اختلاف رائے ہی زندگی کی علامت ہے لہذا یہ طے ہے کہ
ہمیں ایک دوسرے سے اختلاف کرنا ہے ۔ سوال البتہ یہ ہے کہ اختلاف رائے کا
حسن کیا ہے ؟ ہمارے یہاں تو اختلاف رائے شر پسندی کی جانب گامزن ہے ۔
مکالمہ اگر مکمل طور پر مرا نہیں تب بھی وینٹی لیٹر پر ضرور ہے ۔ بحث برائے
بحث ہماری تعمیری صلاحیتوں کو گھن کی طرح کھا رہی ہے ۔مکالمہ کی اہمیت ہی
تب ہوتی ہے جب ہم دلائل کی بنیاد پر رائے تبدیل کرنے کی جرات رکھتے ہوں ۔جب
ہمیں یہ علم ہو کہ اختلاف رائے کا اظہار کہاں کرنا ہے اور محفل کے آداب کیا
ہیں ۔ وہ اورلوگ تھے جو اختلاف رائے کے باوجود ترقی کی منازل طے کرتے تھے ۔ان
کی ترقی کا راز شاید اندلس کی لائبریریوں کے نذر آتش ہونے کے ساتھ ہی ہم سے
چھن گیا تھا ۔ ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ہم اپنی ہی سوچ کے غلام بن چکے ہیں
۔ اب مکالمہ کے نام پر ایسی بحث ہوتی ہے جس کا مقصدمدمقابل کی تذلیل کے سوا
کچھ نہیں ہوتا ۔کھیل کے میدانوں میں ٹیموں کی حوصلہ افزائی سے زیادہ سیاسی
نعروں کو جگہ ملتی ہے اور کوئی یہ سوچنا گوارا نہیں کرتا کہ اس سے عالمی
برادری کو کیا پیغام مل رہا ہے ۔
لاہور میں پی ایس ایل کے فائنل سے پہلے بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی
تھیں ۔ طرح طرح کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا ۔ یہاں تک کہ ایک سازشی
بریگیڈ تو افواہ سازی کی فیکٹری بھی چلا رہا تھا۔لاہور ہی میں بم دھماکے کی
جھوٹی خبر تک بریکنگ نیوز بن کر چلتی رہی لیکن پی ایس ایل کے ساتھ ہی منظر
نامہ بدل گیا ہے ۔ پاکستان میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد خوف کی جو فضا
قائم کی جا رہی تھی وہ اب ختم ہو چکی ہے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ پی ایس
ایل محض ایک کھیل تھالیکن پاکستان میں بم دھماکوں کے بعدیہ محض کھیل نہیں
رہا تھا ۔ ہمارا دشمن چاہتا تھا کہ ملک میں خوف کی فضا قائم ہو جائے ۔ چند
سال پہلے کی طرح ہمارے پارکس ویران ہو جائیں اور تعلیمی اداروں سے بچوں کی
واپسی تک مائیں فکر مند رہیں ۔ بازاروں کی رونق ختم ہو جائے اور پاکستان
میں تفریحی پروگرامز پر پابندی لگ جائے۔ اس موقع پر ہمیں کسی ایسے فیسٹیول
کی ضرورت تھی جو خوف کی فضا ختم کر کے شہریوں کے چہروں کی رونق بحال کر دے
۔
اس میں دو رائے نہیں کہ پی ایس ایل کے حوالے سے یہ خطرہ موجود تھا کہ ہمارا
دشمن اس ایونٹ کو نشانہ بنائے گا لیکن اس سلسلے میں وزیر اعلی پنجاب کی زیر
صدارت جو اجلاس ہوا اس میں پولیس افسران نے سکیورٹی کی مکمل یقین دہانی
کرائی تھی۔ خاص طور پر آئی جی مشتاق سکھیرا ، ایڈیشنل آئی جی پنجاب عارف
نواز ، سی سی پی او لاہور امین وینس، ڈی آئی جی آپریشن لاہور حیدر اشرف
اورایس ایس پی ایڈمن رانا ایاز سمیت دیگر افسران کافی پر عزم تھے ۔ اس میں
بھی کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں بم دھماکوں کا خدشہ ختم نہیں ہوا۔ یہ
طویل جنگ ہے جو تبھی جیتی جا سکتی ہے جب قوم کا مورال بلند ہو۔ ہماری ایک
نسل افغان جہاد کے ترانے سنتی جوان ہوئی ہے ۔ 1999 تک اسامہ بن لادن اور
الیاس کشمیری ہمارے ہیرو ہوا کرتے تھے ۔ پرویز مشرف کی جانب سے ڈرون حملے
میں مارے جانے والے الیاس کشمیری کو ایک لاکھ روپے انعام سے نوازنے کی
تصاویر اخبارات کے ریکارڈ کا حصہ ہیں ۔ ریاست کی پالیسی بدلی ہے لیکن مسئلہ
یہ ہے کہ پالیسی ساز بروقت وہ نسل نہیں بدل سکے جو تاحال خلافت کے نام پر
سرحدی حد بندیوں کے خلاف ہے ۔ بدقسمتی سے ہم ذہنوں کی تربیت کی بجائے
اختلافی امور میں ہی الجھے رہے ہیں ۔ہم نے مکالمہ کا گلا اس بے رحمی سے
گھونٹ دیا جس کے بھیانک نتائج ہمارے سامنے ہیں ۔
اب پھر ہمیں ایک نسل تیار کرنی ہے ۔ ہمیں اپنے اور دشمن دونوں کے بچوں کو
پڑھانا اور ان کی تربیت کرنا ہے تاکہ اگلی نسل محفوظ پاکستان میں سانس لے ۔
ہمیں اس اسلام کے حقیقی سبق کو اجاگر کرنا ہے جو دونوں جہانوں کے لئے رحمت
بنا کر بھیجے گئے آقا دو عالم ﷺ نے دنیا کو دیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک
دن یا ایک سال میں ختم نہیں ہوتی لیکن اس میں فتح تب ہی ملتی ہے جب تدریسی
اور تشخیصی پالیسیوں میں تسلسل کے ساتھ قوم کا مورال بھی بلند ہو ۔ اس جنگ
میں مکمل فتح کے لئے ہمیں بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنا ہے ۔ یہاں عملی جنگ
بھی جاری ہے اور نفسیاتی محاذوں پر بھی ایک دوسرے پر حملے ہو رہے ہیں ۔
ہمارا دشمن پورے ملک کو خوف کا غلام بنانا چاہتا ہے لیکن ہمیں جرات اور
مسکراہٹوں کا پیامبر بن کرڈٹے رہنا ہے ۔ ہماری توجہ اس وقت مستقبل یعنی
نوجوان نسل کی تربیت سازی پر ہونی چاہئے ۔ سرکار کو اس سلسلے میں لیکچرز ،
سیمینارز اور ورکشاپس کا مسلسل اہتمام کرنا ہو گا ۔اسی طرح ہمیں دہشت گردوں
کے خلاف متحرک سکیورٹی اداروں کے ساتھ کھڑے ہونا ہے ۔ ان کی چھوٹی چھوٹی
کامیابیوں کو بھی دل کھول کر داد و تحسین سے نوازنا ہے ۔ انہیں یہ احساس
دلانا ہے کہ ملکی بقا کی جنگ لڑنے والو!پوری قوم تمہارے ساتھ کھڑی ہے ۔
ہمارے یہ ادارے سوشل میڈیا پر بھی اپنی کامیابیوں کی تفصیلات اپ لوڈ کرتے
رہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم تاحال سوشل میڈیا پران کامیابیوں کو ’’ریٹنگ
ـ‘‘ دینے پر آمادہ نہیں ۔
پی ایس ایل کے بعد مجھے سوشل میڈیا پر ہی ایک ایسی تصویر دیکھنے کا اتفاق
ہوا جسے اس دن کی بہترین تصویر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس روز آئی جی پنجاب
مشتاق سکھیرا نے میڈیا کو بتایاتھا کہ میچ کے بعد آخری شہری کے گھر چلے
جانے تک پولیس بطور محافظ وہیں موجود رہے گی ۔ اس حکم کا خوبصورت جواب
لاہور پولیس کے ایس ایس پی رانا ایاز نے ایک سیلفی کے ذریعے دیا ۔ اس سیلفی
میں ڈی آئی جی حیدر شرف سمیت دیگر پولیس افسراور اہلکار لوگوں کے جانے کے
بعدخالی سٹیڈیم میں موجود ہیں۔ ان کے چہروں کی مسکراہٹ کامیابی کا اعلان کر
رہی ہے ۔ اگر کسی نے فرض کی ادائیگی کے بعد کامیابی کی خوشی کا حقیقی عکس
دیکھنا ہو تو یہ تصویر ایک کلاسیک مثال ہے جسے ہمارے کئی دوستوں نے سوشل
میڈیا پر شیئر کیا ہے ۔ مورچہ سے آنے والی ایسی سیلفیاں تاریخ کا حصہ بن
جاتی ہیں ۔ اگر ہم نے واقعی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عملی سپاہی بننا ہے
تو بطور پاکستانی شہری ہمیں ایسی کامیابیوں پر اپنی فورسز کی حوصلہ افزائی
کرنی ہو گی ۔ ہماری ایک تھپکی اور محبت بھرے دو بول ان کا مورال مزید بلند
کر سکتے ہیں ۔ |