عرب دنیا عراق کویت جنگ کے بعد سے ابتک مسلسل عدم تحفظ کی
شکار ہے،اسرائیل کا وجود تو ایک ناسور کی طرح بڑے عرصے سے عربوں کو گھائل
کرہی رہاتھا،اب اس پر مستزاد اندرون وبیرون کی ہولناک جنگوں نے اس خطے کو
تباہ و برباد کرکے رکھ دیاہے،عرب اسپرنگ سے بھی جو نوجوان آس لگائے بیٹھے
تھے ان کے خواب بھی بہت بُری طرح چکنا چور ہوگئے ہیں،عراق میں صرح کذب
بیانی کی بنیاد پر بلا جواز امریکی مداخلت ہو یا لیبیا وشام میں خانہ
جنگیاں، یمن میں حوثی بغاوت ہو یا داعش کے مظالم،،سب ہی نے یہاں کی
تباہی،بربادی اور خون ریزی میں اپنا پورا پورا حصہ ڈال دیاہے،اوپر سے ایران
بھی عراق،شام اور یمن میں جلتی پر تیل چھڑک چھڑک کر خرابی ء بسیار کا مرتکب
ہواہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بے پناہ وحدت اور سیاسی بصیرت کا ثبوت
دیتے ہوئے ان حشر بداماں حالات میں اپنا مثبت کردار بڑی ثابت قدمی سے ادا
کیا ،اسی لئے خطے میں شیطانی چال چلانے والی قوتیں اِ ن دونوں ملکوں کے
خلاف بڑی تُندہی سے سرد جنگ کے انداز میں نبرد آزماہیں،یہاں کے حکمرانوں
اور ان کے طرزِ حکمرانی پر میڈیا میں آئے دن انتقادات کی بوچھاڑ کرتے نہیں
تھکتے،بالخصوص مملکت سعودی عرب کو اسلام اور عرب مخالف لوبی مشرق ومغرب میں
کسی نہ کسی عنوان کے تحت کوستی رہتی ہے، کیونکہ اغیار کو اچھی طرح معلوم ہے
کہ اس وقت اسلامی دنیا خاص کرپاکستان جیسے نیو کلئیر طاقت کے مالک عظیم ملک
کو ساتھ ملاکر وہ مسلمانوں کی قیادت کر رہے ہیں۔
شرق ِ اوسط کے موجودہ نقشے کو استعماری قوتوں کے دست بُرد سے بچانے کے لئے
پہلے انہوں نے خلیج تعان کونسل بنائی پھر< دِرع الجزیرہ > نامی فورس تشکیل
دی، عرب لیگ کو مشترکہ عرب فورس بنانے پر بہت زور دیتے رہے ، داعش کا
مقابلہ کرنے کے لئے پچاس ملکوں کی فورسز کو کام لائے، آگے جاکر یمن میں
حوثیوں کی پیش قدمی روکنے کے لئے شروع میں دس ملکی کولیشن کا اعلان کیا،بعد
میں اسے توسیع دے کر تین درجن سے زائد اسلامی ممالک کو اُس میں ضم ہونے کی
درخواست کی ،اس کے لئے پاک آرمی کے سابق چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کو
کمانڈر انچیف نامزد کیا، جنرل راحیل سے انہیں توقع ہے کہ وہ اس فورس کو
باضابطہ نیٹو طرزِ اتحاد میں مربوط ومنظم کردیں گے،کہ اس شخصیت میں کشش اور
صلاحیت دونوں صفتیں بھرپور ہیں،ہماری معلومات کے مطابق جنرل صاب کوریاض میں
ان کے شایانِ شان محل بھی دیاگیاہے ، اُن کے تجربات اور قابلیت سے یوں پوری
اُمّہ کے حق میں عظیم الشان فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں ، الله کرے جنرل
راحیل کی اس قیادت سے ارضِ حرمین محفوظ تر ہو اور ایک مضبوط تر اسلامی بلاک
قائم ہو۔
اب حال ہی میں سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،اردن اور مصر نے چار ملکی عرب
نیٹو کا اعلان کرکے بالکل نئی صف بندی کا بھی عند یہ دے دیا ہے،
بقول مشہور عرب تجزیہ نگار عبدالرحمن الراشد کہا جارہا ہے کہ عرب فوجی
اتحاد (عرب نیٹو)اس مغربی فوجی اتحاد (نیٹو) کے مشابہ ہے جو سابق سوویت
یونین کے توسیع پسندانہ اور جارحانہ عزائم کو سرد جنگ کے زمانے میں روک
لگانے کے لیے قائم کیاگیاتھا۔ اس وقت روس ،ایران اور شام ملکر عرب ممالک
میں عسکریت اور دہشت گردی کونہ صرف ہوا دے رہے ہیں ، بلکہ اس خانہ بربادی
میں شریک ہیں،روس نے کریمیا کو ہڑپ کرنے کے بعد شام میں علی الاعلان فوجی
مداخلت کی ہے،نہایت وحشیانہ انداز سے انسانی جانوں اور بستیوں کو ملیامیٹ
کررہاہے،اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا ،
ایران بہت پہلے سے یہ سب کچھ کررہاہے، اس لئے سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات
،مصر اور اردن نے ایران روس کے توسیع پسندانہ عزائم سے نمٹنے کے لیے ایک
مشترکہ فوجی اتحاد قائم کردیاہے،سب کو معلوم ہے کہ ایران قبل ازیں عراق اور
شام میں موجود تھا اور پھر اس نے اپنا اثر ورسوخ لبنان اور یمن تک بھی بڑھا
لیا ہے۔
نیز یہ چاروں عرب ممالک ایک طویل عرصے سے اتحادی چلے آ رہے ہیں۔ان سب نے
یمن جنگ میں اپنی اپنی بساط کے مطابق حصہ لیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی فوج
سعودی دستوں کے شانہ بشانہ یمن میں برسرزمین (حوثی باغیوں کے خلاف) لڑرہی
ہے جبکہ اردن کے باقی تینوں ممالک کے ساتھ ابتدا ہی سے مضبوط فوجی تعلقات
استوار ہیں۔
شرقِ اوسط میں علاقائی فوجی قوت کے اعتبار سے ایک بہت بڑا سیاسی خلا موجود
ہے۔بالخصوص گذشتہ آٹھ سال کے دوران میں یہی صورت حال رہی ہے۔ مزید یہ کہ
امریکا کی خطے میں عدم دلچسپی اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدے نے اس عدم
توازن کو مزید ابتر کردیا ہے۔اس خلا کے نتیجے میں ایران نے عراق کے اندر
اپنے اثرورسوخ کو بڑھا لیا ہے،وہ شام میں جاری جنگ میں عسکری اعتبار سے
بھرپور طریقے سے شریک ہے اور اس نے پہلی مرتبہ ملیشیاؤں پر مشتمل ایک بڑی
فوج تشکیل دی اور ان کو تربیت دے کر شام بھیجا ہے۔ ایران نے یمن میں حکومت
کے خلاف بغاوت کی مدد وحمایت کرکے جنگ کے شعلے بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔
عرب نیٹو یا چار ملکی اتحاد کی چھتری تلے فوجی تعاون ایک اچھی تجویز ہے۔اگر
اس سے ماورا بھی تعاون کیا جاتا ہے تو یہ ایک ناگزیر قدم ہوگا کیونکہ ایران
وروس کے مقابلے کے لیے ایک اتحاد کا قیام یمن ،شام اور عراق سے فوجی اتحاد
کا جواب دینے اور اس سے توازن قائم کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔
پھر یہ کہ ایران روس کے ساتھ تعاون کررہا ہے اور روس کا ایران میں ایک فوجی
اڈا بھی ہے۔روس اپنے اتحادی ایران کے ساتھ مل کر شام میں جاری جنگ میں
بھرپور طریقے سے شریک ہے۔ایران نے پاکستان ،عراق ،لبنان اور دوسرے ممالک سے
تعلق رکھنے والی مسلح ملیشیاؤں کو شام کی جنگ میں جھونک رکھا ہے اور وہ
وہاں اس فوجی اتحاد کے جھنڈے تلے ہی لڑرہی ہیں ،عسکری ماہرین کے عنوان سے
ایرانی پاسدارانِ انقلاب بھی مسلم دنیا یا عالمِ عربی میں جا بجا موجودہیں
،روس بھی پوتن کی قیادت میں پوری دنیا کو چیلنج کررہاہے ،ایسے میں اگر کچھ
یا تمام عرب ممالک نیٹو طرزِ اتحاد میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو گویا وہ
اپنے مخالفین ایک واضح اور دو ٹوک پیغام بھی دے لینگے کہ ذرہ احتیاط، آگے
خطرہ ہے۔
|