پاکستان میں ایک ہی چیز پھٹیچر ہے اور وہ ہے اس ملک کا
عدالتی نظام ۔جسے تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل انگریز نے اپنے مفاد کے لیے
بنایااور آج بھی یہی نظام اپنی تمام تر خامیوں کے ساتھ عوام کا خون چوس رہا
ہے۔، انگریز نے اپنے عدالتی نظام کو تو وقت کی ضرورت کے تحت جدید کیااور
قابل عمل بنایا ۔ جس کا اندازہ ان کی قابل ذ کر ترقی سے لگایا جاسکتا
ہے۔لیکن پاکستان کے عوام اُسی فرسودہ نظام کو بھگتنے پہ مجبور ہیں جہاں
مقدمات کئ سال تک چلتے ہیں مدعی اپنے تمام مالی وسائل اور سفارشوں سے مدد
لے کر بھی ناکام ہی رہتے ہیں معاشرے میں رشوت خوری کی سب سے بڑی مثال اسی
عمل کے دوران دکھائی دیتی ہے۔ جو جج حضرات اپنے ضمیر کی آواز سنتے ہیں ان
کو تبادلہ کی شکل خمیازہ بھگتنا پڑ تا ہے ۔وکلاء منہ مانگی فیس وصول کرتے
ہیں ۔ایسے کیسز بھی دیکھنے میں آۓ جہاں انصاف ملنے تک ملزم زندگی کی بازی
ہا ر گیا ۔خواتین باقی شعبوں کی طرح یہاں بھی استحصال کا شکار ہیں
۔طلاق ، خلع ، اولاد کی حوالگی،بچوں کا ماہانہ خرچ ، زنابالجبر،قتل ،جائیداد
میں حصہ سے محرومی ، پسند کی شادی ، اور اس نوعیت کے کئی مقدمات لڑتے لڑتے
عورت کو رہی سہی عزت ، اخلاقی سپورٹ اور مال سے محروم ہو نا پڑ تا ہے ۔
اکثریت اپنے حق کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی بجاۓ صبر کا مظاہرہ کر
تی ہے لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بھی بہت کم ہے جو انصاف اگلے جہاں پہ رکھ
چھوڑتے ہیں ۔ جذباتی افراد خون خرابہ اور مار دھاڑ پہ اتر آتے ہیں -
جائیداد میں ناانصافی کا شکار صرف خواتین ہی نہیں مرد حضرات بھی ہو تے نظر
آتے ہیں ۔ ہبہ کے قانون کے تحت پسندیدہ اولاد کو جائیداد تحفًتا دے دی جاتی
ہے ۔ اور باقی وارثوں کا حق دبا لیا جا تا ہے ۔ جس دین کے ہم پیروکار ہیں ۔
وہ تو محبت کا مذہب ہے ۔ دین اسلام میں وراثت کے قوانین واضح ہیں ۔ کیا
اللہ کےقانون سے بہتر کوئی انسانی فیصلہ ہو سکتا ہے ۔ ہر گز نہیں ۔
بھائی بھائی کا دشمن بن جا تا ہے معاشرے میں ٹوٹتے پھوٹتے خاندانی نظام کی
ایک وجہ یہ بھی ہے ۔
آج ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ قانون سازی کر نے والے وہ مٹھی بھر لوگ
ہیں جو جعلی ڈگریوں اور جعلی ووٹوں سے اسمبلی میں جا بیٹھتے ہیں قانون سازی
، عام انسان کی مشکلات ان کا منشور نہیں ہے ۔فوجی ڈکٹیٹر ہو یا جمہوریت
کانعرہ لگانے والا منتخب صاحبِ اقتدار ۔
ہر قانون وہ جو انکے مفاد میں ہو ۔ وہ یہ بناتے ہیں ۔ اور اس پہ عمل درآمد
کرواتے ہیں ۔ ٹیکس کے قوانین ہی دیکھ لیجۓ ۔ کیسے غریب عوام کو خون نچوڑتے
ہیں !
کیا ان کا کوئی خدا نہیں ۔جس کا خوف انہیں شرم سار کرے ۔ کیا ان کا کوئی مذ
ہب نہیں جس کے اصول ان پہ بھی لاگو ہو۔
کرسی کی لڑائی ان کا نصب العین ہے جس کے لئیے یہ ہمہ وقت اپنی سب قوتیں
برؤے کار لاتے ہیں ۔
آج پاکستان کو بیرونی سازشوں ، دہشت گردی ، اور دیگر کئ مسائل کا سامنا ہے
۔ ایسے میں اگر چند غیر ملکی کھلاڑی پاکستان چلے آۓ ۔ تو پاکستان کے وقار
میں اضافہ ہوا ۔ دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے ہم سب کو مل کے کام کر نا
ہو گا ۔ یہ آج ہمارے مسائل کا حل ہے۔
نادیہ عنبر لودھی
اسلام آباد
پا کستان |