ہاں البتہ

ہم دوستوں میں کوئی مولوی شامل نہیں۔ بڑھاپے کے ہم عمر دوستوں میں بچوں کے دکھ سکھ یا اپنی بیماری موضوع گفت گو رہتی ہے جب کہ جوانی میں شغل ٹھٹھہ اور لڑکیآں موضوع کلام بنتی ہیں۔ یہ بھی کہ ضروری نہیں ہر وقت سنجیدہ باتیں ہی کی جائیں۔ ہنسی مذاق میں واہیات قسم کی بات بھی ہو سکتی ہے بل کہ ہوتی ہی رہتی ہے۔

یہ اتفاق تھا کہ ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ ہماری مسجد کے مولوی صاحب کا ادھر سے گزر ہوا۔ پوچھا کیا ہو رہا ہے۔ کچھ نہیں جناب‘ بس یوں ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ بھی بیٹھ گئے۔ پھر کیا تھا سب کو چپ سی لگ گئی۔ آخر مولوی صاحب نے ہی سکوت توڑا اور کہنے لگے یوں ہی بےکار میں وقت نہ ضائع کیا کرو۔ کچھ ناکچھ کام کرتے رہا کرو۔ بےکاروں پر شیطان جلد گرفت کرتا ہے۔ کام کاج کرو گے تو مصروف رہو گے اور غلط سلط نہیں سوچو گے۔

ان کی بات سولہ آنے درست تھی لہذا سب نے ان کی بات پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی اور آئندہ سے بےکار نہ بیٹھنے کا وعدہ کیا۔

عیدا ہم میں تھوڑا چنچل شرارتی اور گل باتیا ہے۔ کہنے لگا: مولوی صاحب‘ مولوی حضرات حلوہ کیوں پسند کرتے ہیں۔

جوابا مولوی صاحب کہنے لگے: آج کل مولوی کب حلوہ کھاتے ہیں۔ یہ پرانے وقتوں کے مولوی صاحبان کی خوراک تھی۔

بکرو نے کہا: ہاں جی آپ کا کہنا درست ہے۔ آج کل تو مولوی صاحبان آوارہ ککڑ پسند کرتے ہیں۔

یہ کھلی گستاخی تھی۔ سب ڈر گئے کہ کل جمعہ شریف ہے سمجھو یہ جمعہ ان پر ہی لگے گا۔ خلاف توقع مولوی صاحب بھی شغل میں آ گئے اور فرمانے لگے: ہاں تم درست کہتے ہو لیکن بانگیں بھی تو مولوی ہی دیتے ہیں۔

سب نے کہا جی ہاں جی ہاں آپ کا کہنا درست ہے۔

عبدو نے دوبارہ سے گرہ لگائی‘ گلے میں چکنائی ہو تو ہی خوش الحانی ممکن ہو سکے گی۔

مولوی صاحب نے کچھ نہ کہا بل کہ ہنس دیے اور اٹھ کر چلے گئے ہاں البتہ ہم دوستوں پر یہ ضرور کھول گئے کہ مولوی صاحبان بھی حس ظرافت رکھتے ہیں۔

مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 193247 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.