ایک چھوٹی سی کہانی

پانامہ پیپرز کے سلسلے میں سپریم کورٹ کےپینل کے تمام ججزکیس کی دوسری تاریخ کے بعد اپنے چیمبر میں بیٹھے کیس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔ قانونی نکات پر اپنے اپنے نقطہ نظر سے راے زنی کی جا رہی تھی۔ سب ہی بہت ذہنی تناؤ میں مبتلا نظر آتے تھے اور بحیثیت مجموعی سب کا تاثر یہی تھا کے اس مرتبہ میاں صاحب نے اپنے آپ کو ایک ایسے گرداب میں پھنسا لیا ہے کہ قانونی طور پر اس گرداب سے نکل سکنا نہایت مشکل ہے۔

'ارے بھئی جب فلیٹس نوے کی دہائی میں لے لیے تھے تو اس بیان کی کیا ضرورت تھی کہ ہم نے 2006 میں خریدے ہیں؟' ایک جج نے اظہار خیال کیا
'ہاں اور جب فلیٹس خریدے ہی تھے تو اپنے کاروبار کی تفصیلات ظاہر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ مشرف کی طرح شاہ عبداللہ سے ایک تحفہ ظاہر کر دیتے۔' دوسرے نے ٹکڑا لگایا
'ارے یار دراصل میاں صاحب کو اپنے اس چمتکار کو ظاہر کرنے کا بہت شوق ہے کہ ہوا میں پھونکتے ہیں تو فولاد کا پہاڑ بن جاتا ہے' تیسرے نے اپنے غصے کا اظہار کیا

مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ جب نوے کی دہائی میں فلیٹس لیے تھے تو اسی پر قائم رہتے اور صرف اتنا سا اسٹینڈ لے لیتے کہ بھٗی یہ فلیٹس تو خلد آشیانی ابّا جی نے لیے تھے۔ وہ ہوتے تو خود بتا دیتے کہ کیسے لیے تھے۔وہ اپنے بہت سےمسائل ہم کو بھی نہیں بتاتے تھے۔ شہباز اور عباس کو مرتے دم تک نہیں بتایا کہ یہ فلیٹس انھوں نے لیے تھے اور حسین نواز کو دے دیے تھے۔' چوتھے نے رائے دی
'ارے یارو اس ٹینشن میں تو ہم کھانا پینا بھی بھول گئے ہیں، چلو سموسے اور پکوڑے منگواتے ہیں۔ لاؤ پچاس پچاس روپے نکالو اور چپراسی کو بولو کہ گرم گرم لے کر آئے' پانچویں نے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا

کچھ دیر بعد چپراسی دو لفافوں میں سموسے اور پکوڑے لے کر آیا اور سب کے بیچ میں میز پر رکھ دیے۔ 'سر چائے بنالوں؟' اس نے پوچھا
'ہاں بھئی جلدی سے بنا لاؤ۔شکر الگ لے کر آنا' پہلے نے ہدایت کی
ایک نے لفافوں کو ایک طرف سے پھاڑ کر پھیلایا اور سموسے اور پکوڑے پھیلا دیے۔ 'یار لایا تو گرم گرم ہے' اس نے تبصرہ کیا
سب نے ہاتھ بڑہا کر سموسے اور پکوڑے کھانے شروع کر دیے۔ اچانک ایک جج نے لفافے پر لکھی ہوئی عبارت کو غور سے دیکھنا شروع کیا اور پھر اس کے ہاتھ سے سموسہ چھوٹ گیا۔ سب نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا۔
' اماں کیا دیکھ لیا؟' ایک نے استفسار کیا
وہ جج ساکت ہو کر غور سے اخبار کے اس ٹکڑے کو دیکھتا رہا پھر اس نے اسے دوسروں کی طرف بڑھا کر اس عبارت کی طرف اشارہ کیا
ایک جج نے جھک کر دیکھا اور وہ بھی سکتے میں آگیا۔ پھر سب نے باری باری اس عبارت کو دیکھا اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ اخبار کے اس ٹکڑے پر قرآن مجید کی آیت کا ترجمہ لکھا تھا
'' بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کو ادا کرو۔ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔ بے شک اللہ تمہیں بہت ہی اچھی بات کی نصیحت کرتا ہے۔ بے شک اللہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔النساء (58)''
یار یہ کیا، کہیں یہ قدرت کی طرف سے ہمیں ایک تنبیہ تو نہیں ہے کہ ہم فیصلہ کرنے میں احتیاط اور عدل سے کام لیں؟ اسی جج نے کہا جس نے سب سے پہلے عبارت دیکھی تھی
ہاں یار اور ہمیں اپنے اس تبصرے پر بھی معذرت کرنی چاہیے جس میں ہم نے اخباری خبر پر رائے زنی کی تھی۔دوسرے نے شرمندگی کے احساس کے ساتھ کہا۔
سب تھوڑی دیر خاموش ہو کر سوچ میں گم ہو گئے۔ چائے آئی اور سب جائے پینے لگے۔
کچھ دیر کے بعد تیسرے جج نےججھکتے ہوئے کہا 'مگر یہ تو ایک اخباری تراشہ ہے ہم اس کی بنیاد پر کوئی رائے تو قائم نہیں کرسکتے؟'
اور کیا! اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ ورنہ اس پرکم ازکم پکوڑے اور سموسےتو نہ بکتے۔ چوتھے نے اپنےدل میں چھپے خوف کوکم کرنے کے لیے کہا
ارے بھئی یہ تو فیصلہ ہو گیا، چلو میاں صاحب کو فون ملاؤ۔ ان سے کہو مٹھائی کے پیسے پانامہ میں بنک میں جمع کرادیں اس مرتبہ سردیوں کی چھٹیاں ہم وہیں گذاریں گے۔

قیصر مصطفٰی
About the Author: قیصر مصطفٰی Read More Articles by قیصر مصطفٰی: 2 Articles with 1395 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.