تعلیم کے دورُخ ہیں ، ایک: ’’عصری تعلیم‘ ‘جس کو’ ’دنیاوی
تعلیم‘‘ یا ’’جدید تعلیم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جس کے ماہرین سیکولر انداز پر
زور دیتے ہیں ۔اس سے صرف عصری یا دنیاوی ضروریات پوری ہوتی ہیں ۔ دوسرا:
’’دینی تعلیم‘‘ جس کو’’مذہبی تعلیم‘‘ یا ’’روایتی تعلیم‘‘ بھی کہتے ہیں ۔اس
تعلیم سے دونوں فائدے ہیں دنیوی اور اخروی۔ یہی وہ علم یا تعلیم ہے جو دنیا
کے تمام تر علوم و معارف کا سرچشمہ اور منبع ہے۔ دنیا کے تمام علوم اسی کے
مرہونِ منت ہیں۔
کئی صدیوں پیشتر دینی تعلیم کے علما ہی اُس دور کے عصری تعلیم کے بھی امام
ہوتے تھے۔ابن سینا، فارابی، جابر بن حیان، رازی، ابن رشد، ابوالہیشم ،خیام،
خوارزمی، عبد المالک اصمعی، البیرونی، غزالی وغیرہ مسلم دانش وروں اور علما
نے اسلامی تہذیب و تمدن کے دائرے میں رہتے ہوئے اُس زمانے میں دینی علوم و
فنون میں کامل دستگاہ کے ساتھ ساتھ اُس دور کی ’’عصری تعلیم‘‘ کے بھی امام
نظر آتے تھے۔ ان حضرات نے اپنے عہد کی ’’عصری تعلیم‘‘ میں وہ روشن نقوش
مرتب کیے ہیں کہ آج کی جدید سائنسی دنیا انھیں کا پس خوردہ کھا کر ہمیں
ورطۂ حیرت میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔
|