واللہ کیا بات ہے

جیت کی تو جو خوشی تھی، سو تھی لیکن اس بات سے دل میں پھلجڑیاں چھوٹ رہی تھیں کہ میں نے اوّل پوزیشن لے کرایک سردار جی کو انجانے میں مات دے دی تھی جو دوسری پوزیشن پر ہالینڈ سے تھے۔۔بس تعریف کے لمحات کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں کھٹے میٹھے سے، دل کو گدگدانے والے،ہونٹوں پر مسکراہٹ لانے والے، یادوں میں درخشاں رہنے والے۔

واہ واہ، کیا کہنے، واللہ کیا بات ہے آپکی ؟
داد، تعریف،کیاانسان کو آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے ۔۔ ؟
تعریف وہ آکسیجن ہے جسے پانے کے لیے ہر بندہ انجانے میں ہی کوشاں رہتا ہے۔یہ انسان کے قدم کبھی کبھی زمین سے اکھاڑ کر آسمان کی بلندیوںتک پہنچا دیتی ہے۔ کچھ لوگ تعریف وصول کرنے کے اتنے عادی ہو جاتے ہیںجیسے آٹو گراف دینا ان کے لیے اک عام سی بات ہو جاتی ہے۔ ویسے ہی تعریف سننا بھی انھیں اک معمول کی بات لگنے لگتی ہے۔جبکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعریفی مقام منزل تک پہنچنے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے، بڑی جان مارنی پڑتی ہے اور سرخرو افراد کی قطار میں کھڑا ہونا کوئی سہل نہیں۔ اک عمر بیت جاتی ہے۔۔!
ایک مشہور گلوکار تھے۔ جنہوں نے برسوں مدح سرائی کی اورآخر کارشہرت کی بلندیوں پہ پہنچ گئے۔ شائد اس مقام پر جب پیچھے مڑ کر دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور تعریف ثانوی سی چیز لگنے لگتی ہے۔ انھیںکافی ایوارڈ ملے۔ ایک بار جب انھیں بہترین گلوکار کا ایوارڈ ملا اور ان کے تاثرات پوچھے گئے تو انھوں نے خاصی بے اعتنائی سے جواب دیا،
" اب میرے لیے ایوارڈ لینا اور تعریف پانا اتنا عام ہو چکا ہے کہ چنداں اہمیت نہیں رکھتا۔"
ممکن ہے عام انداز میں ہی یہ جملہ کہاگیا ہو یا انھوں نے احساس تفاخر سے ادا کیا لیکن سننے والوں کو ان کے جواب میں خاصی رعونت نظر آئی۔دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اُسی تقریب میں ان گلوکار کی گائیکی کے لیے موسیقی دینے والوں میں ایک طبلہ نواز بھی موجود تھے جنہیں فلمی موسیقی میں اپنا کردارادا کرتے ہوئے گلوکار سے بھی زیادہ عرصہ اور تجربہ ہو چکا تھا۔ وہ کوئی پچاس سال سے طبلہ بجا رہے تھے۔ جب ان تک یہ بات پہنچی تو انھوں نے کہاکہ،
" ان کے لیے تعریف پانا آج بھی روزِ اوّل جیسی اہمیت رکھتا ہے۔ جب وہ کسی محفل میں اپنا فن پیش کرتے ہیں تو عام سے انداز میںطبلہ بجانے کا آغاز کرتے ہیں لیکن جیسے ہی ان کی کارکردگی پر لوگ داد دیتے ہیں،تالیاں بجاتے ہیںاور واہ واہ کرتے ہیں تو خود بخود طبلے کی لَے اِک انوکھے ترنگ میں چلی جاتی ہے اور تب وہ خود بھی اک انوکھے نا قابل بیاں موڈ اور وجد کے عالم میں آ جاتے ہیں ۔مجمع پراک سحر طاری ہو جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آج بھی ان کو بر محل تعریف نہ ملے تو وہ بات اور ماحول بننا ممکن ہی نہیں۔"
بات تو سچ ہے اور ہے بھی پتے کی۔۔!
تعریف ، ایک ایسی طاقت ہے جسے پانے کے لیے ننھا بچہ بھی ایک کے بعد دوسرا قدم مسکراتے ہوئے اٹھاتا ہے۔مسکرا کر ماں باپ کو دیکھتا ہے ،لڑکھڑا کر گرتا ہے۔ پھر اٹھتا ہے اور اپنا عمل دہراتارہتا ہے۔
میرا پہلا آرٹیکل آن لائن اخبار اردو پوائنٹ پرچھپا تو دل میں اک خوشگوار احساس جاگزیں ہوا۔ دوسرے آرٹیکل پر تعریف کھل کر آئی تو اک انجانا سا نشہ محسوس ہونے لگا۔ تیسرا آرٹیکل پیا گئے رنگون تھا۔ کچھ احباب نے بہت کھل کر تعریف کی کہ انھیں لگا کہ یہ کسی پروفیشنل نے لکھا ہے۔ جبکہ اس پڑاؤ پہ پہنچنے تک ہم اپنے دل اور جذبات کو خاصا قابو میں کر چکے تھے۔ دل کو سمجھا چکے تھے اور دماغ کو خبردار کر چکے تھے کہ پاؤں زمیں پر ہی رہیں۔۔لیکن آج کچھ سال بعدکئی کتابوں کی مصنفہ بن کر ایک سنگ میل پر پہنچ کر میں اس بات کا بخوبی اندازہ کر سکتی ہوں کہ اگر مجھے پڑھنے والوں کی جانب سے تعریف، مثبت نقادی، واہ واہ نہ ملے تو شائد مجھے لکھنے کی وہ تحریک نہیں ملے گی جو مجھے لکھنے پہ اُکساتی ہے۔ بصؤرت دیگر بس جب دل چاہے گا لکھ لوں گی۔ نہیں چاہے گا تو نہیں لکھوں گی۔لیکن تعریف اور واہ واہ کی گونج کانوں میں پڑتی رہے تو آگے بڑھنا، سفر جاری رکھنا اچھا لگتا ہے۔ اس لیے تعریف واقعی کسی آکسیجن سے کم نہیں۔۔
ایک بار انگلینڈ کے ایک ریڈیو چینل سن رائز پرایک موضوع پر بحث و مباحثے کے مقابلے میں شرکت کر کے میں مقابلہ جیت گئی۔ جس میں یورپ کے مختلف ملکوں سے لوگوں نے حصہ لیا تھا۔اول پوزیشن پر پروگرام اناونسر کی مبارکباد، تالیوں کی گونج اور سٹوڈیو کے میوزک نے اک طوفان برپا کر دیا۔ مقابلے کے شرکاء کی مبارکباد ، وہ لمحات آج بھی یاد آتے ہیں تودل پر اک خوشگوار احساس اترنے لگتا ہے۔ تو ساتھ ہی یہ سوچ کر ہنسی آتی ہے کہ اس وقت جیت کی تو جو خوشی تھی ، سو تھی لیکن اس بات سے دل میں پھلجڑیاں چھوٹ رہی تھیں کہ میں نے اوّل پوزیشن لے کرایک سردار جی کو انجانے میں مات دے دی تھی جو دوسری پوزیشن پر ہالینڈ سے تھے۔۔بس تعریف کے لمحات کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں کھٹے میٹھے سے، دل کو گدگدانے والے،ہونٹوں پر مسکراہٹ لانے والے، یادوں میں درخشاں رہنے والے۔
مصنفین،لکھنے کے میدان میں جتنا قد آور ہوتے جاتے ہیں۔ وہ دوسرے لکھنے والوں کو اپنے ساتھ ایک ٹاکرے کی صورت پاتے ہیں۔تودوسروں کے لیے تعریفی الفاظ میں کنجوسی برتنے لگتے ہیں۔یہ صورتحال اس وقت کچھ اور بھی پیچیدہ ہوجاتی ہے، جب گھر میں ایک سے زیادہ مصنف موجود ہوں۔ پھر تعریف کی جگہ تنقیدی رویہ حاوی ہونے لگتا ہے۔۔جیسے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ۔۔ ایک میان میں دو تلواریں،ہر وقت جن کی کاٹ ایک دوسرے کوچیلنج دے۔۔میاں بیوی کم اور رقیب زیادہ۔
ممتاز مفتی اپنی کتاب۔۔اور اوکھے لوگ ۔۔ میں لکھتے ہیں کہ،
(اقتباس)
بانو قدسیہ کو گھر میں کوئی نہیں پوچھتا۔اشفاق اسے مانتا نہیں اس لیے در خوراعتنا نہیں سمجھتا۔اشفاق نے آج تک بانو قدسیہ کی کوئی تخلیق نہیں پڑھی۔اسے کبھی کبھی لارے ضرور لگاتا ہے کہ ،
"بانو کبھی وقت ملا تو تیری کہانی ضرور پڑھوں گا۔"
البتہ ایک روز مجھے کہنے لگا،
"ہاں اچھا لکھتی ہے میرا مطلب خاصہ۔"
پھر وہ مجھ سے قریب تر ہو کر بولا
"تلقین شاہ کے جملے چرالیتی ہے پر ٹانکنے نہیں آتے۔"
اسی طرح شو بز میںاداکارائیں بھی بیان بازی زیادہ کرتی ہیںاور اگر کسی ٹی وی یا فنکشن میں تعریف کرنی پڑ جائے تو عالمِ مجبوری میں کرتی ہیں۔جبکہ سیاستدان تو یہ مجبوری بھی نہیں پالتے۔
ویسے کچھ لوگ تعریف پانے کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ اپنی جگہ کسی دوسرے کو آسانی سے دینے پر تیار نہیں ہوتے۔غالبا داد پاتے پاتے ان کے ظرف کے پیمانے اتنے لبریز ہو جاتے ہیں کہ دوسرے بندے کی تعریف کے لیے ان کی زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔ تعریف کرنااور سننا ان کے لیے قطعاخوشگوار نہیں رہتا۔
میرا خالہ زاد بچپن سے ہی پڑھائی میں ہوشیار اور بہت محنتی ہوا کرتا تھا۔ ہر سال اول پوزیشن حاصل کرنا، انعام پانا اس کے لیے جیسے معمول کی بات بن چکی تھی۔ سو جس روز اس کا سالانہ رزلٹ آتا تو وہ بغیر کسی گھبراہٹ کے بڑے اعتماد سے نتیجہ سننے جاتا۔ ادھر خالہ جان بھی اک تفاخر سے اپنی خوشی دوبالا کرنے کے لیے دو چار کو ساتھ لے کر جاتیں۔ کیونکہ اول پوزیشن کا نام پکارنے پر سب لوگ غیر ارادی طور پر اس
محنتی اورخوش نصیب بچے کی ماں کو بھی دیکھنے کی کوشش کرتے۔ تو خالہ جان کے لیے بھی وہ لمحات بڑے خاص ہوتے جو انھیں اچانک اک اونچے مقام پر پہنچا دیتے، لیکن ایک بار۔۔۔،
پانسہ الٹا پڑ گیا۔ محنت تو پہلے کی طرح ہی کی گئی تھی۔ اعتماد بھی قائم تھا۔ کہ نہ جانے کیا ہوا، کیسے ہوا ۔۔؟
اب کی بار ایک لڑکی اوّل پوزیشن کی بازی لے گئی۔ میرا کزن جو بے چینی سے اس گھڑی کا انتظار کر رہا ہے۔صرف اول پوزیشن کا سنتے ہی غیر ارادی طور پر کھڑا ہو چکا تھا۔اس کے چہرے پر بے یقینی چھائی گئی۔ پھر جب دوسری پوزیشن کے لیے اس کا نام پکارا گیا۔ تو اس کے چہرے پر خوشی کی کوئی رمق باقی نہ تھی۔ وہ اپنی جگہ پر ہی مایوس کھڑا رہا اور انعام لینے میں قطعا کوئی دلچسپی نہ دکھائی۔یقینا ہر سال تالیوں اور داد کی صورت تعریف اس کے وجود میں اتنی گھر چکی تھی کہ اب اس سے تھوڑے پر خود کو راضی کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔بس اس کے تعلیمی دور میں وہی اک نشیب تھا۔ بعد میں وہ پھر اپنی پوزیشن پر ڈٹا رہا۔آج وہ پڑھ لکھ کر بنک میں افسرلگا ہے۔ یقینا یہاں تک پہنچنے میں اس نے بڑی محنت کی ہے، لیکن کہیں نہ کہیں اس میں تعریف، داد اور تالیوں کی گونج کا کردار بھی ہو گا۔ جو اسے آگے بڑھنے میں بڑھاوا دیتی ہوں گی۔
ویسے ضروری نہیں کہ تعریف ہمیشہ مثبت کردار ہی ادا کرتی ہو۔ اس کی تاثیر ہر بندے کے لیے مختلف ہوتی ہے۔یہ کسی کے سر چڑھ کر ناچنے لگتی ہے۔کسی کی نظروں میں سما جاتی ہے۔کبھی کبھی بندے کا دماغ شماغ بھی خراب ہو جاتا ہے۔ پاؤں زمین پر نہیں رہتے۔ دل ہر وقت دھمال ڈالے رکھتا ہے۔دنیا انگوٹھے اور پہلی انگلی کے بیچ جتنی نظر آنے لگتی ہے۔
اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن پر تعریف کا کچھ خاص اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ دنیاوالوں سے اس کا ایوارڈ لینا چاہتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ انھوں
نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے وہ اپنی محنت اور تگ و دو کے بل بوتے پہ پایا ہے۔ ایسے میں انھیں تعریف خوشامد کا لبادہ اوڑھے لگتی ہے۔ انھیں تو بس اپنے ہی ستارے عروج پر لگتے ہیں۔
جیسےمشہور مصنفہ ادا جعفری کے بارے میں لکھا گیا ہے ،
" ادا کو اپنا کلام سنانے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ حالانکہ عام طور پر شاعر کے لیے سنانا اک مجبوری ہے ایسی مجبوری جو زچ کر کے رکھ دیتی ہے۔ لیکن ادا جعفری اس مجبوری سے آزاد ہے۔ بے نیاز ہے۔ اسے بس تخلیق کی سرشاری سے تعلق ہے۔سنانا لازم نہیں۔ کوئی داد دے نہ دے۔ اس کے لیے چنداں فرق نہیں پڑتا۔ الٹا پبلسٹی سے وہ خائف ہے۔"
ویسے کبھی کبھی تعریف کرنے والے بھی مشکل میں آ جاتے ہیں۔ جب اُن کی تعریف کو آپ کی دعائیں کہہ کر لوٹادیا جاتا ہے۔
تعریف سچی بھی ہوتی ہے اور جھوٹی بھی، خوشامدی بھی اوردل سے نکلی اک دعا بھی،
اب یہ چاہے کسی بھی روپ میں ہولیکن اس کا سحر بندے پر نشہ ضرورطاری کر دیتاہے ۔۔
ایک بار میرا کئی سالوں بعد اپنے پھپھا جان سے ملنا ہوا، انھوں نے پوچھا،
بیٹا کونسی کلاس میں پڑھتی ہو؟
میں نے جواب دیا،
کالج ۔۔فرسٹ ائیرمیں،
وہ بے اختیار بولے
بلے بھئی بلے،
سو ان کی وہ تعریف اور انداز آج بھی مجھے یاد ہے۔
کائنات بشیر(جرمنی)
٭٭٭٭٭
 

Kainat Bashir
About the Author: Kainat Bashir Read More Articles by Kainat Bashir: 27 Articles with 53249 views میرا نام کائنات بشیر ہے۔ میں کالم، انشائیہ، آرٹیکل، مزاح نگاری، افسانہ اور ہلکے پھلکے مضامین لکھتی ہوں۔ اس کے علاوہ وجد کے کچھ لمحات شاعری کی نذر کرنا.. View More