تحریر۔۔۔ سعدیہ بشیر لاہور
کچھ روز پیشتر ہمیں ایک آکو پنکچر کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ
کانفرنس تمام طریقہ ہائے علاج سے متعلق ڈاکٹرز کی باہمی مشاورت پر مبنی تھی۔
اور اس کا مقصد صرف صحت کی بحالی اور بیماری کا علاج تھا خواہ وہ طب سے ہو
یا ہو میو پیتھی یا پھر جڑی بوٹیوں اور آکو پنکچر کے ذریعے سے۔ نہایت قابل
ڈاکٹرز کے پیپرز سنتے ہوئے ہمیں ان پر رشک آ رہا تھا۔ وہ سب اس چینی طریقہ
علاج سے بخوبی واقف تھے جس سے جسم کے مقررہ حصوں کے ذریعے بیماریوں کا علاج
ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ شاید چینی قوم کی ترقی کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اسی
طرح معاشرے میں کسی بھی خرابی کی جڑ تک پہنچ کر بہترین نتائج حاصل کر لیتے
ہیں۔ کچھ عرصہ سے ہمارے یہاں بھی آکو پنکچر نے کافی مقبولیت حاصل کر لی ہے۔
اس علم کی افادیت اور ڈاکٹرز کی مہارت کا اندازہ ہمیں انکے لیکچرز سے ہوا۔
آکو پنکچر کا تمام تردارومدار پوائنٹس کی شناخت پر ہے۔ اور اچھا ڈاکٹر ہر
بیماری کے علاج کیلئے ان پوائٹنس سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ پلک جھپکتے ہی
ہمیں وہ ڈاکٹرز تخت نشینی کے حق دار نظر آنے لگے۔ آخر انکے اندر وہ
صلاحیتیں موجود تھیں کہ کون سے مسائل میں کون سے پوائنٹ پر ہاتھ رکھنا ہے۔
کہاں عوام کو روکنا ہے؟ کہاں بھیڑ چال کی صورت رواں رکھنا ہے۔ کس ٹارگٹ سے
ان کا راستہ تبدیل کرنا ہے۔ کیسے نصاب کے ذ ریعے انکے دماغوں کو سلانا ہے
اور الیکشن کے قریب کن کن نعروں کے ذریعے اس سوئی قوم کو جگا کر ووٹ بنک
بھرنا ہے۔ ڈاکٹرز حکمرانوں کی طرح نبض شناس معلوم ہوتے تھے جو سارے پوائنٹس
کورٹے ہوئے تھے۔ ہمیں اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا۔ اب تک کسی پوائنٹ کی
سمجھ نہیں آ سکی۔ ہم اپنے بیمار لاشے لئے زندگی کی بھاگ دوڑ میں شامل ہیں
لیکن ایسے کسی پوائنٹ کو نہیں سمجھ سکے جو ہمارے ذہنوں کو جلا بخش دے یا
ہماری نیم خوابیدہ سوچ کو جگا سکے۔ ہمارے اندر یہ خواہش شدت سے ابھر رہی
تھی کہ کاش ہم بھی سماجی بیماریوں سے متعلق پوائنٹس کا علم حاصل کر سکیں
اور ہمیں ایسی سوئیاں مل جائیں جنہیں ہم ایسے ناسوروں پر آزما سکیں جس سے
سسٹم کو تو کوئی نقصان نہ ہو لیکن فاسد خون سارا کا سارا بہہ جائے۔ ہم اپنی
لا علمی سے کند اور زار ہاتھ میں لئے اس سسٹم میں جگہ جگہ سوراغ کر چکے ہیں
لیکن نتیجہ صفر، اس غلط طریقہ علاج نے ہمارے نظام اور معاشرہ کی تمام تر
خوبصورت غارت کر دی ہے۔ لیکن ہم نیم مسلمان کے مصداق خطرہ ایمان بھی بنے
ہوئے ہیں اور نیم حکیم بن کر خطرہ? جان بھی بن چکے ہیں۔ ادھوری قابلیت اور
ادھوری صلاحیتوں نے ہمارے اندر سب کچھ جاننے کے زعم کی بیماری پیدا کر دی
ہے جس کا علاج کسی بھی طب میں ممکن نہیں۔ بس ہاتھوں میں اخلاقی برائیوں کی
سوئیاں لئے ہم سوراخ پہ سوراخ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کیلئے جواز فراہم
کرنا ہمیں خوب آتا ہے۔ ہم نت نئی کہانیاں گھڑنے کے خوگر ہو چکے ہیں۔ ہمیں
اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہماری یہ جھوٹی سچی کہانیاں اس نظام کے بخیے ادھڑتی
چلی جا رہی ہیں۔ ہم نہ تو کہانی کی نیت سے واقف ہیں اور نہ کہانی کے مقصد
سے ادھر ادھر کے قصوں سے کہانیاں بنانے اور سنانے میں ہم اتنے طاق ہو چکے
ہیں کہ ہمیں نہ تو کسی کی دل آزاری کا خیال آتا ہے اور نہ ہی کبھی یہ خلش
ستاتی ہے کہ اس سے کسی کی زندگی تباہ ہو سکتی ہے۔
سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ہم نے مسیحائی کا فریضہ انہی ہاتھوں کو سونپ
رکھا ہے جو اپنے فرائض اور پیشے کے تقدس سے نابلد ہیں۔ آکو پنکچر در حقیقت
قدیم چینی طریقہ علاج ہے۔ ابتداً اس طریقہ علاج میں ہڈیاں اور نوکیلے پتھر
بھی استعمال کئے جاتے تھے۔ ہم ماضی، حال اور مستقبل کے تضاضوں سے بے خبر
روایات کی مردہ ہڈیاں اور ہٹ دھرمی کے نوکیلے پتھروں سے جدیدیت کے ریشے تار
تار کرنے میں مشغول ہیں۔ اس طریقہ علاج سے نہ تو جدیدیت کا حسن برقرار رہتا
ہے اور نہ ہی روایت کا افادی پہلو قائم رہ سکتا ہے۔ ہماری نادانی کے نشتروں
نے ایسے خلا پیدا کر دیئے ہیں جن کو پر کرنا ہر چند مشکل تو نہیں لیکن
ہماری بے بضاعتی نے انہیں اتنا مشکل بنا دیا ہے کہ بے گناہ زندگیاں اور
معصوم خواہشوں کا خون بھی ان خلاؤں کو بھرنے میں ناکام ہیں۔ یہ ایسے خلا بن
چکے ہیں جو بھرنے کا نام ہی نہیں لیتے، ہم قربانیوں کے بعد شمعیں جلا کر
انہیں دفنا دیتے ہیں۔ ہم نہ تو بیماری کی تشخیص کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور
نہ ہی طریقہ? علاج سے ہم اپنے حال پر توجہ دینے اور اسکو بہتر بنانے کی
بجائے ماضی کے خدوخال سنوارنے اور سدھارنے کی کوشش میں مشغول رہتے ہیں۔
ہمارے سامنے حادثات کے نقوش تنے کھڑے رہتے ہیں لیکن ہماری دانش مندی ماضی
کی روایات اور انکے تجزیے میں مصروف ہے۔ کہیں ایسا بھی ہو جاتا کہیں ویسا
بھی ہو جاتا کی خواہش نے ہم سے شعور ہی چھین لیا ہے۔
چور کے ہاتھ کاٹنا ہوں تو ہمیں اسلام کی سزائیں ظالمانہ لگتی ہیں لیکن کسی
محنت کش کے ہاتھ اور بازو کٹ جائیں تو بس چند دنوں کا راگ…پھر نوحہ کرتی
خاموشی۔قتل کے بدلے پھانسی ہو تو ظلم کی انتہا لگتی ہے۔ اور بنا کسی جواز
کے پتھر مار کر، جلا کر، ڈنڈوں سے ، گاڑی سے گھسیٹتے ہوئے کسی کو مار ڈالیں
تو پھر بھی نوحہ کرتی خاموش تصویریں ہی رہ جاتی ہیں۔ اور ہم ماضی کے راز
عیاں کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔ کہانی بنانے اور سننے کے شوق نے ہمیں ملاوٹ
کا عادی بنا دیا ہے جب تک ہم حقائق کو توڑ موڑ کر اپنی پسند کی کہانی نہ
بنا لیں ہمیں اپنی دانائی پر شبہ رہتا ہے۔ سوخود کو اس شک سے مبرا کرنے
کیلئے ہم کہانیاں بنانے کے فن میں طاق ہو چکے ہیں۔ اپنے اپنے مسلک ،عقیدے
اور بزرگوں کے متعلق سب کی اپنی اپنی پسندیدہ حکایات ہیں۔ جھوٹ سچ کی آمیزش
پر اتنی پختہ عمارات کھڑی ہیں کہ ان کو گرانا اب ممکن نہیں رہا۔ ان عمارات
میں کوئی کھڑکی کوئی روشن دان یا ہوا کاگزر محال ہے ، ن سے باہر نکلنے کا
کوئی راستہ ہم نے چھوڑا ہی نہیں۔ ہم سب ایک ہیں الگ الگ راستوں سے گزر کر
بھی اکٹھے ہو سکتے ہیں اﷲ کرے ہم وہ پوائنٹس سمجھ لیں جو ایک راستے پر یکجا
کر دیتے ہیں اور ہم بھی ایک قوم بن کر سوچنا سیکھ لیں |