’’ٹھک ٹھک ٹھک……‘‘۔دلاور نے سبین کے کمرے
کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
اندر سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ ایک دو بار دروازہ بجانے کے بعد کچھ ہل چل
ہوئی۔
سبین نے دروازہ کھول دیا اور اسے دیکھے بغیر پلٹ کر کمرے میں چلی گئی۔
’’ہیلو…… ہاؤ آر یو؟؟؟‘‘ ۔ دلاور نے پیٹھ پیچھے سے ہی اسے ہیلو کہا۔ جس کا
سبین نے کوئی جواب دینا ضروری نہ سمجھا۔
’’ہم م م…… تو میڈم ناراض ہیں‘‘۔ دلاور نے پھر کہا اور سبین نے کوئی جواب
نہ دیا ۔ وہ اپنے بیڈ پر بیٹھی اپنے موبائیل میں ادھر ادھر بے فضول بٹن دبا
رہی تھی۔
’’ماشاء اﷲ …… بہت پیاری لگ رہی ہو……‘‘ دلاور نے اس کی تعریف کی جبکہ وہ
بالکل تیار نہیں تھی۔
’’الجھے ہوئے بال کتنے اچھے لگتے ہیں……‘‘
’’کس نے الجھائے ہیں…… یہ تو بتائیں؟؟؟‘‘ دلاور نے اسے چھیڑا۔
’’رات کو میں نے اتنی کالز کیں تم نے فون کوئی نہیں پک کیا؟؟؟‘‘ دلاور نے
جھوٹ بولا ۔ اس نے کب سبین کو کالز کیں تھیں!!!
’’تم نے کالز کیں؟؟؟‘‘ سبین نے خاموشی توڑی اور فٹاک سے اسے گھور کر جواب
دیا ۔
’’ہاہاہا…… ہاں بھئی میں نے کالز کیں تھیں‘‘۔ دلاور ہنسا۔ پر اپنے جھوٹ پر
اڑا رہا۔وہ تو بس اس کی خاموشی توڑنا چاہتا تھا۔
’’چیک کرو اپنا موبائیل!‘‘ ۔ دلاور باضد تھا۔
سبین نے پھر اسے گھور کر دیکھا۔
’’چیک تو کرو……‘‘ ۔
’’دلاور ! تم نے کوئی کال نہیں کی…… مزے کر رہے تھے باہر……‘‘ ۔ سبین نے
دلاور کو آئنہ دکھایا۔
’’ہی ہی ہی…… ‘‘۔ دلاور ہنس پڑا۔ ’’تو تم آئیں ہی نہیں…… میں کیا کرتا؟؟؟‘‘
’’اچھا! تو میں نہیں آئی تو تم نے کہا کہ کوئی بات نہیں…… یعنی میرے ہونے
نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟؟؟‘‘ سبین نے جھگڑنا شروع کر دیا ۔ وہی جو
باتیں لڑکیاں ایسے موقعوں پر کرتی ہیں۔
’’ہا ہا ہا…… ایسی بات نہیں ہے جان…… میں تو بس ایک دو گھنٹے کے لئے باہر
نکلا تھا …… کہ سگریٹ وغیرہ پی لوں‘‘۔ دلاور نے پھر بات بنائی۔ سبین نے بے
یقینی میں منہ بنا لیا۔
’’اچھا سوری! اب وعدہ رہا کہ تمہار بغیر کبھی کہیں نہیں جاؤ گا‘‘۔ دلاور نے
الفاظ کھنچ کھینچ کر کہا۔ وہ مسکر مسکر کر سبین کو یکھ رہا تھا تا کہ جواباََ
وہ بھی مسکرا دے۔
’’ ……اور یہ دیکھو! دلاور نے سچے موتی کا بنا نیکلس سبین کی آنکھوں کے
سامنے کر دیا‘‘۔ زیورات تو عورتوں کی کمزوری ہوتی ہے۔ اور وہ نیکلس تو تھا
بھی بے حد حسین……
سبین کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی۔ جسے اس نے چھپانے کی نا کام کوشش کی……
’’یہ لو……‘‘ ۔ دلاور نے باکس میں سے وہ لاکٹ نکالا اور اپنے ہاتوں سے سبین
کو پہنا دیا۔ سبین کا غصہ رفع ہو گیا تھا۔ وہ خوش ہو گئی۔ اس رات وہ کہیں
نہیں گئے۔
دوسری صبح سبین اور دلاور ایک ہی کمرے سے باہر نکلے۔
۔۔۔۔۔۔۔
میں تیزی سے ایک ویران سڑک پر بھاگا جا رہا تھا…… کوئی میرا پیچھا کر رہا
تھا…… میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں اپنی قوت سے ذیادہ تیز رفتاری
سے بھاگنے کی کوشش کر نے لگا ۔ میں نے سڑک کے کونے پر بنے ایک گھر کی دیوار
سے ٹیک لگا لی۔ دائیں اور بائیں جانب کوئی نہ تھا…… میں نے کونے سے دوسری
سڑک کو دیکھا وہ بھی بالکل ویران پڑی تھی…… مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ
کہاں بھاگوں کہاں جاؤں……اگر وہ دوسری طرف سے نکل آیا تو مجھے پکڑ لے گا……
اب میں کوئی بچہ نہیں رہا تھا…… ایک مضبوط جوان بن چکا تھا…… مگر میں اس کے
خوف سے بھاگے جا رہا تھا۔
’’شاید اب وہ نہیں ہے‘‘۔ میں نے خود سے کہا اور پھونک پھونک کر آہستہ آہستہ
ایک طرف کو چلنے لگا۔’’ کاش میں اپنے گھر بہنچ جاؤں…… کاش میں اس سے بچ
جاؤں ……‘‘
میں سڑک کے کنارے بنے ہوئے گھروں کی دیواروں سے چپک چپک کر چل رہا تھا۔کرتے
کرتے آخری گھر آ گیا۔ میں وہیں کونے میں کھڑا ہو گیا۔ اگر دوسری گلی میں
موڑ کاٹا اور وہ وہاں موجود ہوا تو کیا ہو گا!!!
میری ہمت جواب دے چکی تھی۔ پیروں میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ اور بھاگ سکوں۔
میری پیٹھ کونے کی دیوار سے چپکی ہوئی تھی۔ بہت ڈر لگ رہا تھا مجھے…… اگر
وہ اس ہی گلی میں میرا انتظار کرر ہا ہوا جس میں مجھے مڑنا تھا تو کیا ہو
گا!!! میں گھر کیسے پہنچوں گا!!! وہ مجھے دبوچ لے گا…… میں خوف کے مارے بت
بن کر کونے کی دیوار سے لگا ہوا تھا…… بس ایک دل کی دھڑکن ہی تھی جس میں اب
تک جان باقی تھی…… دل زور زور سے دھڑک رہا تھا…… جیسے ابھی اچھل کر باہر ہی
آ جائے گا۔
میں نے آہستہ سے گردن گھمائی اور تھوڑا سا آگے ہو کر کونے سے تانک کر سڑک
پر دیکھنے کی کوشش کی……
’’آآآ…… ‘‘ وہ بھی دوسرے کونے میں ہی چپک کر کھڑا تھا۔ اپنے شکار کے انتظار
میں…… اس نے میرے منہ پر ایک پنجہ مارا…… میں سر پٹ بھاگنے لگا…… وہ پھر
میرے پیچھے پیچھے بھاگا…… میں اس کا مقابلہ کیسے کرتا!!! میں جسمانی طور پر
تو بڑا نظر آ رہا تھا مگر شعوری طور پر کوئی بچہ ہی بنا ہوا تھا…… اس نے
پیچھے سے ایک لمبا ہاتھ بڑھا کر مجھے میری قمیص کے کالر سے دبوچ لیا……
’’ہاہ!‘‘ ۔ میں نے زور لگا کر اپنی آنکھیں کھول دیں۔
’’اف!‘‘ ۔ یہ خواب تھا کہ حقیقت؟؟؟ میرا سارا جسم پسینے میں شرابور تھا۔ دل
زور زور سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی کہیں سے واقعی میں دوڑ کر آ یا ہوں۔
سانسیں اکھڑی ہوئیں تھی…… ’’ہاہ!‘‘ میں نے گہری گہری سانسیں لینی شروع کر
دیں۔
’’اف! یا اﷲ!‘‘ ۔ میں اپنے آپ کو سنبھالنے کی نا کام کوشش کرنے لگا۔
’’ہائے!‘‘ میں نے با مشکل ایک کر وٹ لی۔ میری آنکھوں میں بھرے آنسو میرے
گالوں پر سے ہوتے ہوئے تکیے میں جزب ہو گئے۔
صبح صادق کا وقت تھا۔ کہیں سے فجر کی ا ٓ ذانوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔
’ہاہ!‘‘ ۔ بچپن کی تلخ یادیں اب تک میرا پیچھا کر رہیں تھی۔
وہ خوف …… وہ لا چاری…… وہ کمزوری…… وہ بے چارگی…… ’’اف!‘‘ میں نے ایک بہت
گہرا سانس لے کر خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔سب کچھ ذہن کے کسی کونے میں
کھپاہوا تھا۔ ماضی تو ماضی ہوتا ہے ۔ کاش کہ اسے بدلا جا سکتا…… میری شخصیت
پر میرے ماضی نے جو چوٹیں لگائی تھیں، اب بھی ان زخموں سے خون رس جاتا تھا۔
میری مختلف اور حساس طبیعت کی وجہ بھی یہی تھی۔ اتنی سی عمر میں ہی وہ سب
بھگت لیا جو کوئی جوان بھی کیا سہہ پاتا…… میں تکیہ میں سر چھپا کر ویسے ہی
رونے لگا جیسے اپنے بچپن میں رویا کرتا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اب بھی وہ
حیوان میرے پیچھے پڑا ہے……
’’یا اﷲ مدد! ‘‘ میں نے روتے روتے خدا کو پکارا۔
ظاہری طور پر تو میں ایک صحیح سالم نوجوان تھا۔ مگر اندر سے ایک ٹوٹا پھوٹا
بت……
۔۔۔۔۔۔۔
میں معمول کے مطابق اسٹور میں اپنے آفس میں بیٹھا تھا کہ فہد کا دوست اور
ایک اور شخص اس کے ساتھ میرے آفس میں داخل ہوئے۔
’’السلام علیکم!‘‘ جو حضرت ساتھ آئے تھے انہوں نے آگے بڑھ کر سلام کیا۔
’’و علیکم اسلام! ‘‘ میں انجان نظروں سے اپنے سیلز مین کو دیکھنے لگا کہ اس
شخص کا تعرف کروائے۔
’’سر! یہ فہد کے والد صاحب ہیں‘‘۔’’آپ سے ملنے آئیں ہیں‘‘۔ وہ بولا۔
’’اچھا اچھا! ‘‘ ۔
’’بیٹھیں جناب! اب کیسی طبیعت ہے فہد کی……؟‘‘ میں نے پوچھا۔
انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے چہرے کا رنگ لال ہو گیا۔ میں حیرانی سے
انہیں دیکھ رہا تھا۔
’’بس جناب! تین دن ہو چکے ہیں……‘‘۔ ان کی آنکھیوں میں آنسو بھر آئے۔’’فہد
کا کچھ پتا نہیں……‘‘
’’وہ لڑکی بھی گھر سے فرار ہو گئی ہیں……‘‘ ۔ وہ اپنا رومال جیب سے نکال کر
منہ چھپا کر سسکیاں بھرنے لگے۔
’’کیا! فرار ہو گئی!!!‘‘۔ میری حیرت سے آثنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ مجھے
امید نہیں تھی کہ معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا۔
’’انہوں نے فہد اور میرے خلاف ایف آئی آر درج کرا دی ہے…… کہ فہد اسے بھگا
کر لے گیا……‘‘ ۔ وہ مشکل سے الفاظ توڑ توڑ کر بول رہے تھے۔
’’اوہ مائی گاڈ!‘‘ ۔
’’ اف!‘‘ ۔
’’یہ تو بہت برا ہوا‘‘۔ پریشانی کے عالم یہ چند جملے میری زبان سے نکلے۔
’’آپ بتائیے کہ میں کیا مدد کر سکتا ہوں آپ کی……؟؟؟‘‘ ۔
’’بس جناب ! اگر اس کے کسی دوست کا علم ہو جسے ہم نا جانتے ہو تو اس کا تا
پتا دے دیں……‘‘۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہاں کون کون اس سے ملنے آتا تھا۔
’’کیا کوئی یہاں اس سے ملنے آتا تھا……‘‘
’’کیا وہ لڑکی کبھی یہاں آئی ہے…… یا کوئی اور جو اس کی دوست ہو؟؟؟‘‘
’’کبھی کوئی ایسی بات آپ نے فہد کے بارے میں نوٹ کی ہوں؟؟‘‘ انہیں نے چار
پانچ سوال میرے سامنے رکھ دئیے۔ میں بھی ہر سوال کا جواب ڈھونڈنے لگا۔ مگر
مجھے ایسی کوئی بھی غیر معمولی بات فہد کے بارے میں یاد نہیں آ رہی تھی جس
سے کہ ان لوگوں کی کوئی مدد کی جاسکتی۔
’’ا م م م…… ایسی کوئی بات تو میں نے کبھی نوٹ نہیں کی…… وہ تو سیدھا سیدھا
اپنا کام کرتا تھا اور چھٹی کے ٹائم گھر چلا جاتا تھا……‘‘ میں نے سوچ سوچ
کر کہنا شروع کیا۔
’’ہاں بس اس واقعے سے…… جب اس نے اپنے آپ کو زخمی کیا تھا…… اس سے کچھ روز
پہلے مجھے وہ کچھ پریشان سا …… اور کھویا کھویا سا دکھائی دیتا تھا‘‘۔ میں
نے اپنی بات ختم کی۔
چند اور سرسری سی باتیں کر کے وہ وہاں سے چلے گئے۔
ان کے جاتے ہی میں نے موبائیل اٹھایا اور فہد کا نمبر ڈائیل کر دیا۔ نمبر
نہیں مل رہا تھا۔ فون آف تھا۔
’’ہاہ! ‘‘ ۔ میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور اپنی کرسی پر پیچھے کاندھے لگا
کر بیٹھ گیا۔ ذہن اب ان ہی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ کام پہ دھیان ہی نہیں
جا رہا تھا۔
’’ہاہ! پتا نہیں کہاں ہو گا وہ…… اور وہ لڑکی بھی……کیا کر رہا ہو گا! کس
حال میں ہو گا!‘‘
’’بہت برا ہوا…… عجیب محبت ہے…… پہلے اپنے آپ کو تکلیف دی پھر کسی کی پرواہ
کئے بغیر ایسا انتہائی قدم اٹھا لیا‘‘۔
’’پولیس بھی اسے ڈھونڈ رہی ہو گی……ایسی صورت میں کیا کیا جانا چائیے!!!‘‘۔
میں اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا ۔ ذہن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہا تھا۔
’’غلط کیا اس نے……‘‘
’’یا صحیح کیا؟؟؟‘‘ میں نے خود سے پوچھا۔
’’اگر میرے ساتھ ایسا کچھ ہو جائے تو کیا میں فوزیہ کے لئے ایسا کوئی قدم
اٹھاؤ گا؟؟؟‘‘ میں نے اپنی محبت کو پرکھنا شروع کر دیا۔
’’نہیں نہیں! میں ایسا کبھی کچھ نہیں کروں گا……‘‘
’’ مگر فوزیہ تو میری زندگی کا حصے بن چکی ہے میں اس سے کیسے دور جاؤ ں گا!
اس کے بغیر کیسے جیوؤ گا!!!‘‘۔ ’’ وہی تو ہے جو میری زندگی میں آئی ہے‘‘۔
’’ اس کے علاوہ اور کون ہے میرا……‘‘
’’ہاہ!‘‘۔ میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور گاڑی کی چابی اٹھا کر آفس سے نکل
گیا۔
اس دن میرا مجدی ساتھ مل کر کچھ شاپنگ کرنے کا اراہ تھا۔ ہم دونوں شاپنگ
مال ہی میں ملے۔ میں نے ایک ہی رنگ کی چار شرٹس خرید لیں…… سفید رنگ کی……
فوزیہ کو مجھ پر یہ رنگ بہت پسند جو تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہفتہ گزر گیا تھا دلاور اور سبین کو تھائی لینڈ سے واپس آئے ہوئے۔ مگر
اس نے کسی سے کونٹیکٹ نہیں کیاتھا۔ مجدی اور مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ وہ
کب واپس آ گیا۔ گو کہ میں دلاور کا پڑوسی تھا تب بھی اسے کبھی آتے جاتے
نہیں دیکھا۔ پھر ایک دن رات کو دس بجے کے قریب گھر کی بیل بجی۔ میں اپنے
روم میں ہی بیٹھا ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔
’’بھائی ! باہر دلاور بھائی آئے ہیں‘‘۔ میرے چھوٹے بھائی نے کمرے میں آ کر
بتایا۔ دلاور کا نام سنتے ہی میں نے منہ بنایا۔ ایک تو میں کتاب پڑھنے میں
محو تھا، دوسرا اس کے مطلبی پنے پہ میری پہلے ہی ہٹی ہوئی تھی۔ خیر ہم
دونوں کی دوستی میں یہ نرم گرم چلتا رہتا تھا۔ میں نے کتاب میں نشانی لگائی
اور ایک طرف کو رکھ کر اٹھا۔
’’جی جناب!‘‘ میں نے کھینچ کر جناب کہا اور اس سے گلے ملا۔
’’ ہو آئے؟؟؟‘‘ میں نے اپنی ایک بھنو کو اوپر کو اٹھا کر تشویش کی۔
’’ تو لاکھ روپے پھونک آئے سارے‘‘۔ میں نے اسے دیکھتے ہی طنز کے نشتر چلانے
شروع کر دئیے۔ اس کے چہرے پہ ہلکی سی بناوٹی مسکراہٹ تھی۔
’’ہاں! واپس تو میں ایک ہفتے پہلے ہی آ گیا تھا‘‘۔ دلاور نے مری مری سی
آواز میں جواب دیا۔
’’اچھا!‘‘ ۔ میں نے اس کی بدلی ہوئی آواز نوٹ کر لی تھی۔ لہذا اور کوئی
جملے کسنے سے پہلے کچھ توقف کیا۔
’’تو کال کیوں نہیں کی؟؟؟‘‘ ۔ میں نے شکوہ کیا۔
’’ ہاہ! بس یار……!‘‘ ۔ دلاور نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور صرف یہ دو الفاظ
اپنی زبان سے نکالے۔ میں بھی کچھ سنجیدہ ہو گیا۔
وہ ایک طرف کو چل کر گھر کے باہر ہی پودوں کی کیاری پہ بیٹھ گیا۔ ہم اکثر
جب کبھی کوئی چھوٹی موٹی بات کرنی ہوتیں تو یہیں بیٹھ جایا کرتے تھے۔
رات کے دس بجے تھے۔ گلی میں بقدرِ اندھیرا تھا۔
’’یار !‘‘ وہ کچھ رک کر پھر بولا۔’’ تمہارے گھر میں چھت پر جو کمرہ بنا ہے
وہ مجھے کرائے پہ دے دو……‘‘۔ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’ہیں!!!‘‘ ۔ میرے منہ سے حیرانگی میں نکلا۔میں سوچ رہا تھا کہ اتنا بڑا
گھر چھوڑ کر اسے ایک کمرے میں شفٹ ہونے کی کیا ضرورت پڑ گئی۔
’’کمرہ چائیے؟؟؟‘‘ میں نے پھر حیرت سے پوچھا۔
’’ام م م……‘‘۔ ’’ہاں! ‘‘ ۔ اس نے اور کوئی وضاحت نہ دی۔
’’مگر کیوں بھئی؟؟؟‘‘ ۔ میں نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔
’’بس یار ! ضرورت ہے……‘‘ ۔ اس نے مجھ سے نظریں چرائی اور دوسری طرف کو
دیکھنے لگا۔
میں نے بھی منہ بنایا کہ جانے کیا ڈرامہ کر رہا ہے وہ……
’’گھر بیچ رہے ہو کیا؟ ‘‘
’’……یا تمہیں لات مار کے نکال دیا ہے……؟؟؟‘‘ میں ہلکا سا ہنسا۔ اس نے کوئی
جواب نہ دیا اور یوں ہی کبھی ایک طرف کبھی دوسری طرف گردن گھماتا رہا۔
’’اچھا…… تھائی لینڈ کی تو سناؤ؟؟؟‘‘
’’کاش ہم بھی تھائی لینڈ جاتے……‘‘ میں نے اس سے تھائی لینڈ کے بارے میں
پوچھنا شرو ع کر دیا۔ اس نے بھی کٹے پٹے جملوں میں مجھے جواب دیا۔ کچھ دیر
یہ ہی باتیں چلتی رہیں۔ پھر ہم اپنے اپنے گھروں کے دروازوں میں گھس گئے۔
’’روم کے بارے میں بتانا پھر……‘‘ دلاور نے جاتے جاتے ایک بار پھر مجھے یاد
کرایا۔ میں پھر سوچ میں پڑ گیا کہ معاملہ کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔ |