ایک عاقل بالغ شخص جو کہیں سے بھی کسی سے بھی کسی بھی طرح
کا علم حاصل نہیں کرنے کے باوجود اپنی ہردنیا وی نفع دنقصان کا علم بخوبی
رکھتا ہے‘ پھر بھی معاشرہ اُسے جاہل ہی کہتا ہے۔ یعنی صرف دنیا وی نفع و
نقصان کا علم رکھنا ہی علم نہیں بلکہ یہ جہالت ہے۔ لہذا ایسے لوگ بھی جاہل
ہیں جو دنیاوی علم کے ماہر ہیں لیکن اپنے رب کی معرفت نہیں رکھتے‘ توحید
کیا ہے نہیں جانتے‘ نبی ﷺ کی سیرت و سنت سے انہیں کوئی سروکار نہیں‘ دینِ
اسلام کے اہم عبادات و احکامات اور امر و نواہی کا انہیں پتہ نہیں اور جو
اسلامی معاملات و اخلاقیات سے عاری ہیں‘ جو اپنے انجام سے بے خبر ہیں:
يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ
هُمْ غَافِلُونَ ﴿٧﴾ سورة الروم
” وہ تو صرف دنیوی زندگی کے ظاہر کو ہی جانتے ہیں اور آخرت سے تو بالکل بے
خبر ہیں“
اور آخرت سے بے خبر رہنے والے زمین و آسمان اور انکے اپنے اندر پھیلے اللہ
کی نشانیوں کو دیکھ کر اللہ کے آگے جھکنے کے بجائے اپنی تمامتر دنیاوی علم
کے باوجود جہالت کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں اور غرور و تکبر میں اکڑتے
پھرتے ہیں:
فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِندَهُم
مِّنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ﴿٨٣﴾
سورة غافر
”پس جب ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیاں لے کر آئے تو یہ اپنے علم پر
اترانے لگے ، بالآخر جس چیز کو مذاق میں اڑا رہے تھے وہی ان پر الٹ پڑی۔ “
آج دنیا میں جو بھی فساد ہے ان ہی مغرور و متکبر جاہلوں کا پیدا کردہ ہے‘
جن کے پاس علم تو ہے لیکن ناقص علم ہے جو انکے اندر اور پوری دنیا میں فساد
ہی پھیلارہا ہے۔ اور ایسے نا قص علم والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہی
ہوتا جا رہا ہے اور دنیا دن بدن جہنم بنتا جا رہا ہے۔
لہذا دنیا سے فساد دور کرنے کیلئے علم ناقص کو علم نافع میں تبدیل کرنا
ہوگا جو کہ بڑا آسان ہے جیسا کہ ہمارے رب نے سکھایا ہے:
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ سورة العلق
” اپنے رب کے نام سے پڑھیئے جس نے سب کو پیدا کیا “
یعنی جس علم کی تحصیل کا آغاز اللہ رب العزت کے بابرکت نام اور معرفتِ
الٰہی سے ہو‘ جس علم میں اسلامی عقیدے و نظریے کو مرکزیت حاصل ہو‘ جو علم
دنیا اور آخرت دونوں جہاں کی کامیابی کی ضامن ہو‘ وہی علم نافع ہے۔ صرف
نظریے اور سوچ کی تبدیلی سے ہر علم علم نافع کا درجہ اختیار کر سکتا ہے‘
موجودہ جدید ترین سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم بھی معرفت الٰہی کی معراج تک
پہنچانے میں ذریعہ بن سکتا ہے۔ لیکن دوسروں کی سوچ بدلنے والی اُمت آج
جہالت اور جہالت کی وجہ کر ہر طرح کی اعتقادی‘ اخلاقی اور عملی برائیوں میں
گھری ہوئی ہے۔
یہ اُمتِ اقرا ہے لیکن آج اقرا کی راہ کو چھوڑ کر ساری دنیا میں جہالت کی
ذلت میں ذلیل و خوار ہو رہی ہے ۔
مایوسی کفر ہے۔ لہذا امت کی اس جہالت سے مایوس ہونے کے بجائے اسے اس جہالت
سے نکالنے کی سعی کرنا ضروری ہے۔
اقرا سے شروع ہونے والی یہ امت اس سے بھی زیادہ جہالت سے نکل کر محض چند
سالوں میں دنیا کی مہذب و مکرم امت بنی تھی اور ساری دنیا کی امامت کے
فرائض انجام دی تھی ۔ آج بھی اس امت کے پاس وہ نسخۂ کیمیا قرآن و سنت کی
شکل میں محفوظ ہے‘ ضرورت ہے تو صرف اقرا کی راہ اپنانے اور اس پر عمل کرنے
اورکرانے کی۔
ضرورت ہے ایسے نیک و صالح رہنماؤں کی جو کتاب و سنت کی روشنی سے عوام کے
دلوں کو منور کریں، نئی نسلوں کی اذہان کو علم و حکمت سے مزین کرکے صحیح
طرز فکر کی طرف رہنمائی کریں اور اسلامی اساس سے متصادم منفی رجحانات کا
سدِباب کریں ۔ لیکن اس امت کی باگڈور آج جن رہنماؤں کے ہاتھوں میں ہے وہ
خود ہی احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں‘ جو اسلام سے اپنا دامن چھڑا کر اور
اسلامی اقدار کو پامال کرکے موجودہ ترقی یافتہ مغربی اقوام کے صف میں شامل
ہونے کی سعی ناکام کیئے جارہے ہیں جبکہ یہ مغربی اقوام ہی ہیں جنہوں نےاپنی
جہالت سے دنیا کو تباہی کے دھانے پہ لا کھڑا کیا ہے۔ گزشتہ قریب ایک صدی سے
ان مغربی اقوام کے نقش قدم پر امت کو چلانے کی سعی کرنے والے رہنماؤں و
دانشوروں نے نتیجہ دیکھ لیا کہ اس سعی میں امت مزید جہالت کی دلدل میں دھنس
گئی ہے لیکن شاید انہیں امت کی خیر خواہی منظور نہیں ورنہ کچھ تو سبق
سیکھتے اور امت کی صحیح رہنمائی کرنے کی سعی کرتے۔
آج اُمت مجموعی طور پر دو طبقوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک طبقہ رہبانیت کی طرز پر
صرف دینی تعلیم کو ہی کامیابی قرار دیتا ہے تو دوسرا طبقہ دہریت کی ڈگر پر
چل کر صرف دنیا بنانے کی تعلیم پر زور دیتا ہے۔ نتیجہ آدھا تیتر اور آدھا
بٹیر والا ہوا ہے ۔
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ پچاس سے زیادہ مسلم اکثریت ممالک کو آزاد ہوئے
قریب ایک صدی ہونے کو ہے لیکن آج تک کسی نے بھی اپنا کوئی تعلیمی نصاب نہیں
بنایا۔ کیا مسلمانوں میں کوئی ٹیلنٹ نہیں‘ کوئی ایسا دانشور‘ کوئی ایسا
رہنما نہیں ہے جو مسلمانوں کے لئے ایسا تعلیمی نصاب ترتیب دے جو مغرب کا
جہالت زدہ علم کو کتاب و سنت کی زیورات سے سجا کر نفع بخش علم میں تبدیل کر
سکے اور امت کو جہالت سے نکالے ؟
اللہ سبحانہ و تعالٰی نےجب اِس اُمت کو وجود میں لانا چاہا تو اِس کی
شروعات غار حرا کے اندھیروں میں علم کی روشنی ’’ اقرا ‘‘ سے کیا ۔
اِس اُمت نے اپنے پہلے جنگی قیدیوں سے علم سِکھانے کا کام لیا لیکن اُس علم
کو کتابُ اللہ اور معلم اعظم نبی کریم ﷺ کی سنت کی روشنی میں ڈھال کر علم
نافع بنایا۔ لہذا فرقوں میں بٹی ہوئی یہ اُمت اگر ایک اُمت بننا چاہتی ہے
تو اِس کی شروعات دوبارہ علم سے ہی ہونی چاہئے‘ ایسا علم جو علم نافع
کہلائے۔ آج دشمنانِ اسلام کے پاس جو علم کا سرمایہ ہے اُ سے حاصل کیا جائے
لیکن اُس میں کتابُ اللہ اور سنت ِرسول ﷺ کی چاشنی ملا کر اُسے علم نافع
میں تبدیل کیا جائے۔
لہذا اُمت میں جہالت کی سدباب کیلئے اور امت کو عروج پر پہچانے کیلئے ضروری
ہے کہ ایسا تعلیمی نصاب متعارف کرایا جائے جس کا آغاز اللہ رب العزت کے
بابرکت نام اور معرفتِ الٰہی سے ہو‘ جس میں اسلامی عقیدے و نظریے کو مرکزیت
حاصل ہو اور جو جدید سائنس و ٹیکنولوجی کے علم سے ہم آہنگ ہو۔ |