دینی مدارس جہاں اسلام کے قلعے ، ہدایت کے سر چشمے، دین
کی پنا ہ گا ہیں ، اور اشا عت دین کا بہت بڑ ا ذریعہ ہیں وہاں یہ دنیا کی
سب سے بڑی حقیقی طور پر ’’این جی اوز‘‘بھی ہیں،مدارس دينيہ نے ایسے ماہر
اورمتدین علماء وفضلاء کو تیار کیا ہے، جنہوں نے رجعت پسندی ، شدت پسندی ،
تنگ نظری غرض ہر قسم کے طعنوں کے باوجود علوم نبوت کی حفاظت کے لیے اپنی
زندگیاں وقف کر رکھی ہیں اور مغربی آزاد خیالی اور تہذیب وتمدن کا بھر پور
مقابلہ کیا ہے ، خدا ایسے سرمستوں کو تا قیامت آباد رکھے، لیکن اس کے
باوجود اس بات سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ نصاب تعلیم چاہے کوئی بھی ہو اس میں
مثبت اصلاح وتبدیلی کی گنجائش موجود رہتی ہے اور ہاں ایسی اصلاح وتبدیلی جو
اس تعلیم کی روح کو متاثر نہ کرے،مثلاً جامع الازہر کی بنیاد 2 اپریل 970ء
کو رکھی گئی، اس مسجد میں ایک مدرسہ قائم کیا گیا، جو کچھ مدت بعد دینی اور
دنیوی تعلیم کا سب سے بڑا مرکز بن گیا،چونکہ یہاں دور دور سے طلبہ آتے تھے،
اس لیے اس کی حیثیت اقامتی درس گاہ کی ہوگئی، آج بھی نصف سے زیادہ لڑکے
یہاں اقامت گاہوں میں رہتے ہیں، شروع میں یہاں صرف دینی تعلیم دی جاتی تھی۔
1930ء میں باقاعدہ اصلاحات کی ضرورت محسوس کی گئی، پرائمری ، ثانوی، ڈگری ،
عالم ایم۔ اے اور پی ایح ڈی کے مراحل قائم ہوئے۔ يہ اسلام كى قديم ترين
درسگاه ہے، اصلاحات کے بعد اس ادارے کی افادیت میں سینکڑوں گنا اضافہ ہوگیا،
آن لائن تعلیم کا چرچا ہونے لگا تو ازہر نے اپنی پوری تعلیم آن لائن بھی
کردی،ہمارے یہاں دینی مدارس وجامعات میں اگر معاصر اصلاحات کی جائیں،انہیں
آن لائن کیاجائے،اِن کی ویب سائٹس فعال کردی جائیں، سوشل میڈیا میں ان کا
کردار نمایاں ہو،تو یہ مدارس اپنی عددی قوت کے بدولت چہار دانگِ عالم کو
اپنی دعوت کی لپیٹ میں لے لینگے،ان کی افادیت ونفوذ میں بے تحاشا اثر
ہوگا،آج کی دنیا ڈیوائسس کی دنیا ہے،اس دنیا میں ان کو کچھ کرکے دکھانا
ہوگا، افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ ٹیکسی،رکشہ اور موٹر سائیکل تک اوبر اور
کریم نے آن لائن کردی ہیں اور دینی مدرسہ جو ایک آفاقی مذہب کا عَلم
بردار ہے،آن لائن ہونے میں نہ صرف پس وپیش کا شکار ہے، بلکہ آن لائن نظامِ
تعلیم پر قد غن لگاتاہے۔
مفید علوم جدیدہ کو اپنے نصاب کا حصہ بنانا ہوگا، نظم وضبط میں بھی نیا پن
اور نکھراپن اختیار کرنا پڑے گا،ٹا ئم ٹیبل میں بھی تبدیلی لانی ہوگی،مختلف
زبانوں کو بھی تدریس کا جزوِ لاینفک قرار دینا ہوگا،تاکہ اِ ن کی دعوتی اور
تبلیغی سرگرمیوں میں جان پڑ جائے،چنانچہ اس حوالے سے علامہ شبلی رحمہ اللہ
رقم طراز ہے:
"علماء کو اس بات کا مطلق خوف نہیں کرنا چاہیے، کہ علوم جدیدہ، مذہب اسلام
کے برخلاف ہیں، اور ان کی تعلیم سے عقائد مذہبی میں خلل آجاتا ہے ، کیونکہ
جب امام غزالی (م:1111ء) کی طرح وہ ان علوم کو خود حاصل کریں گے ، تو ان کو
وہ مسائل معلوم ہوجائیں گے، جن میں مذہبی مخالفت کا احتمال پیدا ہوسکتا ہے،
اس صورت حال میں وہ ان مسائل کی تردید یا اسلام سے ان کی مطابقت بخوبی
کرسکیں گے، اور جدید تعلیم یافتوں کو مذہبی شکوک وشبہات سے محفوظ رکھ سکیں
گے، صاف ظاہر یہ ہے کہ جب تک ہماری قوم کے علماء جدید فلسفہ اور جدید علوم
کو بذات خود حاصل نہ کریں ، ناممکن ہے کہ وہ ان اعتراضات کا جواب دے سکیں ،
جو یورپ کے ملاحدہ، مذہب اسلام پر کرتے ہیں، او رجن کا اثر ہماری قوم کے
جدید تعلیم یافتوں پر پڑتا ہے"۔ (رسائل شبلی: 90)
مولانا شبلی رحمہ اللہ کی اس دل سوزی کے بعدمفتی محمد تقی عثمانی کی رائے
بھی ملاحظہ فرمائیں:
" یہ تقریبا وہی صورت حال ہے جو عباسی خلافت میں یونانی فلسفہ کے رواج عام
سے پیدا ہوئی تھی، جس طرز پر یونانی نظریات کی یلغار کے مقابلے میں متکلمین
اسلام نے کارنامہ انجام دیا تھا، یہ کام علمائے امت کے ذمہ ایک قرض ہے،
مغرب کے مستشرقین نے عربی اور اسلام علوم پر "تحقیق" کے نام سے ایسے زہریلے
لٹریچر کا انبار تیار کرایا ہے، جس کا مقصد دین کے بنیادی مسلمات کو مشکوک
بنانا ہے، یہ لٹریچر جدید ذہن کی نفسیات کے مطابق اور اس اسلوب میں تیار
کیا گیا ہے، جو آج کے ذہن کو اپیل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، عالم
اسلام اس کے زہریلے اثرات سے خالی نہیں، اس زہر کا تریاق فراہم کرنا علماء
کی ذمہ داری ہے، اور اس کے لیے انگریزی زبان ا ور ان عصری علوم کی تحصیل
لازمی ہے، اس وقت مسلمانوں کی بڑی تعداد یورپ، امریکہ، افریقہ، آسٹریلیا
اور مشرق بعید میں آباد ہے، ان لوگوں کو خاص طور پر نئی نسلوں کو اسلام
پہنچانے کا کوئی راستہ انگریزی زبان کے بغیر ممکن نہیں "۔ (ہمارا تعلیمی
نظام: 100، 101)
ان اقتباسات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نصاب تعلیم آسمان سے
کوئی منزل شدہ نظام یا ترتیب نہیں جس میں اصلاح وترمیم کی گنجائش نہ ہو،
لہذا ہمیں چاہیے کہ بیرونی دباؤ کے بغیر ہم اپنے نصاب تعلیم کا بخوبی جائزہ
لیں اور کم از کم علامہ محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کی تجویز کی حد تک تو اس
پر عمل کریں حضرت بنوری رحمہ اللہ نصاب میں تین طرح کی تبدیلوں کے قائل
تھے،
1: تخفیف :یعنی بھاری بھر کم نصاب کو کچھ ہلکا کرکے، ایک ہی فن کی درجنوں
کتابیں پڑھانے کے بجائے تین چار اہم اور مفید کتب کی تعلیم دی جائے۔
2: تیسیر: یعنی مشکل پسندی کا طریقہ ترک کردیا جائے۔
3: اثبات وترمیم: یعنی غیر ضروری فنون کو حذف کرکے جدید اور مفید علوم کو
شامل کیا جائے۔ٖ[مفتي محمد عمران نے یہ تین اقتباسات ارسال کئے]
ہمارا ایک مسئلہ یہ ہےکہ اگر کوئی اخلاص کے ساتھ ہمیں مشورہ دیتاہے ،تب بھی
ہم اسے اغیار کا ایجنٹ قرار دے کر ان کی رائے رد کر دیتے ہیں،اس میں کوئی
شک نہیں کہ کچھ لوگ دینی مدارس پر تنقید اسلام اور مدرسہ دشمنی کی بنیاد پر
کررہے ہیں، لیکن اپنے اور پرائے میں فرق کرکے آگے کی طرف چلنا ہوگا، اپنے
اداروں کو مستحکم اور سماج کے لئے مفید تر بنانا ہوگا،تاکہ ہمارے بزرگوں کے
ہاتھوں لگائے ہوئے پودے خوب پھلے اور پھولیں۔ |