گزشتہ روز لاہور کا سفر درپیش تھا، کہتے ہیں سفر
وسیلہ ظفر ہوتا ہے، ہم بھی عجیب مسافر لوگ ہیں، جن کی منزل کوئی نہیں، سفر
جاری ہے، پاکستانیوں کواگر کولہو کا بیل کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ اور
اکبر الہ آبادی کے بقول ، ’’کیا کہیں احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے ․․․ بی
اے کیا، نوکر ہوئے، پینشن ملی اور مرگئے‘‘۔ اگر اس شعری ترتیب کو کاروبار
وغیرہ کے حساب سے بھی سوچا جائے، تو بھی یہی کچھ ہوتا ہے، ہم لوگ سفر کرتے
ہیں، وقتی طور پر تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے جس کام کے لئے سفر کیا وہ
ہوگیا، مگر ایک مدت کے بعد معلوم ہوتا ہے، کہ زندگی ایک افسانہ تھی، حقیقت
کا راز کسی کسی پر ہی کھلتا ہے۔ جس کوچ پر مجھے سفر کرنا تھا وہ ایک معروف
کمپنی کی تھی، اس نے اپنا معیار بھی قائم کر رکھا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں
دسیوں لوگ اکٹھے سفر کر رہے ہوتے ہیں، وہ اصولی طور پر ایک خاندان کی طرح
ہوتے ہیں۔
کوچ میں چونکہ خاتون میزبان تھیں، جنہوں نے مسافروں کو سفر کی دعا اور منزل
کے راستے میں آنے والے مقامات سے بھی آگاہ کرنا ہوتا ہے، اور کچھ سامان
خوردونوش کا بھی فراہم کرنا ہوتا ہے، آخر میں مسافروں کا شکریہ ادا کرنے کے
ساتھ ساتھ ان سے امید بھی رکھنی ہوتی ہے کہ یہ سفر اُن کے لئے آرام دہ رہا
ہوگا اور آئندہ بھی اسی بس سروس سے سفر کرنا پسند کریں گے۔ ہماری کوچ میں
بھی ایسے ہی ایک میزبان خاتون تھیں۔ پی آئی اے کی طرح ان کی صورت وغیرہ کا
معاملہ بھرتی کرنے کی میرٹ کی فہرست میں نہیں آتا۔ ایسی کوچوں میں کم از کم
سترہ لوگ ایسے ہوتے ہیں ، جن کی نشست راہداری کے ساتھ واقع ہوتی ہے۔ ان میں
سے نصف ایسے تھے جو اپنی نشستوں پر کچھ یوں پھیلے ہوئے تھے کہ یا تو اُن کا
گھٹنا راہداری کی سیر پہ نکلا ہوا تھا، یا ٹیک کچھ اس ادا سے لگا رکھی تھی
کہ ان کا کندھا راہداری کی طرف کی ہی ہوا کھا رہا تھا۔ یہ وہی راہداری تھی،
جہاں سے خاتون میزبان نے بارہا گزرنا تھا۔ جہاں یہ دونوں رکاوٹیں کسی حد تک
محدود تھیں، وہاں خاتون بچ بچا کر گزرتی رہی، جہاں بات بڑھی ہوئی تھی، وہاں
اسے رک کر رکاوٹ ہٹانے کی درخواست کرنا پڑتی اور آگے جانے کا راستہ ملتا۔
دلچسپ بات یہ کہ وہ جتنی مرتبہ بھی گزری، اتنی بار ہی یہ سارا عمل دہرانا
پڑا، ایسے نہیں ہوا کہ ایک دفعہ کہنے سے یہ رکاوٹیں مستقل ہٹ گئیں۔ نیت کا
حال تو اﷲ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، مگر بعض مسافر یہ فرض عادتاً نبھاتے ہیں۔
یہ معمول کا واقعہ ہے جو ہر مسافر کوچ میں رونما ہو رہا ہے۔
میری عقبی نشست سے کسی صاحب نے موبائل فون پر پنچائت کا ماحول بنا لیا، اﷲ
تعالیٰ نے انہیں بلند آہنگ سے نواز رکھا تھا، اس نے یہ نہیں جانا کہ وہ تین
درجن سے زائد مسافروں کے درمیان سفر کر رہا ہے، اور بہت سے لوگ اس کے گھر
کے اندرونی رازوں سے آگاہ ہو رہے ہیں، اور یہ بھی کہ یہ آگاہی دوسروں کے
لئے زبردستی اور غیرضروری ہے۔ اس نے فون کال کے مخاطب کو بتایا کہ آپ ہی
بتاؤ کہ جو حرکت فلاں نے ہمارے گھر آکر کی ہے، اگر تمہارے گھر جا کر وہی
حرکت کوئی کرے تو تمہیں کیسے لگے گا؟ بس یہی مدعا تھا، جسے مختلف زاویوں سے
اس نے نصف درجن سے زائد دفعہ بیان کیا، کبھی معافی کا ماحول اور کبھی
انتقام کی بات، خدا خدا کرکے شرمناک باتوں پر مشتمل یہ فون بند ہوا۔ کچھ ہی
دیر گزری تھی کہ بس ایک ٹول پلازہ پر رک گئی، نہ جانے کیا مسائل تھے، بحث
ومباحثے نے طول پکڑ لیا، پھر کوچ کو ایک طرف کھڑا کردیا گیا اور پائلٹ نے
نیچے جا کر معاملات کئے، بس لڑائی کی طرح اشارے ہی دکھائی دیتے تھے، ایسے
ماحول میں ڈرائیونگ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان پر کوئی غور نہیں کرتا۔
کوچ کے درمیان میں بیٹھی ایک خاتون مسافر کے فون کی گھنٹی سے سب چونک گئے،
مگر چونکنے کے ابھی مراحل اور بھی تھے یا یوں جانئے کہ عشق کے امتحاں ابھی
اور بھی تھے۔ اپنے ہی بیٹے سے بات ہو رہی تھی، بات بڑھی، الجھی اور تکرار
میں بدل گئی، بے بس ماں نے آخر میں ایک ہی جملے کو دسیوں مرتبہ دہرایا کہ’
ہم پسند نہیں کرتے، آپ اپنی مرضی کرلیں‘ ۔ یہ طویل دورانئے کا فون ان کی
ہمسائی اور ساتھی خواتین کی مداخل سے اپنے انجام کو پہنچا اور اپنا ’’آرام
دہ‘‘ سفر بھی اختتام پذیر ہوا۔ |