافل ہے۔ پڑوسی، نوکر، بیوی کے حقوق سے غافل ہے تو پھر کیسے وہ
اﷲ کے عذاب و پریشانیوں ، جو کبھی دھماکوں کی صورت میں ، کبھی بے وقت کی
بارشوں، کرپٹ نااہل حکمران، غیروں کی حکمرانی و غلامی، خودکش حملوں،
سیلابوں، زلزلوں، قحط، بھوک و افلاس، بے روزگاری، بدامنی سے محفوظ رہ
سکتاہے۔ مسلمانوں کو دنیاوی حفاظتی ضروریات کے ساتھ ساتھ اپنے گریبان میں
بھی جھانکنا ہوگا کہ ہم آخر کتنی برائیوں، گناہوں میں مبتلا ہیں جس کے باعث
ہم اﷲ کی مدد و نصرت سے محروم ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنا محاسبہ کرنا
چاہئے تمام فیصلے اﷲ کی طرف سے ہم پر آتے ہیں ہمارے اعمالوں کے بقدر آسمان
سے فیصلے ہم پر اترتے ہیں اسلئے بحیثیت مجموعی ہمیں اﷲ کی ذات اور اپنے نبی
ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر ہم پر خودکش
حملے بھی ہوتے رہیں گے اور دیگر ناگہانی آفتیں مصیبتیں نازل ہوتی رہیں گی۔
ہمارے کاروبار ی مراکز، دربار، تفریحی مقامات، تعلیمی ادارے اﷲ کو ناراض
کرنے کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔ بے پردگی، بے حیائی، مخلوط طرز زندگی، دن بدن
عام ہوتی جارہی ہے۔ نماز کے اوقات میں ہمارا کاروبار زندگی بجائے بند ہونے
کے جاری و ساری رہتاہے۔ آذان کے وقت جب چپ رہنے اور آذان کا جواب کا حکم ہے
۔ ہم تمام تر کاروبار زندگی کو جاری رکھتے ہیں۔ گانے بجانے تک کو بند نہیں
کرتے ہمارے دفاتر، عوامی ادارے کرپشن، رشوت ستانی، مظلوم کو دھتکارنے اور
ظالم کا ساتھ دینے کے اڈے ہیں۔ کسی یتیم، مسکین، مظلوم کی آہ عرش تک پہنچتی
ہے لیکن ہم ظلم پہ ظلم کرتے ہیں اور ہمیں اسکا احساس تک نہیں ہوتا۔ ہم
ادویات ، اشیاء خوردنی میں ملاوٹ تک سے باز نہیں آتے۔ ہمارے انصاف فراہم
کرنے کی عدالتیں، انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ چوری ، ڈکیتی،
منشیات فروشی، جسم فروشی و دیگر برائیوں کے سدباب کے ادارے خود اس میں ملوث
ہیں۔ کرپشن کو ختم کرنے کے ادارے کرپشن کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے
اکابرین ، عوامی نمائندے، مراعات یافتہ جبکہ عوام پہ آئے دن ٹیکسوں کا بوجھ
ڈال کر یعنی مزید غربت و افلاس کی طرف دھکیلا جارہاہے۔ ہم جب اجتماعی طورپر
اتنی خرابیوں، گناہوں میں مبتلا ہوچکے ہیں تو پھر امن کا خواب خواب ہی رہے
گا۔ امن کا داردومدار ہمارے اعمال اور کرتوتوں سے وابستہ ہے۔ ہم ضرور
احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کریں لیکن ہمیں دعا اور دوا دونوں کا اہتمام
کرنا ہوگا۔ اﷲ کی ذات جو ہم سب کی محافظ ہے اس سے بڑا حفاظت کرنا والا کوئی
نہیں لیکن بدقسمتی سے نہ تو ہماری اس طرف توجہ ہے اور نہ ہی ہمارے حکمرانوں
کی۔ ہم تمام اجتماعی طورپر تو استغفار کریں اﷲ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب
کریں تاکہ آسمانوں سے جو فیصلے آرہے ہیں وہ اچھے آئیں۔ |