جشن عید میلاد النبی اور کرسمس کی بھی آمد ہے۔ میں اپنے
اردگرد کے ماحول میں بکھرے تضادات کو دیکھتا ہوں تو سوچ میں پڑ جاتا ہوں ،
یہ معاشرتی تضادات مجھے اندر تک دکھی کر جاتے ہیں، میں ان کو سوچ کر کڑھتا
رہتا ہوں ! مگر میرے پاس اس کے سوا اور کیا حل ہے کہ میں اپنے دکھ و رنج کی
وجوہات کی نچاندہی کروں ، اس میں آپ کو شریک کروں کہ شاید ہم مل کر سوچیں
تو سوچ کی سمت کو درست کر سکیں ! ہم مسلمان اپنے نبی کی آمد پہ خوشیاں
منائی جاتی ہیں، ہزاروں پاﺅنڈ وزنی کیک بنانے کے مقابلے ہوتے ہیں، مٹھائیاں
بٹتی ہیں مگر کیا ہم نے سوچا کہ کرسمس بھی تو اک نبی کی آمد کا جشن ہے ؟
لیکن جب کرسمس کی تیاریوں کے لیے لگے بازاروں ، ، سیلز اور شاپنگ میں مصروف
لوگوں کو دیکھ کر لونڈے لپاڑے اور غیر محتاط لوگ تمسخر سے کہتے ہیں ” او
ہمساےاں دی عید اے “ تو یقین جانئے بہت دکھ ہوتا ہے !میرے نبی نے تو کہا ہم
عیسیٰ اور موسیٰ کو ان کی قوموں سے زیادہ ماننے والے ہیں تو ہم اپنے ملک
میں بسنے والی عیسائی اقلیت کی خوشیوں میں برابر کے شریک کیوں نہیں ہوتے ؟!
جب بدنام زمانہ میسج چلتا ہے کہ” میری کرسمس“کہنا حرام ہے تو یقین جانئے
بہت دکھ ہوتا ہے ، ہمارے ملک میں کچھ بھی کیوں چل جاتا ہے اور جب عدم
برداشت کا مظاہرہ کرنے پہ آئیں تو ہم اپنے ہم وطن بھائیوں کو ان کے انداز
میں ” عید مبارک“ کہنے پہ بھی فتوی کفر کے ملزم ٹھہریں ، یقین جانئییہ
تضادات دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے ! اور فتوی کفر کا کیا کہنا ہے ، یہاں جو
میلاد مناتے ہیں وہ بھی کافر ، جو نہیں مناتے وہ بھی کافر ہیں اک دوسرے کی
نظر میں !یہ جب ہر بات پہ کفر کا فتوی لگتا ہے نہ تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے
! مجھے یہ نہیں دیکھنا ، نہ اس پہ بحث کرنا ہے کہ کس کا عقیدہ درست ہے ؟ کس
کی سمت غلط گر سب اس کے بندے ہیں، اس کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس
کے پیغمبر سے محبت کرتے ہیں تو اس کی تعلیم پہ عمل کیوں نہیں کرتے ؟!
رب کی جانب کوئی ایک رستہ تو نہیں جاتا ہر وہ رستہ جو خلوص اور سچ کو زاد
راہ بنا کر کیا جائے اس سے جا ملتا ہے۔ اس رستے میں کسی کو رد کرنا ، کسی
کی دل آزاری کرنا ، کسی پہ کفر کا فتوی کیوں لگایا جائے ، جب جب یہ سب ہوتا
ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے ! نام رب اور عشق رسول کا لیا جاتا ہے۔ اسی نام پہ
محفلوں کا انعقاد ہوتا ہے…… نعت خواں بلائے جاتے ہیں…یہ نعت خواں اور قوال
منہ مانگی قیمت لے کر ان محفلوں میں آتے ہیں اور یہ گناہ گار آنکھیں گواہ
ہیں کہ بوریوں میں نوٹ لے کر جاتے ہیں!میلاد کی کوالٹی ، علاقے ، کلاس کے
حساب سے قیمتیں مقرر ہیں اور ثناخواں اسی حساب سے قیمت طلب کرتے ہیں…… لنگر
پکتے ہیں ، چراغاں…… درزیوں کی چاندی…… خواتین کے زرق برق ملبوسات…… اور
پھر نعت رسول ہو تو کس کافر کو درد؟!
وہ تو وہ ہستی ہے کہ کفار نے بھی اس کی ثنا خوانی کی ! مگر نعت کے نام پہ
ایسا متعصبانہ کلام پڑھتے ہیں جس میں دوسرے فریق کو گالیاں دی جاتی ہیں……
نہ منانے والے کو کافر اور برا بھلا کہا جاتا ہے ، جب ان محفلوں میں تعتیہ
کلام کی جگہ یہ فتوی کفر لہک لہک کر پڑھا جاتا ہے تو یقین کیجئے ، بہت دکھ
ہوتا ہے ! دوسری طرف بھی یہی انتہا پسندی کا عالم ہے وہ اس تہوار کو کوئی
رعایت دینے کو تیار نہیں۔ وہ ان محفلوں کا انعقاد کرنے والے کو کافر ثابت
کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں !ان کے پاس بھی نفرت کی اپنی
دلیلیں ہیں ! وہ اپنے گھروں اور مسجدوں سے وہ اضافی لائٹس بھی بند کر دیتے
ہیں جو عام دنوں یں جلتی رہتی ہیں تبرک یا لنگر کا کھانا حرام کہ کر ضائع
یا واپس کر دیتے ہیں ! یہ نفرت کا گرم بازار دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی ہے ،
بہت درد ہوتا ہے ! عالمی سطح پہ مسلم امہ میں بڑھتے تشدد اور اشتعال کو زیر
بحث لایا جا رہا ہے ! عالمی سطح پہہماری جگ ہنسائی ہوتی ہے کہ ہر دہشت گرد
واقعے کی جڑیں مسلمانوں سے کیوں آ ملتیں ہیں !
عراق تباہ حال ، کھنڈر ہے،شام کی گلیاں خون سے نہائی ہوتی ہیں !،افغانستان
میں ہر گھر ایک مقتول کا گھر ہے !،کشمیر سے لے کر مشرق وسطیٰ تک خون مسلم
کی کوئی قیمت ہی نہیں عالمی بازار میں !
،ان گلیوں میں روز یہی قتل و غارت ہوتی ہے !،یہ گلیاں روز مسلم خون سے نہلا
دی جاتی ہیں !،ترکی ابھی اک دائیں ، بائیں بازو کی بغاوت سے نبرد آزما ہو
چکا ہے ! ہوتے ہوتے بچا ہے !،کیا یہ دیکھ کر دکھ نہیں ہوتا ! بہت ہوتا ہے
!،حساس دل سوال کرتا ہے کہ عالمی بازار میں خون مسلم کیوں اتنا ارزاں ہے
؟؟،مگر سب یہ سوال ا?پ خود سے کیوں نہیں کرتے ؟،کیا خون مسلم کی کوئی قیمت
آپ کی اپنی نظر میں بھی ہے ؟،کیا یہ سچ نہیں کہ ان ممالک میں مسلمان فرقہ
واریت کی بنا پہ خود ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں؟ شعیہ سنی بلاک بن چکے
ہیں۔۔۔۔۔،اور ان کے پس پشت جو ممالک ہیں وہ بھی کٹڑ مسلم ریاستیں اور ان کا
کردار طشت از بام………اور آپ سے یہ سوال پوچھتا ہے
یوں تو سید بھی ہو ، مرزا بھی ، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتاﺅ تو مسلمان بھی ہو !
یہ مسلمان اک دوسرے کو قتل کر کے فخریہ کہتے ہیں کہ کافر کو جہنم رسید کر
دیا
سنی بھی کافر ، شعیہ بھی کافر
اسماعیلی کافر ، وہابی کافر!!
سب کو اڑا دو ، کسی کو زندہ رہنے کا حق نہیں !
تو اس ارزاں کون کی جب ہماری اپنی نظر میں کوئی وقعت و قدر نہیں تو دنیا
کیا کرے گی ؟؟؟ !!!جن کو ہم کافر کہتے تھکتے نہیں ، وہاں جب کوئی سانحہ ہو
تو یہ بحث نہیں چھڑتی کہ کتنے مسلم ، کتنے کافر ، کتنے عیسائی مارے گئے !……
انسان مر گئے……انسان مر رہا ہے…… یہ سانحی ہے !ہماری ذہنی پستی کا تو یہ
عالم ہے کہ ہمارے گھر سانحہ ہوتا ہے……… اک حادثہ،قیمتی جانیں چلی گئیںاک وہ
شخص چلا گیا جو ہمارا ہیرو تھا……وہ گلوکار تو بھی پاکستان کا نام گوشے گوشے
میں گونجا!رب کریم نے اس کیلئے کسی اور رستے کو منتخب کیا تو بھی اس نے وطن
کو عزت بخشی !
وہ سحر و افطار میں گھر کا ممبر بن کے بیٹھ جاتا تھا !
بے شمار آنکھیں اس کے لئے گریہ زار ہیں !
اس کے حسن اخلاق کی گواہی دے رہی ہیں !
حسن ظن کا مقام یہ ہے کہ وہ یقینا اک اچھا انسان تھا !
ایک قیمتی انسان مر گیا… سانحہ یہ ہے………
وہ کس مسلک سے تھا ، اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ جب میں دیکھتی ہوں کہ خاص
مسلک کے لوگ اس کی موت پہ جشن منا رہے ہیں ، توہین آمیز اور تکلیف دہ
پیغامات بھیج رہے ہیں تو بہت دکھ ہوتا ہے ! کیا آپ کو نہیں ہوتا ؟؟اگر ہوتا
ہے تو پھر سوچئیے کہ اس مسلکی گروہ بندی نے آپ کو اخلاق کی کس پستی میں گرا
دیا ؟؟کیا یہ موت دونوں طبقہ ہائے فکر کے عالموں ، مولویوں کی آنکھیں
کھولنے کو کافی نہیں کہ اب موت بھی نیلام ہو رہی ہے ؟؟اک انسان مر گیا۔۔۔۔۔
اور آپ کہتے ہیں کہ۔۔۔۔۔ اسے کیسے دوہراﺅں۔۔۔۔ اک بات کہنے کی اجازت دیجئے
، گر دین اخلاق نہیں سکھاتا تو بیکار ہے !اک اور بات کہنے دیجئے ، جب تک
عالم دین حکونت۔۔۔۔۔ اپنے مسلک کی حکومت کا خواب چھوڑ کر انسان کی تعمیر کا
خواب نہیں اپناتا۔۔۔۔۔ بھول جائیے کہ نفرت کی دیوار گرے گی !
انسان کیلئے مذہب پیدا ہوا !
مذہب کیلئے انسان کو پیدا نہیں کیا گیا !
انسان مر رہا ہے……مارا گیا ہے…مار دیا گیا ہے
المیہ یہ ہے ، یہ ہونا چاہئے ! ہم مسلم جب تک انسان کی عزت اس کے عقیدے سے
ماورا ہو کر کرنا نہیں سیکھیں گے ، ہمارا خون بے وقعت ہی رہے گا !کوئی
میلاد مناتا ہے اسے منانے دیجئے !آپ کا کام نصیحت ہے کہ دین میں اختراع نہ
کیجئے ، اک تہوار کو دین نہ بنائیے ! اور جو نہیں مناتا ، اسے بھی جینے
دیجئے !نفرت کی بے شمار دلیلیں محبت کی ایک دلیل سے ہار جاتی ہیں !مذہب کو
کاروبار تجارت و سیاست بنا دیکھ آج کا مسلم نوجوان حیرت سے پوچھتا ہے
اک پاسے میرے رہن وہابی ، ایک پاسے دیوبندی
اگے پچھے شعیہ سنی ، ڈاہڈی فرقہ بندی
وچ وچالے ساڈا کوٹھا ، قسمت ساڈی مندی
اک محلہ ، اٹھ مستیاں ، کیدی کراں پابندی !
یہ آٹھ مسجدیں ، آٹھ اذانیں ایک کیوں نہیں ہوتیں ؟؟ !
کیا چندے کا ڈبہ نہیں ہونے دیتا ؟؟ !
کیا معیشت ہی آپ کا خدا ہے ؟
پھر گلہ کیوں کرتے ہیں کہ آج کا نوجوان مذہب اور خدا سے باغی ہے ؟؟ !ہم
مسلمان جب تک انسان کی عزت اس کے عقیدے سے ماورا ہو کر کرنا نہیں سیکھیں گے
ہمارا خون بے وقعت ہی رہے گا !حق تو یہ ہے کہ آپ کے پڑوس میں گر کوئی کرسمس
منا رہا ہے تو اک پلیٹ مٹھائی کی خیر سگالی کے طور پر بھیج دیجئے ! اپنی
اور اپنے اپنوں کے خون کی قدر و عزت کرنا پہلے خود سیکھئے !اک دوسرے پہ کفر
کا فتوی لگانا چھوڑیے !پھر سوال کرنے کی جرات و قوت و اخلاقی جواز ہے آپ کے
پاس عالمی برادری سے !
ورنہ تو بھی کافر……میں بھی کافر……
جاگو مسلمانو……بازی لے گئے کافر ! |