حقیقی تبدیلی کیسے آئے گی ؟

دنیا کی تاریخ میں معاشرتی و علاقائی توازن کبھی مستقل طور پر متوازن نہ رہا ہے حالات ہمیشہ ہی گردش میں رہے ہیں کبھی موافقت تو کبھی مخالفت کی لہر انسانی معاشرت کا حصہ رہی ہے انسانی معاشرہ کو ترتیب دے کر اس میں توازن بر قرار رکھنے کی تقریباً بیشتر ادوار میں کوشش کی گئی ہے اور کسی حد تک اس میں کامیابی حاصل کی گئی مگر وقت کی رفتار اور حالات میں تغیر کی گردش نے انسانی معاشرے کو غیر متوازن رکھا اس میں بنیادی وجہ جو راقم کے زوایہ نگاہ کے موافق رہی وہ یہی ہے کہ طمع نفسانی اور خود کو طاقتور ثابت کرنے کے جنون نے ہمیشہ ہی معاشرتی و معاشی اقدار کو پامال کیا یوں دنیا میں مثالی معاشرے کا ڈھانچہ بلا تکمیل ادھورا ہی رہا سیاست اورسیاسی نظام کسی بھی معاشرے میں اساسی حیثیت رکھتے ہیں مگر بنیادی سیاسی و جمہوری اقدا ر کی سمجھ بوجھ نہ رکھنے والے افراد جب سیاسی نظام کا حصہ بنتے ہیں توصرف اور صرف اقرباء پروری اور غیر مساوی ترجیحات پروان چڑھتی ہیں اسطرح معاشرتی نظام کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے جس مملکت میں نظام قانون مساوی ،غیر جانبدار اور بالا تر نہ رہے وہاں کرپشن ،دھونس او ر سیاسی مفاد کی مداخلت کو نہیں روکا جا سکتا ظہور اسلام سے قبل حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں بھی ایسا مثالی نظام قائم ہوا جسمیں قانون بالادست رہا اور انصاف کی فراہمی عام شخص تک میسر آئی حالانکہ یہ سلطنت پوری زمین پر محیط تھی جبکہ انسانوں کے علاوہ مخلوقات عالم بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے احاطہ حکومت میں تھیں مگر پھر بھی معاشرت اور نظام قانون پر پوری طرح علمدرآمد ہو تا رہا ۔

تاریخ دنیا میں مارٹن لوتھر وہ شخص تھا جس نے رومن کیتھولک کلیسا کے خلاف کھلم کھلا سرکشی کر کے پروٹسٹنٹ اصطلاحات کی بنیاد رکھی لوتھر نے اعلیٰ مدرسے میں تعلیم حاصل کی اور اپنے باپ کے اصرار پر قانون کی تعلیم بھی حاصل کرنا شرو ع کر دی مگر اسے ادھورا چھوڑتے ہوئے لوتھر آگسٹینین راہب بن گیا جو کہ بعد میں اس نے وٹن برگ یونیورسٹی سے الہیات میں ڈاکریٹ کی سند حاصل کی اور اسی میں ہی پڑھانے لگا گو لوتھر سب سے پہلے تدریسی پیشے سے منسلک ہوا کلیسائی تصور اس وقت فقط پوپ تک محدود تھا جو معافی نامے کی صور ت میں مادیت میں غرق ہو چکا تھا لوتھر نے مذہب میں محض پیشوائی اثر کو رد کرتے ہوئے عوام کو انجیل اور عقل پر کاربند رہنے کیلئے ترغیب دی اور یکسر پوپ کے اختیارات مخالفت کر دی لوتھر کا ماننا تھا کہ اصل راہمنائی انجیل اور اپنی سادہ عقل سے لی جا سکتی ہے مذہبی پیشوا محض مادیت کی لالچ میں دنیا داری کی جانب راغب ہو گئے ہیں جن کا اصلاح سے دور دور تک کوئی تعلق نہ ہے دراصل ہر انسان آزاد پیدا کیا گیا ہے اور کتاب ان کی عمل کو بہتر بنانے کیلئے اتار ی گئی ہے مگر مذہبی پیشوا پوپ وغیرہ نے اسے حصول دولت کا ذریعہ بنا لیا ہے اور صر ف اپنا امتیاز بر قرار رکھنے کیلئے مذہب کو بنیاد بنا لیا ہے لوتھر کو کلیسا اور اس کے سرکاری افسران کے سامنے پیش ہونے کا حکم ہوا متعدد سماعتوں کے بعد غلطی نہ تسلیم کرنے پر اسے بدعتی قرار دے دیا گیا اور اس کی تحریروں پر ممانعت عائد کر دی گئی اور طے ہوا کہ لوتھر کو کھونٹے سے باندھ کر جلا دیا جائے مگر جرمن عوام میں لوتھر کے خیالات خاصے پھیل چکے تھے اور لوتھر نے متعدد افرا د اور دو جرمن شہزادوں کی حمایت حاصل کر لی تھی جس نے اس امر کو ناممکن بنا دیا مگر لوتھر کو ایک سال تک رو پوش ہونا پڑا لوتھر کا گراں قدر کارنامہ یہ تھا کہ اس نے انجیل کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا جس سے ہر خواندہ و ناخواندہ شخص تک اصل انجیل کی تعلیمات ہوگئیں اور کلیسا اور پادریوں پر تقیہ کرنے کی روش کم ہو گئی اسطرح لوتھر نے اپنے علم و فکر سے ایک قوم میں امتیازی نظام کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا لوتھر کا نظریہ الہانی دراصل سینٹ پال سے ماخوذ تھا جس نے جرمنی میں برسوں سے قائم مذہبی امتیازی نظام کو ختم کیا ۔
 
اسی طرح سر زمین عرب نبوت کی روشنی سے قبل ظلمت کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی اور یہی امتیاز ی تفریق اس سر زمین پر رہنے والے باشندوں پر مسلط تھی مگر نبی کریم ﷺنے اس طبقاتی امتیازی نظام کو ختم کرنے کیلئے عملی جدو جہد کی اس کٹھن مرحلے میں آپ ﷺ کو بے شمار مصائب و اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا با لاخر آپ نے اپنے علمی و فکری اور عملی نور سے ظلمت کدوں کو ہدایت کے نور سے روشن و منور کیا اور ایک ایسے فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھی جس کے کرہ ٔ زمین پر مثال نہیں ملتی جس نے بعد خلفاء راشدین نے انہی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نہ صرف پوری دنیا پر اپنی حکومت قائم کی بلکہ ایسے معاشرتی راہنماء اصول وضع کئے جس سے معاشرتی ناہمواری تقریباً ختم ہو کر رہ گئی حضرت عمر ؓ کے دور میں ترقی کی نئی سمتیں متعین ہوئیں جنہیں آج بھی معاشی نظام کی کامیابی کی کلید تصور کیا جاتا ہے ۔

قارئین ! یہ بڑی سادہ فہم سی حقیقت ہے کہ ادھورے نظام کے زیر اثر چلنے والے معاشرے میں قباحتیں کبھی ختم نہیں ہو سکتیں جب تک ایسے قواعد و ضبوابط وضع نہ کئے جائیں جس سے نظام مکمل ہوجائے اور دوہرے یا امتیازی سلوک کا عنصر ختم نہ ہو جائے ملک پاکستان میں نظام تو موجود ہے مگر اس کی حقیقی طور پر تکمیل ہی نہ ہوئی ہے اور نظام میں دوہرے پن نے پورے سسٹم کو ہی بگاڑ کر رکھا ہوا ہے اب چونکہ اس ملک میں بسنے والے افراد نے تعلیم کی اہمیت کو بھانپتے ہوئے اس کے حصول کیلئے عملی جدو جہد شرو ع کر دی ہے مگر ذہنی طور پر آج بھی امتیازیت کی قلق ہمارے اذہان میں پروان چڑھ رہی ہے جو براہ راست ہماری عملی زندگیوں پر اثر انداز ہورہی ہے یہاں قانون تو پل بھر میں بنا لئے جاتے ہیں مگر معاشرے میں ان کا اطلاق کم ہی ہو پاتا ہے جس وجہ سے طبقاتی امتیاز پیدا ہو کر پورے سسٹم کو تہس نہس کئے ہوئے ہے اشرافیہ طبقے کیلئے قانون کی حدود سے نکلنا مشکل نہیں اور اس میں ہمارے اداروں میں بیٹھی ہوئی کالی بھیڑیں اس طبقے کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ایسے افراد تقریباً تمام ملکی اداروں میں موجود ہیں جو محض اپنے ذاتی مفادات کیلئے قومی مفادات کا گلا گھونٹ کر غالب طبقے کو نوازتے ہیں دراصل اس دوہری نوعیت کی معاشرت میں انصاف اور قانون کی بالا دستی کا خواب دیکھنا ایک حماقت سے سوا کچھ نہیں جب تک ایوانوں میں قابل افراد بر سر اقتدار نہیں آئیں گے ملک کبھی ترقی نہیں کر سکے گا ہم میں سے ہر کوئی تبدیلی کا داعی ضرور ہے مگر کوئی خود کو تبدیل کرنے کیلئے تیار ہی نہ ہے اعشارے پر سارجنٹ نہ ہوتو ہم اعشارہ توڑنے میں وقت نہیں لگاتے دراصل تبدیلی سوچ او ر فکر میں تبدیلی کا نام ہے چہروں کے تبد یل ہو جانے کو تبدیلی نہیں کہا جا سکتا پانامہ کرپشن پر خوب شور بر پا ہوا دونوں سیاسی پارٹیوں کی جانب سے الزامات کے خوب گولے داغے گئے شعور سے عاری افراد اپنی نفسانی ہوس کی آگ بجھانے کیلئے اپنے اپنے لیڈران کے تحفظ کیلئے کمربستہ ہو گئے قطع نظر کہ حقیقت کا ان کی آنے والی نسلوں پر کیا پڑے گا ؟ ادھر عمران خان صاحب احتساب کی بات کرتے ہیں تو بھئی پہلے گھر سے شرو ع کریں نا ں؟ میں ایک سوال پوچھتا ہوں ان احتساب کے علمبرداروں سے کہ بھئی آپ کی خیبر پختونخواہ میں حکومت ہے آپ وہاں اسمبلی میں کرپشن کے خاتمے کا کوئی معقول بل کیوں نہ لے آئے ؟ کوئی ایسا قانون کیوں نہیں بنایا اور احتساب کا عمل اپنے صوبے سے شروع کر کے کوئی مثال قائم کیوں نہ کر دی ؟ بات دراصل ایک ہی ہے یہاں عوام اور ملک پاکستان کا کوئی خیر خواہ نہیں سب اقتدار کی سیج حاصل کرنے کے گورکھ دھندے ہیں یہاں آئین میں وزیر اعظم کیلئے صادق اور امین ہونے کی شرط موجود ہے قانون کہہ رہا ہے جو صادق اور امین نہیں اسے اقتدار کے منصب پر رہنے کا کوئی حق نہیں مگر یہاں ڈھٹائی سے اقتدا ر پر جمے بیٹھے افراد آخر کن میں سے ہیں ؟ اور تعجب کی بات ہے سب جانتے ہوئے بھی ہمار ے ملک کے سپریم ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ؟ بہر کیف جب تک چوروں ، لٹیروں اور قانون شکن افراد کے حمایتی آپ کے سسٹم میں موجود ہیں تب تک کرپشن سے پاک ترقی یافتہ پاکستان کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں آپ بیرونی کرپشن کی بات کر رہے ہیں یہاں ملکی اداروں میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی اربوں روپے کی کرپشن کا سد باب کون کرے گا ؟

Fahim Afzal
About the Author: Fahim Afzal Read More Articles by Fahim Afzal: 5 Articles with 3241 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.