کل پارک میں چہل قدمی کے لییگیا۔ پارک کے بینچ پر بیٹھ کر
ڈیٹا کنکشن آن کیا تو ایک خبر نظر سے گزری۔۔ ابھی خبر کے سحر میں تھا کہ
ایک مالشیا شیشی بجاتے ہوئے پاس آیا اور بولا بھائی مالش کروائیں گے۔ میں
نے نہ میں سر ہلا دیا۔ وہ دوبارہ بولا بھوکا ہوں۔۔۔ کچھ مدد کر دو۔ میں نے
آنکھ اٹھا کر بغور جائزہ لینے کے بعد جان لیا کہ نشئی ہے اور نشہ پانی کا
انتظام کرنا چاہتا ہے۔ میں نے دس روپے دیتے ہوئے کہا یار اک گل تے دس۔۔۔ وہ
بولا پوچھوجناب ۔۔۔ میں نے کہا یار’’لا الہ الااﷲ ‘‘ کا مطلب جانتے ہو۔
کہنے لگا بالکل۔۔۔ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں میں نے کہا ٹھیک ہے
بھائی جاؤ۔
میں نے پھر خبر پر دھیان دیا اور سوچنے لگا۔ محلے کا ایک دوست ملا۔۔ میں نے
سلام کے بعد پھر اس سے کلمے کا مطلب پوچھا۔۔اس نے بھی وہی مطلب بتایا جو
مالشیا بتا کر گیا تھا۔دل مطمئن نہ ہوا میں نے اپنے بڑے بھائی کو کال کی جو
درس نظامی کر کہ ایک مسجد میں امام و خطیب ہیں۔ سلام و حال پوچھنے کے بعد
میں نے وہی سوال دہرایا جو مالشیے اور محلے دار سے پوچھا تھا. بھائی نے سخت
ڈانٹ کے ساتھ مجھے مطلب بتایا۔۔ کہنے لگے اوئے دانشور صاحب تمہیں کلمے کا
مطلب نہیں آتا۔۔ یہ بتا کلمہ تو یاد ہے نا۔ میں نے کہا بھائی کلمہ بھی یاد
ہے اور مطلب بھی مگر کسی خبر نے تھوڑا چکرا دیا ہے۔ کال ختم کی اور سوچا کہ
بھائی جان تو چھوٹے مولوی ہیں کسی مفتی سے اس مسئلے پر بات کرتا ہوں۔ جامع
مسجد کے دارالافتاء پہچ گیا۔ مفتی صاحب سے مسنون سلام کے بعد اسی سوال پر
آیا۔ سوال سن کر مفتی صاحب نے میرا بغور جائزہ لیا اور بولے۔ شکل سے تو
بھلے معلوم ہوتے ہو۔ اور عقل رکھنے والے بھی پھر بھی یہ سوال کر رہے ہو۔
ہاں اگر سوال کیا ہے تو بتا دیتا ہوں۔ اور اس کے بعد مفتی صاحب کی سیر حاصل
گفتگو بعنوان توحید ورسالت ایک گھنٹہ کی۔ ابھی تک مالشیے، محلے دار، بھائی
جان اور مفتی صاحب کی گفتگو میں کوئی خاص فرق نہ کر پایا تھا۔ پھر بھی تسلی
کے لیے آگے بڑھا اور دنیا میں انسان کی سب سے مخلص ہستی ماں کے پاس
پہنچا۔اور پھر سے وہی سوال۔۔ ماں جی نے شفقت سے کہا بیٹا اس کا مطلب تجھے
تب بتایا تھا جب توں نے بولنے کی ابتدا کی تھی۔ اور وہ مطلب وہی تھا جو
پہلے چار لوگوں نے بتایا تھا۔ گہری سوچ میں گم اپنے دادا کی ہجرت کی وہ
داستان سوچنے لگا جو ان کی زبانی ان کی زندگی کے آخری ایام میں سنی تھی۔ کہ
انہوں نے ایک کلمے کی بنیاد پر اس ملک کی خاطر کیا کیا قربان کیا تھا اور
کیسے کیسے وہ پاکستان پہنچے تھے۔ گورے کا ظلم تو بہت کم تھا البتہ ہندو اور
سکھ کا مسلمانوں پر ظلم بہت ذیادہ۔ دادا جان اکثر اپنے خاندان کی 30
شہادتیں گنوایا کرتے تھے۔ جو ایک کلمے کی بنیاد پر آزادی کے لیے پیش کی تھی۔
میں سوچنے لگا شاید دادا جان کو کسی نے دھوکہ دیا ہو۔ اور کوئی گورا ہی
ہندو اور سکھ بن کر مسلمانوں کو مارتا رہا ہو۔ ممکن ہے گورے ہی گائے کے زبح
کرنے پر مسلمانوں کو زبح کرتے ہوں۔ شاید ایسا ہوا ہو کہ گورا ہی بندر کا
پچاری ہو۔ اتنے سارے شکوک وشبہات کو لے کر تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی
شروع کی تاریخ پاکستان اور تحریک پاکستان کا مطالعہ شروع کیا اور سوچنے لگا
شاید یہاں کہیں لکھا ہو کہ یہ ملک مسلمانوں کے لیے نہیں تھا. شاید کسی لائن
میں درج ہو کہ پاکستان کے حصول کے لیے ہندوں نے لاکھوں قربانیاں پیش کی ہوں۔
یا پھر سیکھوں نے ہزاروں جنازے پاکستان کے لیے اٹھائے ہوں۔
شاید کلمے کی بنیاد پر میرے دادا کے قبیلے کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہو۔ تاریخ
میں قائد اعظم کا کانگریس سے جدا ہونا ملا۔ اور جدا ہونے کی وجہ ہندو مسلم
کا الگ الگ قوم ہونا بنیادی وجہ بنی۔تاریخ میں اقبال کا خطبہ الہ آباد ملا۔
تاریخ میں چوہدری رحمت علی کا مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا نام پاکستان
ملا۔تاریخ میں اصغر سودائی کا ترانہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ ملا۔
اور یہ ترانہ ہے دوسرے جلسے میں ہر مسلمان کی زبان پر ملا۔۔ یہ ترانہ قائد
اعظم ؒی تقریر سے عین پہلے مجمعے نے مل کر پڑھا۔یہ سب پڑھ کر پھر دوبارہ
اسی خبر کو کھولا خبر تھی وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف صاحب نے
ہندو برادری سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک کسی مذہب کے لیے نہیں بنا تھا۔
ہم سورگ و نرگ کا فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں۔یہ بیان عین اس، موقع پر
آیا جب قوم 23 مارچ کو یوم پاکستان کے طور پر منانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔
حد درجہ تصدیق کے بعد مجھے سب سے پہلا خیال آیا کہ سب سے پہلے میاں نواز
شریف کو کلمہ طیبہ کا وہ مطلب بتا دوں جو ایک مالشیے سے لے کر مفتی صاحب
اور مفتی صاحب سے لے کر میری ماں نے ایک سا بتایا۔ یا پھر اس درس گاہ کا
پتہ پوچھوں جس سے میاں صاحب نے کلمے کا کوئی اور مفہوم و مطلب سیکھا۔ اور
دوسری بات یہ کہ ان سے پوچھوں کہ تاریخ پاکستان کو پڑھے بغیر وزیر اعظم
پاکستان کس طرح بنے۔ نہ کلمے کا مطلب جانتے ہیں نہ ہی پاکستان کا۔ بڑے مسلم
لیگی بنے پھرتے ہیں تو اس نعرے کا مطلب سمجھا دیں۔۔ مسلم ہے تو مسلم لیگ
میں آ۔کسی جلسے میں یہ تو نہیں کہا گیا کہ ہندو ہے تو مسلم لیگ میں آ
یا سیکھ ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ ۔ میرے نظریے کی صداقت کے لیے ااصغر سودائی
کی نظم سے لے کر تاریخ کے خوبصورت نعرے نے گواہی دی ہے"مسلم ہے تو مسلم لیگ
میں آ" |