حُکم
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
جنوبی پنجاب کے ایک بڑے سرکاری
ہسپتال کے بلڈ سینٹر کے باہر ایک نوٹس بورڈ آویزاں تھا، ایک صحافی نے اسے
اپنے تبصرے کے ساتھ سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر اپ لوڈ کیا ہے، نوٹس بورڈ
پر لکھی گئی تحریر کچھ یوں ہے؛ ’’گورنمنٹ سپلائی میں ڈسپوزیبل سرنج موجود
نہیں ہے، لہٰذا سرنجیں باہر سے خریدیں‘‘، بات یہاں ختم نہیں ہوئی، آگے
ہدایت دی گئی ہے کہ ’’عملے سے بحث نہ کریں‘‘۔ یہ تحریر کسی اطلاع یا مشورے
کے طور پر نہیں بلکہ یہ ’’حکم‘‘ ہے، جو مذکورہ بلڈ سینٹر کے منیجر صاحب نے
جاری فرمایا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہمیں بہاول پور کے لال سوہانرا نیشنل پارک (جسے
حکومت نے انٹرنیشنل بنانے کا اعلان کر رکھا ہے)، جانے کا اتفاق ہوا، پارک
میں ہی کچھ آگے سیکڑوں ہرن ’آزاد‘ ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان کے گرد جنگلا
وسیع علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔ دیکھنے کے لئے آنے والوں کو پہلے گیٹ سے اندر
تھوڑی دور جانے کی اجازت ہوتی تھی، جہاں ہرنوں کو چارہ اور خوراک وغیرہ دی
جاتی تھی، جس کی وجہ سے ہرنوں کا ایک بڑا اجتماع منعقد ہوجاتا تھا، وہاں
لوگ انہیں بھاگتے، اچھلتے اور لمبی چھلانگیں لگاتے دیکھتے تھے، ان کی آپس
میں ٹکریں مارنے کی کہانی تو مزید دلچسپ ہے، اسی لئے لوگ ان مناظر میں بہت
دلچسپی لیتے تھے۔ بعد ازاں گیٹ بند کر دیا گیا، صرف خاص لوگوں کے لئے ہی
کھلنے لگا۔ ہمارے ساتھ ایک برطانوی مہمان بھی تھا، تاہم گیٹ کیپر کو ہم گیٹ
کھولنے پر رضامند نہ کر سکے، وہاں بھی ایسا ہی ایک حکم نامہ چسپاں تھا،
یعنی یہ گیٹ ’’بحکم انچارج‘‘ بند تھا۔
جو ادارے عوام کی خدمت،تفریح یا ضرورت کے لئے کھولے گئے ہیں، وہاں لوگوں کو
جانا ہی ہوتا ہے، ہسپتال ہے تو مجبوری میں جانا پڑتا ہے، سیر گاہ ہے تو
تفریح کے لئے، کوئی سماجی معاملات بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر جہاں بھی جائیں، ’’بحکم‘‘
کا سامنا ہر جگہ کرنا پڑتا ہے۔ کسی ہسپتال یا دفتر وغیرہ کی سائیکل سٹینڈ
پر بھی جو اطلاع عوام کے لئے لکھی جاتی ہے، وہ اطلاع یا اعلان کم ہوتا ہے،
کسی نہ کسی کا حکم زیادہ ہوتا ہے، یوں ہم بحیثیت مجموعی پوری قوم کسی نہ
کسی کے حکم کے پابند ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو ادارے وغیرہ کے گیٹ
پر کھڑے ہو کر عوام کا استقبال کرنا چاہیے، ان کی رہنمائی کرنی چاہیے، ان
سے تعاون کرنا چاہیے، وہ گیٹ پر اپنا ’’حکم‘‘ آویزاں کروا دیتے ہیں، اور
پھر عوام کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اس حکم کی پیروی کریں۔ عموماً یہ حکم
اس قدر سخت ہوتا ہے کہ اس کی مخالفت کی ہی نہیں جاسکتی، یعنی سرنج نہیں
ہوگا تو خون نہیں لیا جائے گا، گیٹ نہیں کھلے گا تو اندر جانا ممکن نہ ہوگا۔
مگر یہی حکم اس وقت پانی کی جھاگ ثابت ہوتا ہے جب کوئی ذرا ڈنڈے والا یا
طاقتور فرد اِدھر کا رخ کر لے۔ ایسے میں یہی گیٹ پر دوسروں کی ایسی تیسی
پھیر دینے والے حاکم، آنے والے ’صاحب‘ کی بھاگ بھاگ کر خدمات بجا لا رہے
ہوتے ہیں، یہ بڑوں کے غلام اور عوام کے آقا کا کردار ادا کرتے ہیں۔
بڑے ہسپتال میں سرنجیں نہ ہونا حکومتی ناانصافی اور زیادتی ہے، ایک دوائی
اور علاج کے نعرے اور دعوے بے شمار ہیں، کرپشن قبول کرنے کے لئے بھی کوئی
تیار نہیں، حکمرانوں کا دعویٰ اور اعلان ہے ، وہ ایک پائی کی کرپشن کے بھی
روادار نہیں، مگر انہوں نے اس راز سے پردہ کبھی نہیں اٹھایا کہ محکموں اور
اداروں میں ہونے والی اربوں اور کروڑوں کی کرپشن کا ذمہ دارکون ہے؟
ہسپتالوں میں کروڑوں روپے کی
مشینیں خراب پڑی ہیں، یہ مشینیں خریدنے میں چونکہ کسی نہ کسی سطح پر کمیشن
کا عمل دخل ہوتا ہے، اس لئے معیار میں ڈنڈی ماری جاتی ہے، جو بعد میں ڈنڈا
بن کر لوگوں کی زندگیوں پر برستاہے۔ چونکہ ہسپتالوں وغیرہ میں نہ مشینیں
درست ہیں، نہ دوائی اور سرنجیں ہیں، نہ بستر اور گنجائش ہے، حتیٰ کہ نہ
صفائی اور نہ ہی ڈاکٹروں کے پاس وقت ہے، اس لئے بے بس مریض ہسپتالوں کے
عملے سے الجھتے رہتے ہیں، تاہم مذکورہ بالا ’’حکم‘‘ کہ ’’عملے سے بحث نہ
کریں‘‘،کو اگر ہر ادارے کے باہر آویزاں کروا دیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں،
اس سے اداروں کو بھی فائدہ ہوگا اور مریضوں اور ضرورت مندوں کو بھی افاقہ
ہوگا ۔ اس حکم پر عمل کو بھی یقینی بنایا جائے، تاہم بے چارے عوام پر ایک
مہربانی یہ بھی کردی جائے کہ انہیں یہ بھی حکم دے دیا جائے کہ تمام حکومتی
اور سرکاری رویوں اور سختیوں کے بعد عوام کیا کریں؟ |
|