اسلام نے کبھی بھی عصری تعلیم یا دنیاوی تعلیم کی مخالفت
نہیں کی ہے۔ جاننا چاہیے کہ بنیادی دینی تعلیم ہر مسلمان پر فرض ہے۔ لیکن
دینی تعلیم میں مہارتِ تامہ اور کامل دستگاہ ہر مسلمان کے لیے لازمی نہیں ۔
اگر ہر شخص دینی تعلیم میں کمال پیدا کرنے لگے گا تو عصری علوم کے ماہرین
کہاں سے میسر آئیں گے ۔ جن کے بغیر اس خاکدانِ گیتی پر قوت و طاقت اور عزت
و اقتدار کا تصور محال سا نظر آتا ہے۔ عصری تعلیم کی اہمیت اور فوائد سے
کوئی بھی زندہ قوم قطعی انکار نہیں کرسکتی۔
اللہ رب العزت نے انسان کے ناتواں کاندھوں پر خلافت کا بارِ گراں ڈالا ہے ۔
جس کے لیے دینی تعلیم کے شانہ بہ شانہ دنیا کے انتظام و انصرام کا طریقۂ
کار اور ایجادات و اکتشافات کے ساتھ ساتھ عصری علوم کا جاننا بے حد ضروری
ہے۔
اسلام کا عصری تعلیمی نظریہ بے حد واضح اور روشن ہے۔ اللہ رب العزت قرآنِ
کریم میں فرماتا ہے :
’’ وَعَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا،‘‘
’’اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیا) کے نام سکھائے۔‘‘ (سورہ بقرہ۔
۳۱)
اس آیتِ کریمہ کے ذیل میں صدرالافاضل مولانا سید نعیم الدین اشرفی
مرادآبادی قد س سرہٗ لکھتے ہیں :’’ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام
پر تمام اشیا و جملہ مسمیات پیش فرماکر آپ کو ان کے اسما و صفات و افعال و
خواص و اصول علوم و صناعات سب کا علم بہ طریقِ الہام عطافرمایا۔ ‘‘(خزائن
العرفان)، مسمیات یعنی اشیاکی خصوصیات ، افعال اور علوم ہیں اور اسی کا نام
’’سائنس‘‘ ہے ، اسی سائنس کی تعلیم ’’جدید تعلیم‘‘ یا ’’دنیاوی تعلیم‘‘ یا
عصری تعلیم‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دورِ جدید کے
مفکرین نے عصری تعلیم کی بنیاد سیکولرزم اور لامذہبی نظریات پر کھڑی کرنے
کی کوشش کی ہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے ہر قسم کے علوم و فنون کا
سرچشمہ اورمنبع قرآن کریم ہے خود رب تعالیٰ فرماتاہے :
’’ وَلَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبً وَّلَا یَابِسٍ
اِلّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ‘‘
’’ اور کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور خشک جو
ایک روشن کتاب میں نہ لکھا ہو۔‘‘ (سورہ انعام ۔۵۹)
اس آیتِ کریمہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں دونوں جہان کی ہر
چیز کا ذکر موجود ہے اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ دینی علوم ہوں یا دنیاوی
علوم ہر ایک کا منبع و ماخذ قرآن کریم ہی ہے۔
اسلام کے عصری تعلیمی نظریہ کے تحت بدر کی فتح کے بعد اسیرانِ جنگ سے فدیہ
کی وصولیابی اور انصار کے دس لڑکوں کی تعلیم کے واقعہ کو بھی مد نظر رکھنا
ضروری ہے۔غزوۂ بدر کے بعد قیدیوں کی رہائی کے لیے فدیہ کی رقم مقرر کی گئی
تھی۔ ان میں سے جو نادار اور غریب تھے ، وہ بلامعاوضہ آزاد کردیے گئے۔
لیکن جو پڑھنا لکھنا جانتے تھے انھیں حکم ہوا کہ انصار کے دس دس بچوں کو
پڑھنا لکھنا سکھادیں تو آزاد کردیے جائیں گے۔ چناں چہ کاتب وحی حضرت سیدنا
زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی طرح لکھنا سیکھا۔(عام کتبِ سیرت)
اس واقعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معلمِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے
نزدیک تعلیم کا حصول کس قدر اہم اور ضروری تھا۔ اسیرانِ بدرکا مسلمان بچوں
کو لکھنا سکھانا اُس عہد کے لحاظ سے عصری تعلیم ہی کے زمرے میں آتا تھا۔
اسلام جملہ مباح علوم و فنون بالخصوص سائنس کی اہمیت و افادیت کو نہ صرف
تسلیم کرتا ہے بلکہ شرعی دائرے میں رہتے ہوئے اس کی تحصیل و تکمیل کی طرف
بھی راغب کرتا ہے۔ جو مذاہب انسانوں کو رہبانیت اور دنیا سے فرار کا درس
دیتے ہیں ،اسلام اُن کے برخلاف سائنس اور دیگر جائز علوم و فنون کو نظامِ
فطرت میں مداخلت تصور نہیں کرتا بلکہ مروجہ علوم و فنون میں مہارتِ تامہ کا
پیغام دیتا ہے۔
|