میرے لئے اس ہفتے دو خبریں جو اساتذہ کی توقیر کے حوالے
سے ہیں،بڑی تکلیف کا باعث ہیں۔شاید وہ استاد نہیں رہے یا یہ بد قسمت معاشرہ
اخلاقی تنزلی کی اس منزل کو پہنچ چکا کہ جہاں استاد کی توقیر کا احساس ہی
مفقود ہوتا جا رہا ہے۔مہذب معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا، وہاں استاد کا بے
حد احترام کیا جاتا ہے۔ان کے وقار کا خیال رکھا جاتا ہے۔ان کے بارے کسی بھی
منفی سوچ کو معاشرے کی اخلاقی پستی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔افسوس کہ ہمارے
معاشرے میں شاید ایسے احساسات ہی مرتے جا رہے ہیں۔
ؒلاہور ہائی کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دورا ن فاضل جج صاحب نے فرمایا
کہ اگر ان کے حکم پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو وائس چانسلر کو گرفتار کرکے
لایا جائے گا۔ یہ حکم کسی بچہ جمہورہ ٹائپ پرائیویٹ یونیورسٹی نہیں بلکہ
ملک کی ایک بڑی سرکاری یونیورسٹی، بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کے وائس
چانسلر کے بارے میں دیا گیا ہے۔اس فیصلے کے بارے سوائے افسوس کے کچھ نہیں
کہا جا سکتا۔ ہر جج کے پاس توہین عدالت کی شکل میں ایک تلوار ہوتی ہے جس سے
وہ کسی کا بھی ۔۔۔۔۔اتفاق سے موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس آف
پنجاب انتہائی فہم و فراست کے حامل، مثبت سوچ رکھنے والے اور عدلیہ میں
بہتری کے طالب لوگ ہیں۔ ان سے التماس ہے کہ وائس چانسلر سماجی اوراخلاقی
دونوں حوالوں سے معاشرے کا انتہائی معزز اور محترم شخص ہوتا ہے اور صوبے
میں اس کا مرتبہ گورنر کے فوراً بعد شمار کیا جاتا ہے ۔ گو معاشرے میں یہ
باتیں ماضی کا حصہ بن چکیں مگر ججوں سے لوگوں کو اب بھی امید ہے کہ انحطاط
کے اس دور میں بھی وہ ان قدروں کی پاسداری کرتے رہیں گے۔آپ کے ساتھی رفقا
کو اگر سخت حکم دینا ہے تو کرپٹ بیوروکریٹ، پولیس افسران، سیاستدانوں اور
بااثر لوگوں کے بارے دیں کہ اس کا مثبت اثر معاشرے پر ہو۔ عموماً عوام کو
یہ گلا ہے کہ بیوروکریسی، پولیس، سیاستدانوں اور با اثر لوگوں کی تمام تر
گستاخیوں کے باوجود ہماری عدالتیں ان کے تمام عیوب نظر انداز کر دیتی ہیں۔
ان لوگوں کے ساتھ سختی کی ضرورت ہے۔ اساتذہ تو درویش لوگ ہیں جو تھوڑے سے
خلق پر سب کچھ نثار کر دیتے ہیں۔ عدالتوں میں بھی انہیں دبانے اور دھمکانے
جیسے احکامات سے معاشرے کی عزت پر آنچ آتی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی نے یونیورسٹی کے بہت سے اساتذہ جن کی عمر 65 سال سے زیادہ
تھی یک جنبش قلم یونیورسٹی سے فارغ کر دیا۔ وائس چانسلر صاحب کو گلا تھا کہ
یہ بزرگ کام نہیں کرتے فقط یونیورسٹی سے وظیفہ وصول کرنے آتے ہیں۔ یہ بات
جزوی طور پر بہت سے بزرگوں کے بارے صحیح بھی ہے۔بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کام
نہیں کرتے فقط تنخواہ لیتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو دو دو اور
تین تین معاوضے وصول کرتے ہیں مگر کام کیوں کریں کہ سیاسی طور پر یونیورسٹی
میں نازل ہوئے ہیں۔ تدریس اور تحقیق سے انہیں کوئی واسطہ نہیں۔کچھ ایسے بھی
ہیں جو مہینے میں ایک آدھ دفعہ اپنا وظیفہ وصول کرنے آتے ہیں کوئی کام کرنا
ان کے بس کی بات ہی نہیں۔صحافتی بلیک میلنگ کے بہت سے شاہکار بھی یونیورسٹی
کی گردن دبوچے نظر آتے ہیں۔ ہاں مگر کچھ بزرگ ایسے بھی ہیں کہ انہی کے دم
سے بہت سے شعبوں میں تدریس اور ریسرچ جاری وساری ہے۔ان کے فارغ ہونے سے وہ
شعبے بالکل بانجھ ہو جائیں گے۔ضرورت ہے کہ کیس ٹو کیس پوری چھان بین سے
فیصلے کئے جائیں۔ وہ لوگ جن کی تعیناتی سیاسی بنیادوں پر ہے یقینا
یونیورسٹی میں رہنے کے قابل نہیں مگر وہ چند بزرگ جو محنت اور دیانتداری سے
کام کر رہے ہیں وہ بزرگ تو یونیورسٹی کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ان کی عزت اور
تکریم یونیورسٹی کے لئے افتخار کا باعث ہے۔
اسی حوالے سے دوسری افسوسناک خبر یوں تھی کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں
وائس چانسلر ز میٹنگ کے دوران پنجاب کے وزیر تعلیم اور پنجاب یونیورسٹی کے
وائس چانسلر جناب ظفر معین کے درمیان کچھ مکالمہ ہوا۔ایک مقامی اخبار کے
مطابق وزیر تعلیم نے ان بزرگ اساتذہ کی برطرفی کے حوالے سے وائس چانسلر کی
سر زنش کی اور انہیں کہاکہ وہ ہر معاملے میں آزاد نہیں۔ انہیں وزیر تعلیم
کو اپنے عمل کا جواب دینا ہے۔یہ خبر اور اس کے الفاظ میرے لئے ایک صدمے سے
کم نہیں۔ کسی وزیر کی اتنی اوقات نہ تھی نہ ہے اور نہ آئندہ ہو گی کہ کسی
وائس چانسلر سے بد تمیزی کر سکے۔ اگر خدانخواستہ کوئی وزیر اخلاقی پستی کا
شکار ہے تو اس کا کچھ علاج نہیں وہ طاقت کے نشے کا مریض ہے اور ایسا نامراد
شخص مکافات عمل کا شکار ہو کر رہتا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی ایک معمولی ادارہ نہیں ۔ یہ ایک پوری مملکت ہے۔ اس میں بہت
سے مافیاز نے برسوں سے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں یہ یونیورسٹی سے مالی اور
سیاسی فائدے حاصل کرتے ہیں ۔کوئی خود فرضی ملازم ہے کسی کا نالائق عزیزبغیر
میرٹ کے ملازم ہے۔ کسی نے کوئی کینٹین قابو کی ہوئی ہے۔ کوئی کسی اور انداز
میں مالی فائدہ حاصل کر رہا ہے۔ نئے لوگوں کے میرٹ پر ا قدامات سے ان کے
مفادات پر زد آتی ہے ۔ یہ مافیاز اپنے مفاد میں کسی بھی نئے وائس چانسلرکو
بلیک میل کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ اس کی معمولی خامیوں سے فائدہ
اٹھانے کی کوشش میں غلط پراپیگنڈہ کرتے ہیں لیکن ان سب کو بے نقاب کرنے کی
ضرورت ہے ان کے غلط حربوں کا بہترین جوا ب ٹھوس ا ور محتاط فیصلے
ہیں۔یونیورسٹی میں جو مختلف گروپ کام کر رہے ہیں ان سے خود کو لا تعلق رکھ
کر خالصتاً میرٹ پر فیصلے کئے جائیں تو یہ مافیاز خود اپنی موت مر جائیں گے۔
|