مشہور زمانہ کہاوت ہے کہ بے وقوف دوست سے
اچھا عقلمند دشمن رکھ لینا چاہئے ۔لیکن میں کہتا ہوں کہ بے مذہب اور بد
تہذیب دوستوں سے اچھا با تہذیب دشمن ہونے چاہئیں جو کم از کم تہذیب اور
انسانیت کے دائرے میں رہ کر تو جنگ کریں گے ،دنیا کے ستاون اسلامی ممالک
میں اس وقت پاکستان ایک واحد ایسا اسلامی ملک ہے جو ہر طرح کے دباؤ اور
مصنوعی طور پر مسلط کی گئیں جنگوں سے نبر آزما ہونے کے با وجود بھی پروان
چڑھ رہا ہے اور ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اگر اس دن بدن بڑھتی ہوئی ترقی
کا راز جاننے کی ضرورت ہو تو وہ کچھ اور نہیں صرف پاک فوج کی بہترین
پالیسیوں اور پاکستانی اداروں کی دن رات محنت کی مرہون منت ہے جسکی بدولت
آج پاکستان اس سطح پر کھڑا ہے کہ دشمن میلی آنکھ دیکھنے سے بھی کتراتا
ہے۔لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ دشمن مختلف ہتھکنڈوں اور ہرزہ
سرائیوں سے ملک کے خلاف سازشوں میں مگن ہے ۔ جہاں پاکستانی ادارے اور پاک
فوج اپنا کردار ادا کر رہی ہے وہیں پاکستانی سیاست کو بھی ذمہ داری نبھاتے
ہوئے زیادہ نہ سہی کہیں تو انجمن افزائش نسل کی فکر چھوڑ کر پاکستان کی
بقاء اور ترقی کیلئے سوچ لینا چاہئے کہ جس سر زمین نے انہیں اتنی عزت بخشی
ہے اورا س قابل بنایا ہے کہ وہ آج کروڑوں لوگوں کے دلوں پر راج کر رہے ہیں
۔اس وقت امریکہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور مہذب ملکوں میں
شمار ہونے والا ملک ہے اور سب سے بڑھ کر افسوس کی بات ہے کہ اسلامی ملک میں
آنکھ کھولنے اور اسلامی معاشرے میں پرورش پانے کے با وجود ہماری نسل کیلئے
آئیڈیل ملک امریکہ ہی ہے جو پوری دنیا پر حکومت کر رہا ہے لیکن کیا کبھی اس
نوجواں نسل نے سوچنے کی کوشش بھی کی کہ جو پوری دنیا میں امن و سلامتی کا
نعرہ لگا کر مختلف ممالک میں انتہا پسندی کو ختم کرنے کا دعویدار ہے وہ خود
بھی ان اخلاقی اقدار میں آتا ہے جو کسی امن پسند ملک کیلئے ضروری ہیں ؟کیا
ایک عالمی قیادت رکھنے والے ملک کیلئے جو اخلاقی بلندی،آراستگی اور وسعت
نظری کی ضرور ت ہوتی ہے وہ بھی اس کے پاس ہے یا نہیں؟ میری ناقص رائے میں
تو بالکل بھی نہیں !!بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں سمجھوں گا کہ امریکہ نہ صرف
اس کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچتا بلکہ اس حوالے سے اسقدر پستی کا شکار
اور ایسے بدترین ریکارڈ کا حامل ہے کہ اسے عالمی قیادت کے منصب پر فائز
کرنا تو کجا عالمی برادری کی پچھلی صفحوں میں شامل کرنا بھی محل نظری ہے
اگر ہم پچھلی کچھ دہائیوں میں امریکی پالیسیوں اور ہرزہ سرائیوں کا جائزہ
لیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ ا ب تک سب سے بڑا خونی درندہ
ثابت ہوا ہے ۔ ویسے تو جب خونی درندے کا لفظ زبان پر آتا ہے تو ہمارے ذہن
میں فوری طور پر ان لوگوں کا تذکرہ جاتا ہے جنہوں نے دنیا کو فتح کرنے
کیلئے کتنے ہی افراد کو قتل کر کے ان کی نعشوں کے پہاڑ کھڑے کر دئیے جیسا
کہ چنگیز خان کی گردن پر 34 ملین افراد کا قتل اور اس کے پوتے ہلاکو خان نے
چار ملین افراد کا خون بہایا اسی طرح تیمور لنگ کی تلوار 14ملین لوگوں کا
خون بہا گئی جبکہ ایڈولف ہٹلر کو 21 ملین افرادکا جان لیوا بتایا جاتا ہے
یہ کل ملا کر 73 ملین افراد کا قتل ہے لیکن امریکہ پر 173 ملین سے زائد
لوگوں کا قتل بلا شبہ ثابت ہے اگر ہم اس پر غور کریں تو ہمیں بخوبی اندازہ
ہوگا کہ امریکہ نے ریڈ انڈینز کے سو ملین افراد افریکن 60 ملین افراد ویت
نام میں دس ملین افراد افغانستا ن میں تین ملین سے زائدافراد اور عراق میں
اب تک دو ملین سے زائد افراد جبکہ ان کے علاوہ شام،لیبیا ،پاکستان ،ایران
کی تو ابھی تک کوئی اعدادو شمار بھی نہیں یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 73
ملین افراد کے قاتلوں کو انسانیت کا قاتل کہا جاتا ہے تو جو 173 ملین افراد
سے زائد کا قاتل ہو اس کو کیا نام دینا چاہئے امریکہ کی افواج ابھی تک
آزادی کے 242 سالوں میں قریب 230 مرتبہ اقوام عالم پر جارحیت کی مرتکب ہو
چکی ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد یہی افواج قریب تیس ممالک پر بمباری کی مرتکب
ہو چکی ہے جن میں یوگو سلاویہ ،افغانستان ، ایران ،عراق ،پاکستان ،
سوڈان،چین ، گوئٹے مالا، لبنا ن ،لیبیا،کوریا، انڈنیشیا، کیوبا،کانگو،
پیرو،کمبوڈیا،السالوویڈور ،نکاراگوا، پاناما اور دیگر ممالک شامل ہیں ۔ اس
سب کو جانتے ہوئے بھی دنیا بھر کے تمام ممالک امریکہ سے تعلقات استوار کرنا
خوش آئند سمجھتے ہیں خاص طور پر ہمارے اسلامی ممالک اور ہماری نئی نسل جیسا
کہ ہمارے ملک پاکستان میں جو بھی حکومت آتی ہے وہ کبھی امریکی ہتھکنڈوں کے
خلاف بات کرتی یا اس کی مزاحمت کرتی نظر نہیں آتی بلکہ ہمیشہ اس کے سامنے
کشکول اٹھائے کھڑی ہوتی ہے ۔عراق اور دیگر ایسے ممالک جن کی معیشت کا
انحصار تیل پر تھا وہ پہلے تو امریکہ کو ہی اپنا سردار مان کر اسے تیل
فروخت کرتے رہے اور اسے مفت میں فائدہ دے کر اسکی معیشت کو مضبوط کیا اور
جب اس نے طاقت کا دھونس دکھانا چاہا تو یہی عراق و شام پیچھے ہٹ گئے اور
ایک داعش تنظیم بنا لی جس کو امریکہ نے عالمی دہشت گرد قرار دے کر اس پر
بین لگا دیا اور اس عمل کا خمیازہ آج بھی عراق و شام بھگت رہے ہیں اسی طرح
برصغیر پاک و ہند میں امریکہ نے دوبارہ گھسنے کی کوشش کی تو ناکامی کے بعد
اپنے ہی پالتو ؤ ں سے نائن الیون کا سانحہ کروایا اور افغانستان اور
پاکستان پر چڑھ دوڑا جس کا خمیازہ آج تک پاکستان اور پاکستانی عوام بھگت
رہی ہے ایک ایسی جنگ جو کبھی ان ممالک کی تھی ہی نہیں ان پر مسلط کر رکھی
ہے لیکن مجال ہے کہ کبھی ہمارے حکمرانوں کو عقل کے ناخن آئے ہوں کبھی سیاست
نے عالمی سطح پر امریکہ کی ان پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کی ہو !اب یہاں نہ
صرف مسلم امہ بلکہ پوری عالمی برادری کیلئے قابل تشویش بات ٹرمپ جیسے انسان
کا امریکہ کا صدر منتخب ہونا ہے کیونکہ اس کی سوچ کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ
مزید کئی اور جنگیں معصوم جانوں کو مٹانے کیلئے تیار ہو رہی ہیں اور اس
عالمی دہشت گرد کے ہاتھوں نہ جانے کتنے اورلوگ زندگی کی بازی ہار جائیں
گے!!! |