سخت معاشی حالات سے نجات اور خوشحالی کیسے؟

ذرہ ذرہ دہر کا زندانی تقدیر ہے
پردۂ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے

دنیا امتحان گاہ ہے اور یہاں ہر انسان آزمائش میں ہے، کسی کو نہ دے کر یا اس سے لے کر اس کے صبر کا امتحان لیا جارہا ہے اور کسی کو عطا کر کے اس کے شکر کا امتحان۔ اور ان آزمائشوں میں ڈالنے والا اور ان سے نکالنے والا اللہ ہی ہے۔ خوشیاں اور دکھ، تنگی و فراخ اور فقرو تونگری یہ سب زندگی کا حصہ اور تقدیر ہے جو کاتب تقدیر ہی کے ہاتھ میں ہے اور اس کی حکمتیں وہی بہتر جانتا ہے،اور بےشک ہمیں ہنسانے اور رلانے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں:

سورة النجم ( 53 )
وَأَنَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى {43}
اور یہ کہ اُسی نے ہنسایا اور اُسی نے رُلایا ۔

جن سخت گھاٹیوں سے اللہ ہمیں گزارے وہاں سے گزرنا پڑتا ہے اور کشادگی، فراخی و خوشحالی عطا فرمانے والا بھی اللہ کے سوا کوئی نہیں۔وہ نفع دے تو کوئی اسے روکنے والا نہیں اور وہ آزمائش میں ڈال دے اور نقصان دینا چاہے تو اسے ٹالنے والا بھی کوئی نہیں۔

سورة يونس ( 10 )
وَلاَ تَدْعُ مِن دُونِ اللهِ مَا لاَ يَنفَعُكَ وَلاَ يَضُرُّكَ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ {106} وَإِن يَمْسَسْكَ اللهُ بِضُرٍّ فَلاَ كَاشِفَ لَهُ إِلاَّ هُوَ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِهِ يُصَيبُ بِهِ مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ {107}
اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ نقصان۔اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا۔ اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈال دے تو خود اُس کے سوا کوئی نہیں جو اُس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

اور قرآن حکیم میں ہی اللہ کا فرمان ہے۔

سورة آل عمران ( 3 )
وَتِلْكَ الأيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ ۔۔۔{140}
یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں ۔

یوں تو کوئی بھی آزمائش آسان نہیں مگرانسان پر آنے والی ان آزمائشوں میں سے ایک بڑی کٹھن آزمائش معاشی پریشانی اور غربت ہے۔اللہ ہی آزمائشوں سے محفوظ رکھے کیونکہ اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے والا کوئی نہیں۔

سورة الرعد ( 13 )
وَاللهُ يَحْكُمُ لاَ مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ ۔۔۔ {41}
اللہ حکومت کررہا ہے، کوئی اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے

اللہ کے فیصلے ٹالے نہیں جا سکتے اور تقدیر کے خیر و شر پر ہمارا ایمان ہے۔ اور بلا شبہ اللہ ہی کسی کے بارے میں کیے گئے اپنے فیصلوں کی حکمت جانتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ ایک مومن کو دی گئی رزق کی تنگی ہی اس کے لیے بہتر ہو اور کشادگی میں اس کے بھٹک جانے کا زیادہ امکان ہو، بہرحال رزق کی تنگی ایک بڑی آزمائش ہے۔اور جس پر یہ آزمائش ہو وہ اس سے نکلنا چاہتا ہے۔ یاد رکھیے کہ رزق کی فراخی میں بھی بڑی آزمائش ہے کیونکہ دوسروں کے بارے میں جوابدہی زیادہ مشکل ہے، آپ کے مال میں بہت سے دوسرے لوگوں کو حق ہوتے ہیں جو اگر آپ ادا نہ کریں تو اللہ کے ہاں بڑی سخت جوابدہی ہے اس لیے اللہ سے رزق کی فراخی طلب کرتے وقت یہ بھی ذہن میں رہے۔ ہم اس حوالے سے کچھ قرآنی آیات آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔رزق کی تنگی و فراخی کے معاملے میں آپ اس آیت کریمہ پر غور فرمائیے۔

سورة الروم ( 30 )
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاء وَيَقْدِرُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ {37}فَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ذَلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللهِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ {38}
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے جس کا چاہتا ہے اور تنگ کرتا ہے (جس کا چاہتا ہے)۔ یقینًا اس میں بہت سے نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔ پس رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اُس کا حق)۔ یہ طریقہ بہتر ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔

رزق کی تنگی و فراخی کے تذکرے کے ساتھ یہ ذکرہورہا ہے کہ رشتہ دار،مسکین اور مسافر کو اس کا حق دے۔ بےشک حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے پر ممکن ہےکہ اس آیت میں یہ ایک اشارہ ہو کہ اگر رزق کی فراخی چاہیے توان لوگوں پر اپنے مال خرچ کرو اور تمہارے مال میں ان لوگوں کا جو حق ہے وہ ادا کرو۔اور اگر یہ ادا کرو گے تو رزق کی فراخی ملے گي؟ مال کم ہو یا زیادہ آپ ذرا ان لوگوں پر اللہ کی خاطر خرچ کر کے دیکھ لیجیے۔ کیونکہ مومنین کی یہ خوبی ہے کہ آمدنی کم ہویا زیادہ وہ بہرحال اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

آپ اللہ کی مخلوق سے بھلائی کیجیے اللہ آپ سے بھلائی کرے گا، آپ اس کے بندوں کی ضرورت پوری کیجیے اللہ آپ کی ضرورت پوری فرمائے گا، آپ اللہ کے کام میں لگ جائيں اللہ آپ کے کاموں میں لگ جائے گا۔ آپ اگر تاریخ پر ہی ایک نظر ڈالیے تو آپ دیکھیں گے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں خدا ان کو فقر کی آزمائش میں نہیں ڈالتا۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اللہ کی راہ میں اتنا زیادہ مال دیتے تھے کہ غنی کہلائے اور اللہ نے تمام عمر غنی ہی رکھا۔کچھ دیگر صاحب مال صحابہ کرام کے بارے میں بھی پڑھ کر دیکھ لیجیے۔

ہمیں تو کتنے لوگ ایسے ملے جنہیں خدا نے تونگری عطا فرمائی ہے اور کوئی اس کی وجہ یہ بتلاتا ہےکہ میں نےاپنے اوپر فرض زکواۃ دس کے بجائے بارہ دی تو اگلے سال اللہ نے پندرہ کی توفیق دی۔ پندرہ کے بجائے سترہ دیے تو ایک ہی برس کے بعد اللہ نے بیس کی توفیق دی اور یوں یہ سلسلہ بڑھتا ہی گیا، کیے نے بتایا کہ میں نے سونا اس لیے خرید رکھا ہے کہ مجھ پر زکواۃ فرض ہو اور میں اس فرض کو ادا کروں میرے خدا نے مجھے کبھی گھاٹا نہیں دیا، کوئی یہ کہتا ہے کہ میں نے اپنی آمدنی کا ایک خاص فی صد اللہ کی راہ میں دینا طے کر رکھا ہے اور میرا مال ہمیشہ بڑھا ہے کبھی کم نہیں ہوا، اور کسی نے اپنی خوشحالی کی یہ وجہ بتائی کہ میں نے اپنے بزنس میں ایک متعین شیئر رب کائنات کا ڈال رکھا ہے میں نے کبھی اس کے حصے میں ڈنڈی نہیں ماری، لاکھوں بھی دینے پڑے تو باقاعدگی سے دیے اور میرے چند ہزار کروڑوں میں پہنچ چکے ہیں۔

سورة البقرة ( 2 )
يَمْحَقُ اللهُ الْرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۔۔۔ {276}
اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔

یاد رکھیے بات آمدنی میں حصہ رکھنے کی ہو رہی ہے بچت کی نہیں۔آپ کو بھی اگر رزق کی فراخی چاہیے تو ان میں سے کوئی نسخہ آزما کر دیکھ لیجیے ،آزمودہ ہیں ۔

•اس کاروبار کی شرائط
قرآن کی رو سے اس کے لیے یہ بہت ضروری شرائط ہیں کہ آپ جوبھی کام کرتے ہوں اس میں درج ذیل چیزیں شامل نہ ہوں:

دھوکہ دہی، کسی کےساتھ زبردستی و ظلم، رشوت، غصب، خیانت(خواہ افراد کے مال میں ہو یا قوم کے مال میں)،چوری اور ڈاکہ، مال یتیم میں بے جا تصرف، ناپ تول میں کمی،فحش پھیلانے والے ذرا‏ئع کا کاروبار، گانے بجانے کا پیشہ، قحبہ گری اور زنا کی آمدنی، شراب اور دیگر منشیات کی صنعت اور اس کی خریدوفروخت ونقل و حمل، جوا اور اس کے تمام طریقے جن سے کچھ لوگوں کا مال کچھ دوسرے لوگوں کی طرف محض بخت و اتفاق سے منتقل ہوتا ہے، بت گری، بت فروشی اور ایسے مقامت کی خدمات جہاں شرک ہوتا ہے، قسمت بتانے اور فال گیری وغیرہ کا کاروبار،سود اور اس کا کسی بھی نوعیت کا لین دین و کتابت بھلے وہ کم ہو یا زیادہ اور شخصی قرضہ ہو یاتجارتی، صنعتی اورزراعتی۔(حوالہ معاشیات اسلام صفحہ89 –سید مودودی رحمہ اللہ)

اگر آپ ان میں سے کسی کام میں حصہ دار نہیں ہیں اور اپنے اندر اتنا ظرف پاتے ہیں کہ اللہ کا حصہ بھلے وہ جتنا ہی زیادہ ہو ادا کرسکیں گے تو کرے اللہ کے ساتھ عہد اور شروعات کیجیے،اور اس کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کا سرمایہ لاکھوں میں ہو۔بھلے سینکڑوں ہزاروں میں ہو اللہ کو اپنی آمدنی اور اپنے کاروبار میں پارٹنر بنائیے اس کا حصہ ادا کیجیے اور پھر دیکھیے۔ہاں ایک بات یاد رہے کہ جب لاکھوں میں دینے کی نوبت آئے تو پھر دل تنگ نہ کیجیے گا ورنہ سزا بہت سخت ہے اور یہ سرمایہ ڈوبتے دیر نہیں لگتی۔ آج کل ڈاکٹرز کے بل بھی لاکھوں میں آتے ہیں اور اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے اور اس کے لیے اسے دیر نہیں لگتی۔ذرا اس آیت کا مطالعہ کر لیجیے:

سورة التوبة ( 9 )
وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللهَ لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ {75} فَلَمَّا آتَاهُم مِّن فَضْلِهِ بَخِلُواْ بِهِ وَتَوَلَّواْ وَّهُم مُّعْرِضُونَ {76} فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَى يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُواْ اللّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُواْ يَكْذِبُونَ {77}
ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر رہیں گے۔ مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دولتمند کر دیا تو وہ بخل پر اُتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انہیں اس کی پروا تک نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اِس بدعہدی کی وجہ سے جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کی، اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھا دیا جو اس کے حضور پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا۔

اور اگلی آیات(78-80) میں ایسے لوگوں کو منافق اور فاسق کہا گیا اور ان کے لیے دردناک سزا کا اعلان کیا گیا۔اسی آیت سے ایک بات یہ بھی مرشح ہوتی ہے کہ اگر کوئي اللہ سے مذکورہ عہد کرے تو پھر اس کو آزمائش میں ڈالنے کے لیے اللہ اگر چاہے گا تو اسے دولتمند کر دے گا۔ اور اس نے اگر وعدہ پورا کیا تو دنیا اور آخرت کی کامیابیاں اور ناکامی کی صورت میں شدید عذاب۔اس لیے اللہ سے ایسا عہد کرنے سے پہلے یہ معاملہ بھی ذہن میں رہےکہ کہیں مالداری باعث عذاب ہی نہ بن جائے۔

•اللہ کی راہ میں مال کہاں خرچ کرنا ہے؟
اگلی بات یہ کہ مال کہاں خرچ کرنا ہے اس بارے میں بھی قرآن کی ہدایات کو ذہن میں رکھیے۔

سورة البقرة ( 2 )
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللهَ بِهِ عَلِيمٌ {215}
لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔ اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ اس سے با خبر ہو گا۔

سورة النساء ( 4)
وَاعْبُدُواْ اللهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا {36} الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللهُ مِن فَضْلِهِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا {37} وَالَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَـاء النَّاسِ وَلاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَمَن يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاء قِرِينًا {38}
اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کےساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کےساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافرسے، اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتےہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں۔ایسے کافر نعمت لوگوں کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ اور وہ لوگ بھی اللہ کو ناپسند ہیں جو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور درحقیقت نہ اللہ پر ایما ن رکھتے ہیں نہ روز آخر پر۔سچ یہ ہے کہ شیطان جس کا رفیق ہوا اُسے بہت ہی بری رفاقت میسر آئی۔

سورة المعارج ( 70 )
وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ {24} لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ {25}
(اور دوزخ کی آگ سے محفوظ) وہ لوگ ہیں جن کے مالوں میں ایک طے شدہ حصہ ہے مدد مانگنے والے اور محروم کے لیے(یعنی انھوں نے اپنے مال میں ان کا باقاعدہ حصہ مقرر کر رکھا ہے)۔

سورة الإنسان ( 76 )
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا {8} إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُورًا {9}
اور(نیک لوگ) اللہ کی محبت میں مسکین اوریتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں طرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں ، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کا آپ کے مال پر حق ہے اگر آپ نے یہ حق اداکیا تو آپ کامیاب ورنہ ناکام۔اورآپ کے مال پر پہلا حق آپ کے اپنے رشتہ داروں، پڑوسیوں،جاننے والوں ، اور آپ کے علاقے میں رہنےوالوں کا ہے۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ کچھ لوگ اپنے رشتہ دار یتیم یا محتاج پڑوسی کا تو ان کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر حق مار کر کھاتے ہیں،وراثت سے اپنی بہنوں بیٹیوں کو بے دخل کر دیتے ہیں، جو حقیقت میں ہمارے مال میں حقدار ہے اسے بیس پچاس روپے دیتے ہوئے بھی ہماری جان جاتی ہے اور کسی بڑی محفل میں، کسی بڑے خوش پوش بھکاری کو ہم ہزاروں لاکھوں پیش کر دیتے ہیں۔اپنے گردوپیش میں تلاش کیجیے۔ فقر کے خوف سے خودکشی کرنے والے پورے پورے خاندان ہمارے ہی کئی آس پاس رہتے ہیں آپ کو اپنے ہی قریب ایسے لوگ ضرورہی مل جائیں گے جنہیں آپ خود براہ راست سپورٹ کر سکتے ہیں۔ جہاں کروڑوں کی کوٹھیاں ہوتی ہیں وہیں ان کی آزمائش کے لیے قریب کہیں کچھ بےگھر لوگ بھی رہتے ہیں۔یہ اللہ کا نظام ہے۔اور یہ نہ بھولیے گا کہ محتاج سے مراد محض بھکاری نہیں ہیں بھکاری پر تو ہر دروازہ کھلا ہوتا ہے،بلکہ اصل میں وہ لوگ ہیں جو کسی کے پیچھے پڑ کر نہیں مانگتے اور ان کا خودداری دیکھ کرناواقف آدمی کو ایسا لگتا نہیں کہ ضرورت مند ہیں۔لیکن حقیقتا ایسی مشکل میں ہوتے ہیں کہ کوشش کے باوجود ان کا نظام نہیں چلتا۔غریب کا حق ہو اسی کو براہ راست ادا کیجیے اوربیچ میں تیسرے ہاتھ سے بچیے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کامال اپنے ٹھکانے پر پہنچنے کے بجائے کہیں اور جا رہا ہو۔ اوراس طرح اس معاملے میں کم از کم اپنی ذمہ داری سے عہدہ براء ہوا جا سکتاہے۔

•اس کاروبار کا اصل اور بڑا فائدہ
ہاں سب سے خاص بات یہ کہ یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ جو پیسہ آپ اس طرح اللہ کی راہ میں دیں گے وہ ضائع ہو جائے گا۔ ہرگز نہیں بلکہ آپ کا اصل محفوظ سرمایہ تو اصل میں وہی ہے جو اللہ آپ کو بڑھا چڑھا کر واپس کرے گا اور اس دن کرے گا جس دن آپ کو اس کی شدید احتیاج ہوگی۔ جو پیسہ آپ نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا وہ آپ نے ایک ایسے نفع بخش کاروبار میں لگایا ہے جس میں نقصان کا کوئی اندیشہ سرے سے ہے ہی نہیں:

سورة فاطر ( 35 )
إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ {29} لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ {30}
جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں، یقیناً وہ ایک ایسی تجارت کے متوقع ہیں جس میں ہر گز خسارہ نہ ہوگا۔ (اس تجارت میں انہوں نے اپنا سب کچھ اس لیے کھپایا ہے ) تاکہ اللہ ان کے اجر پورے کے پورے ان کو دے اور مزید اپنے فضل سے ان کو عطا فرمائے۔ بے شک اللہ بخشنے والا اور قدردان ہے۔

جی یہی وہ تجارت ہے جو آپ اس ہستی سے کرتے ہیں جس نے آپ کو سب کچھ عطاکیا ہے۔ وہی جو مال دے کر اپنے ہی مال میں سے قرض حسنہ مانگتا ہےآپ کی اپنی بھلائی کے لیے:

سورة البقرة ( 2 )
مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۔۔۔ {245}
تم میں سےکون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟

اللہ کیسا قدردان ہے ذرا دیکھیے:

آپ نے نیکی کا ارادہ کیا اور نہ کر سکے تو یہ بھی ایک نیکی ہے۔ بدی کا ارادہ کیا اور قدرت رکھنے کا باوجود اللہ کے خوف سےنہ کی تو یہ بھی آپ کے حق میں نیکی ہے۔ اور بدی جب تک کی نہ جائے اس کا کوئي گناہ نہیں۔اور اس کے ہاں ایک نیکی کا کم از کم اجر دس گنا ہےاور برائی کا بدلہ اتنا ہی ہے جتنی کسی نے برائی کی ہو۔:

سورة الأنعام ( 6 )
مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَن جَاء بِالسَّيِّئَةِ فَلاَ يُجْزَى إِلاَّ مِثْلَهَا وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ {160}
جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے دس گنا اجر ہے،اور جو بدی لے کر آئے گا اس کو اتنا ہی بدلہ دیا جائے گا جتنا اس نے قصور کیا ہے اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا۔

لیکن ذیل کی آیات میں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنےکےاجر کے متعلق ہمیں قرآن حکیم میں کچھ شرائط کےساتھ ایک بہت بڑے اجر کا تذکرہ ملتا ہے۔انسان کو مال سے چونکہ بہت پیار ہوتا ہے اس لیےخدا کی راہ میں مال خرچ کیجیے تو کم از کم اجر سات سو گنا ہے جبکہ زیادہ کی کوئی حد نہیں اور ایک حدیث کےمطابق اگر آپ کسی ایسےمحتاج پر خرچ کرتے ہیں جو آپ کا پڑوسی بھی ہےاور رشتہ دار بھی تواجر دگنا ہے یعنی چودہ سوگنا:

سورة البقرة ( 2 )
مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاء وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ {261}
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے۔وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔

•اجر پانے کی شرائط
اور اس سے اگلی آیات میں سرمایہ لگانے کی چند شرائط ہیں جو آپ کو پوری کرنی ہیں۔اور اگر وہ شرائط پوری ہوں تو وارے نیارے۔ سینکڑوں ہزاروں لگائیے اور لاکھوں کروڑوں کا اجر پائیے۔

شرائط ملاحظہ ہوں:
1-احسان نہیں جتلانا
2-دکھ نہیں دینا
3-دکھاوا نہیں کرنا
4-اللہ کی راہ میں بہترین مال دینا ہے
5-خفیہ صدقہ زیادہ بہتے ہے

پہلی تین شرائط یہ کہ کہیں احسان جتا کر کسی غریب کی عزت نفس خاک میں نہ ملا دینا اور نہ کوئی ایسی بات کرنا جس سے اس کو دکھ پہنچے،کیونکہ قرآن کے مطابق ایسے صدقے سے تو صرف میٹھا بول ہی بہتر ہے اور دکھاوا نہ ہو کیونکہ مذکورہ خامیوں والا صدقہ باطل ہو جاتا ہے جس کا کوئی اجر نہیں ملتا:

سورة البقرة ( 2 )
الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ ثُمَّ لاَ يُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُواُ مَنًّا وَلاَ أَذًى لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ {262} قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَآ أَذًى وَاللهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ {263} يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُبْطِلُواْ صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالأذَى كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاء النَّاسِ وَلاَ يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لاَّ يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُواْ ۔۔۔ {264}
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کر کے پھر احسان نہیں جتاتے، نہ دکھ دیتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اوران کےلیے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو۔ اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اس کی صفت ہے۔ اے ایمان والو، اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملادو جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے نہ آخرت پر۔اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس پر جب زور کا مینہ برسا، تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا۔

چوتھی شرط یہ کہ بہترین چیز اللہ کی راہ میں خرچ کی جائے نہ کہ ردی اور بری چیز:
سورة البقرة ( 2 )
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ {267}
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو۔ جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لیے نکالا ہے، اُس میں سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو۔ایسانہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے، تو تم ہرگز اسے لینا گوارا نہ کرو گے الا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ۔تمہیں جان لینا چاہیے کہ اللہ بے نیاز ہے اوربہترین صفات سے متصف ہے۔

اور کچھ لوگ تو اس معاملےمیں اتنی احتیاط کرتے ہیں کہ خدا کی راہ میں دینے کے لیے نوٹ بھی نئے دینا پسند کرتے ہیں۔

اگلی بات یہ کہ:

سورة البقرة ( 2 )
إِن تُبْدُواْ الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاء فَهُوَ خَيْرٌ لُّكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ {271}
اگر اپنے صدقات اعلانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے، لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو، تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔ تمہاری بہت سی برائیاں اس طر‌زعمل سے محو ہو جاتی ہیں۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو بہرحال اس کی خبر ہے۔

خفیہ صدقہ زیادہ بہتر ہے۔اللہ کی راہ میں اس طرح مال خرچ کرنا کہ ایک ہاتھ سے دیا تو دوسرے کو خبر نہ ہوئی اللہ کو بہت زیادہ پسند ہے اور یہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے، بری موت سے محفوظ کرتا ہے اور ایسے شخص کو اللہ قیامت کے دن اپنے عرش کے سایے میں جگہ دے گا جس دن کوئی سایہ نہ ہوگا۔

اور اللہ کی راہ میں دیتے ہوئے مفلسی سے نہ ڈرنا کیونکہ:

سورة البقرة ( 2 )
الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاء وَاللّهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلاً وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ {268}
شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرزعمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے۔اللہ بڑافراخ دست اور دانا ہے۔

ایک حدیث مبارک کے مطابق جن چند اشخاص پر رشک کرنا جائز ہے۔اور ان میں سے ایک وہ شخص ہے جسے اللہ نے مال دیا ہے اور وہ اس کواللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ اور اس کے برعکس کنجوسوں اور بخیلوں کا انجام حسب ذیل ہے:

سورة آل عمران ( 3 )
وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُواْ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلِلّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ {180} جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ بخیلی ان کے لیے اچھی ہے۔ نہیں، یہ ان کے حق میں نہایت بری ہے۔ جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کر رہے ہیں وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔

اور جو کچھ بھی اس طرح آپ اللہ کے ہاں اپنے لیے بھیجیں گے وہ اللہ سے چھپا نہ رہ جائے گا اور قرآن تو اس خرچ کو نیکی کے معیار تک پہنچنے کی شرط قرار دیتا ہے:

سورة آل عمران ( 3 )
لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ {92}
تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (اللہ کی راہ میں)خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو، اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بے خبر نہ ہوگا۔

اللہ کی راہ میں خرچ کیجیے بھلے اللہ نے آپ کو زیادہ دیا ہے یا کم کیونکہ جو کچھ بھی ہمیں ملا ہے وہ اسی لیے ملا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے چاہے وہ ہمارا وقت ہو ، صلاحیتیں ہوں، جان ہو یا مال ہو۔ اور عنقریب ہم پر یہ وقت بھی آنا ہے:

سورة المنافقون ( 63 )
وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ {10} وَلَن يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاء أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ {11}
جو رزق ہم نے تمھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور اس وقت وہ کہے کہ '' اے میرے رب، کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا "۔ حالانکہ جب کسی کی مہلت عمل پوری ہونے کا وقت آ جاتا ہے تو اللہ اس کو ہر گز مزید مہلت نہیں دیتا، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے۔

اللہ ہمیں اپنی راہ میں مال خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اسے ہمارے لیے دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنائے(آمین)
Aurangzeb Yousaf
About the Author: Aurangzeb Yousaf Read More Articles by Aurangzeb Yousaf: 23 Articles with 49215 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.