سوشل میڈیاخصوصاً” فیس بک“ پر گستاخانہ موادڈالنے بارے
ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے سخت نوٹس لینے اور ”فیس بک“کو
بند کر دینے کا عندیہ دینے کے بعد گویا ”فیس بک“یوزرز میں ایک اضطرابی
کیفیت پیدا ہو گئی ہے ۔عوام و خواص اسی ”فیس بک“ پر میڈیا کے ذریعے جہاں
فاضل جج صاحب کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے میں لگ گئے ہیں وہاں
انہیں یہ پریشانی میں لاحق ہو گئی ہے کہ ”فیس بُک “ بند ہو گئی تو ہمارا
کیا بننے گا ۔۔؟ ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے عوام کواس حوالے سے جسٹس
شوکت عزیز صدیقی کی ذاتی تشہیر سے روک دیا ہے ۔جبکہ قومی اسمبلی اور پنجاب
اسمبلی میں بھی سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد ڈالنے کی کوششوں کی بھرپور
مذمت کرتے ہوئے باقاعدہ مذمتی قراردایں منظور کی گئی ہیں ۔قومی اسمبلی میں
اس بارے قرارداد کیپٹن (ر)صفدر ، نعیمہ کشور جبکہ پنجاب اسمبلی میں’ق‘لیگ
کے اراکین نے پیش کی ہے ۔واقعے کی چھان بین کے لیے ایوان میں کمیٹی بنانے
کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے ۔ناموس رسالت محاذ نے بھی کہا ہے کہ نبی کریم صلی
اللہ عالیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی سب سے بڑی اور علامی دشہدگردی ہے
جیسے کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا ،ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ
سوشل میڈیا پر گستاخہ کے مرتکب بلاگرز کو فی الفور گرفتار کرکے قرار واقعی
سزا دی جائے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر گستاخوں کے سہلوت کاروں اور پیمرا
حکام کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے ۔المیہ یہ ہے سوشل میڈیا پر
اور” فیس بک“ پر تسلسل کے ساتھ لوگ گستاخانہ مواد کی روک تھام سے زیادہ اس
کی بندش سے پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ اس سے قبل چند سال پیشتر
گستاخانہ مواد نہ ہٹانے کی ضد کے نتیجے میں پاکستان بھر میں ”یوٹیوب“نامی
سائٹ پر پابندی لگائی گئی تھی ۔لیکن اُس کا کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ اس
پابندی کے باعث صرف وہ لوگ ”یوٹیوب “ کی سہولت سے محروم رہے جنہیں نیٹ کا
صحیح استعمال نہیں آتا تھا لیکن جو طریقہ کار جانتے تھے وہ ”پراکسی
“(Proxy)پر” یوٹیوب“ استعمال کرتے رہے ۔بعد ازاں عوامی مطالبے پر حکومت
مجبور ہو گئی اور اُس نے” یوٹیوب “کھول دی ۔ اگر ”فیس بُک “ پر پابندی کا
بھی یہی حال ہونا ہے تو ایسا کوئی ایکشن بےکار ہوگا ۔ سوشل میڈیا صرف ”فیس
بُک “ تک محدود نہیں اس میں یوٹیوب(You Tube) ،
ٹیوئیٹر(Twitter)،ٹیگڈ(Tagged)،واٹس ایپ (Whats Aap)،ایمو(Emo) وغیرہ بھی
شامل ہیں ۔
جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کی گئی ایجادات کا مقصدانسانوں کو سہولیات فراہم
کرنا ہے ۔ اور ہر چیز کا منفی و مثبت استعمال ممکن ہے ۔یہ انسانی جبلت ہے
کہ وہ منفی رجحانات کی طرف زیادہ راغب ہوتا ہے ۔ عوامی رابطوں کو سہل بنانے
کے لیے بنائے گئے پروگرامز کے تخلیق
کاروں نے ہمیشہ انسانی بہتری کو مقدم رکھا لیکن ہم نے ان سہولیات کو غیر
ضروری منفی سرگرمیوں کے فروغ کا ذریعہ بنا لیا ۔ میری ذاتی رائے میںارب ہا
مسلمانوں کی موجودگی میں اگر چند ایک نا ہنجار لوگوں نے سوشل میڈیا پر کسی
قسم کا گستاخانہ مواد ڈالا بھی ہے تو اس کی روک تھام کا بہت ہی آسان حل
موجود ہے ۔”فیس بُک “یوزرز اچھی طرح جانتے ہیں کہ ”فیس بُک “انتظامیہ نے
اپنے یوزرز(Users) کو یہ سہولت دے رکھی ہے کہ وہ اگر کوئی غیر شائستہ اور
نامناسب مواد دیکھیں تو اُ س کو بلاک کرنے کا آپشن استعمال کر سکتے ہیں
انتظامیہ فوری طورپر مذکورہ پوسٹ کو بلاک کر دیتی ہے اور بعض اوقات مذکورہ
یوزر کو بھی بلاک کر دیا جاتا ہے ۔اگر بحیثیت مسلمان ہم اپنی ملّی ذمہ
داریوں پر توجہ دیں تو ہم جہاں کہیں گستاخانہ مواد دیکھیں تو ”فیس بُک
انتظامیہ کو شکایات کا آپشن استعمال کر سکتے ہیں ۔اگر ہم کسی ایک غیر
شائستہ پوسٹ پر اعتراض داخل کر سکتے ہیں تو کیا ہم گستاخانہ مواد کو روکنے
کے لیے ”فیس بُک“ انتظامیہ کو شکایت نہیں کر سکتے ۔جب ہم گستاخانہ مواد پر
مشتمل پوسٹس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ شکایات انہیں نوٹ کروائیں گے تو
یقینا”فیس بُک“ انتظامیہ اس پر باقاعدہ ایکشن لینے پر مجبور ہو گی ۔ایسے
میں ہمیں ساری باتوںکو ترک کرکے اس بات پر عمل کرنا ہوگا کہ جب ہم کسی قسم
کی گستاخانہ پوسٹ دیکھیں تو بلا تامل اس کی شکایت کرتے چلے جائیں اور اُسے
بلاک کروا کر دم لیں ۔سوشل میڈیا پر ہماری سرگرمیاں پہلے ہی کوئی حوصلہ
افزاءنہیں ۔احتجاج اور قراردادیں پاس کرنے سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے ۔یہ
باتیں وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ۔اس وقت ہم بڑی شدّ و مد اورتوجہ کے
ساتھ ’ فیس بُک“ پریہود و نصاریٰ کو یہ باور کرانے پر اپنی توانائیاں صرف
کر رہے ہیں کہ الحمد للہ ! ہم مسلمان ہیں اور ہمارا اللہ اور اُس کے رسول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری نبی ہونے پر مکمل ایمان ہے ۔سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ ہمیں اس کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے ۔؟ کیا ہمیں اپنے ایمان پر
شک ہے یا ہم اتنے کمزور ہیں کہ ہم یہود ونصاریٰ سے اپنی مسلمانی کا
سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ کم از کم مجھے اپنی ذات کی حد تک اور اپنے
مسلمان بھائیوں اوربہنوں یعنی پوری امت مُسلمہ کی حدتک توپختہ یقین اور
ایمان کامل ہے کہ ہم مسلمان ہیںاور یہود و نصاریٰ کی کوئی سازش ہمیں اپنے
عقیدے سے ہٹا نہیں سکتی ۔روزِ قیامت ہم سے ہمارے اعمال کا حساب لیا جائے ۔ہمیں
اپنے ربّ کے حضور پیش ہونے سے پہلے اپنے اعمال و کردار پر توجہ دینا ہو گی
۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے کردار و عمل کی بہتری پر توجہ دیں
تاکہ دنیا جان سکے کہ ہم واقعی مسلمان ہیں ۔اور ایک خدا اور ایک رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والے ہیں ۔ایسی صورت میں کسی گُستاخ اور
ناہنجار کی یہ جرات نہیں ہو گی کہ وہ کوئی گستاخانہ مواد سوشل میڈیا پر
”اَپ لوڈ “ کر کے ہماری دل آزاری کا سامان کرے اور نہ ہی کسی عدالت کو ایسی
حرکات کا نوٹس لینے کی ضرورت پیش آئے گی - |