کرہء ارض پر سب سے محترم اور مقدم دوہی مقامات ہیں ایک
حرم مکی اور دوسرا حرم مدنی ۔
اقوامِ مسلم حج عمرہ کی غرض سے یہاں آتے ہیں ۔ تاکہ اپنے گناہوں کی رب
ِکریم سے معافی طلب کر سکیں ۔ اور فریضہ حج جو اسلام کا رکن بھی ہے ادا
ہوسکے ۔ یہاں ہر آنے والا اپنے سابقہ گناہوں سے پاک ہو کر اپنی نئی زندگی
کا آغاز کرتا ہے ۔ بعض اہل ثروت تو با ر بار اس سعادت سے مستفید ہوتے ہیں ۔
اور بعض اہلِ ایماں تو یہیں مر کے مدفن ہونے کے تمنائی ہوتے ہیں۔ ہر مسلمان
زندگی میں ایک بار حاضری کی تمنا دل میں رکھتا ہے ۔ اور حج کے موقعہ پر تو
اجتماع دیدنی ہوتا ہے ۔ یہ دنیا ارض پر سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے ۔ خلا سے
ساری دنیا سیاہ دکھائی دیتی ہے ۔ صرف دو مقامات ہی روشن نظر آتےہیں ۔ وہ
حرم مکی اور حرم مدنی ہیں ۔ حرم مکی تو ساری دنیا کے مسلمانوں کا محور و
مرکز ہے ۔ انکے سجود کا رخ بھی حرم مکی ہی ہے ۔
اللہ سبحان و تعالیٰ نے مجھ گناہ گار کو بھی یہ سعادت بخشی ۔ میں بھی ارض
مکہ کی زمین پہنچا ۔ عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی ۔ الحمدللہ
ایک روز میں باب ِ فہد میں بیٹھا تھا ۔ اللہ کی حمد ثنا میں مصروف تھا ۔ کہ
ایک واقف کار نے میرے شانے پر ہاتھ رکھا ۔ مڑ کے دیکھا ۔ تومیں نوارد کو
پہچان گیا ۔ خوشی کی ایک لہر میرے رگ و پے میں دوڑ گئی ۔ مگر یہ کیا نوارد
کی آنکھیں متورم تھیں ۔صاف عیاں تھا کہ وہ شب بھر سویا نہ ہو گا ۔
میں اٹھا بغل گیر ہوا ۔ حال احوال پوچھا ۔تو قریب تھا کہ وہ رو پڑتا ۔ وہ
شناسا گویا ہوا !
بھائی میری کسی نے جیب کاٹ لی ۔یہ سن کر میں یوں اچھلا جیسے میرے پاؤں جل
گئے ہوں ۔ حیرت زدہ بھی تھا ۔ کہ یہاں تو کسی غیر مسلم کا داخلہ بھی ممکن
نہیں ۔ اسی اثنا میں اس نے کٹی ہوئی جیب دکھائی ۔ میں نے اس کے شانے پر
تھپکی دے کر تسلی دی اور کہا آؤ حرم کی حدود میں ہی پولیس چوکی ہے رپٹ
لکھواتے ہیں ۔ وہ روبوٹ کی طرح میرے ساتھ ہو لیا ۔ ہم پولیس چوکی پہنچے ۔
عربی ہم دونوں کو نہیں آتی تھی ۔ میں نے انگریزی میں پوچھا ۔ کیا آپ انگلش
سمجھ لیتے ہو اس نے اثبات میں سر ہلا کر کہا یس ۔ میں نے اس عربی کو سارا
واقعہ بیاں کیا ۔ عربی نے میری بات سن کے قہقہہ لگایا ۔ اور سوال کیا ۔ کہ
آپ کہاں سے آئے ہیں ۔ میں نے کہا کہ پاکستان سے !
عربی ایک بار پھر قہقہہ لگا کر ہنسا ۔ اور کہا کہ جیب کترے تقریبا ً
پاکستانی ہی ہوتے ہیں ۔ میر ا سر شرم اور غصے سے جھک گیا ۔ اب مجھ میں سوال
کی ہمت نہ تھی ۔ اور سوچنے لگا کہ لوگ یہاں اپنے گناہوں کی توبہ کرنے آتے
ہیں ۔ پاکستانی جیب کترے اپنے ہی ہم وطنوں کی پردیس میں جیبیں صاف کرتے ہیں
۔ وہ بے چارےبے یارومددگار کہاں جاتے ہوں گے ۔ جن کی غریب الوطنی میں کل
متاع لٹ جاتی ہو گی ۔ اور ان جیب کتروں کا ٹھکانہ کہاں ہوگا ۔ وہ کس سے
بخشش مانگیں گے ۔ اور وہ پاکستانی ہی کیوں ہیں؟ کیا وہ پاکستان کی شناخت
ہیں ؟ جو ایک مسلمان ہوکر اس مقدس اور جاہ و جلال والے مقام پر گناہ کا
راتکاب کرتے ہیں تو وہ دیار غیر میں کیا کرتے ہوں گے ؟ میں سوچ بھی نہیں
سکتا تھا ۔ میری زبان پر یہاں آکر اللہ تبارک تعالیٰ کے نام کے سوا کچھ نہ
آتا تھا ۔ شیطانی خیالات کا تصور بھی نہیں تھا ۔گھر سے لے کر یہاں تک مناسک
اور دعائیں یاد کرتے ہوئے آئے ہیں ۔ اور وہ بد بخت شیطانی ہتھکنڈے اور
طریقے یادکرتے آئے ہیں ۔ کیا وہ مسلمان ہی ہیں ؟
اب میرے قدم من من کے ہو گئے ۔ جسم سن ہوگیا ۔ بڑی مشکل سے خودکو چوکی سے
نکالا ۔ اور مقیم پاکستانی دوستوں کو فون کیا ۔ اور ان سے پیسے ادھار لے کر
اس ہم وطن کی مدد کی ۔نماز کا وقت ہوگیا ۔ نماز ادا کر کے اپنے ہوٹل جانے
کے لیے حرم سے نکلا۔ ابھی سڑک تک نہیں پہنچا تھا ۔ کہ ایک اور اجنبی
پاکستانی نے روک لیا ۔
وہ بولا صاحب بچے بھوکے ہیں ۔ کچھ مدد کر دیں ۔ فوراً میرے ذہین میں اس
دوست کی کہانی آگئی ۔ سوچا کہ شاید اس کی بھی جیب کٹ گئی ہے ۔ جھٹ سے جیب
میں ہاتھ ڈالا اور پچاس ریال نکال کر اس کو دینے چاہے ۔ اس اجنبی نے کہا
جناب اس سے کیا بنے گا ؟ میں نے رقت سے پھر جیب میں ہاتھ ڈالا ہے تھا کہ
میرےپیچے ایک اور پاکستانی نے کہا جناب یہ پاکستانی فقیر ہے ۔ اسکا پیٹ
نہیں بھرے گا ۔ میرا جیب کی طرف بڑھتا ہاتھ رک گیا ۔ میں نے پیچے والے سے
پوچھا ۔ کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں ؟وہ بولا جناب آپ آگے تو چلیں اور بہت سے مل
جائیں گے ۔ یہ ریواڑ کے ریواڑ آتے ہیں ۔ میں آگے چل دیا ۔ ذرا سے آگے گیا
تو فقیروں کے چھتے سے ملاقات ہوگئی ۔ کوئی دائیں ۔ کوئی بائیں ۔ اب مجھ دل
سخت کر کے بہرہ بننا پڑا ۔ جیسے تیسے کر کے ہوٹل پہنچا ۔ کمرہ کھولا اور
لیٹ گیا ۔ اور سوچنے لگا ۔ ہم کون ہیں ؟ کیا ہیں ؟کیا کر رہے ہیں ؟
اس وقت ایک مصداق یاد آگئی
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو |