تہمت، الزام تراشی، بہتان، اور بد گمانی ہمارے معاشرتی
سکون کے لئے زہر قاتل ہیں۔ یہ رویئے ہماری خوشیوں کو برباد کردیتے ہیں
اورہر گھر اور ہر ایک فرد ان سے متاثر ہوتا ہے۔ منفی خیالات اور دوسروں کے
بارے میں غلط سوچ اور خوہ مخواہ کا تجسس ہمیں ایک دوسرے سے دور لے جاتا ہے۔
بے بنیاد خیالات، غلط فہمیاں، شک اور دوسروں کے بارے از خود کوئی رائے قائم
کرلینا یا دوسروں کی غلط معلومات اور الزام ترشی کو تصدیق کئے بغیرسچ جان
لینا بدگمانی اور نفرت کا باعث بن جاتا ہے جس سے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات
میں بگاڑ آجاتا ہے۔بعض اوقات کسی پر ایسا الزام لگادیا جاتا ہے کہ اسے سننے
والا حیران و ششدر رہ جاتا ہے۔ الزام تراشی اور بدگمانیاں پھیلانے والا
اکثر یہ کہتا ہے کہ میں نے آپ کو بتا دیا ہے لیکن اس بات میں میرا نام نہ
آئے۔ جو شخص کسی کے خلاف جھوٹا الزام لگاتا ہے وہ خود کو دوسرے کا ہمدرد
ثابت کرتا ہے اور اپنے آپ کو معتبر گردانتا ہے لیکن فریق مخالف کو بغیر کسی
جرم و خطا کے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کردیتا ہے دراصل ایسا شخص خود ہی یہ
سب باتیں پھیلا رہا ہوتا ہے کوئی اس بیان کو درست تسلیم کرلیتا ہے اور خواہ
مخوا ہ شک اور بدگمانی اپنے دل میں ڈال لیتا ہے حالانکہ کوئی بھی فیصلہ
کرنے سے قبل تصدیق کرلینی چاہیے اور دوسرے فریق سے بھی وضاحت طلب کرنی
چاہیے۔ قرآن حکیم نے اسی لئے حکم دیا ہے کہ جب بھی کوئی فاسق اس قسم کی خبر
تمہارے پاس لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔ یہ حکم انفرادی باتوں کے متعلق
بھی ہے اور اجتماعی امور سے بھی ہے۔ تہمت، بہتان اور جھوٹے الزام لگانے کو
اﷲ تعالیٰ نے بدترین جرائم قرار دیا ہے۔ ایسا کرنے والا نہایت کمینہ خصلت ،
بد ترین کرادر اور پست ذہنیت کا حامل ہوتا ہے۔ متاثرہ فرد اور اس سے جڑے
ہوئے دیگر افراد کا سکون تباہ ہوجاتا ہے اوروہ اس ناکردہ گناہ کی وجہ سے
مفت میں بدنام ہوجاتا ہے۔ قرآن حکیم نے اسی لئے اس کو بہت سنگین جرم قرارد
یاہے۔ کسی کی عزت اور کردار کو پورے معاشرہ میں رسوا کرنے کے بعد اگر معافی
طلب کربھی جائے تو جو نقصان ہو چکا ہوتا ہے اس کی تلافی ممکن نہیں
ہوتی۔انہی سماجی رویوں کے باعث دلوں میں دوریاں اور نفرتیں پروان چڑھتی ہیں
اور اسلام کی تعلیمات کے سرا سر منافی ہے جو جو دلوں کو جوڑنے آیا تھا لیکن
ہماری حالت بقول حالی
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے
اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے
ماہرین نفسیات ان منفی رویوں کو سماجی مسائل اور بگاڑ اکا باعث سمجھتے ہیں۔
قرآن حکیم نے ان امور کے بارے میں واضح تعلیمات دی ہیں۔ فرمایا کہ دوسروں
کے معاملات کی ٹوہ میں نہ لگے رہو۔ کسی کے خلاف تہمت نہ لگاؤ۔ پاک باز
عورتوں کے خلاف ناحق تہمت لگانا قانون کی رو سے جرم ہے اور ثبوت پیش نہ
کرنے والے کی سزا اسی کوڑے ہیں۔ قرآن حکیم میں یہ بھی ہے کہ خود جرم کا
مرتکب ہونا اور اس کا بہتان دوسروں پر لگا دینا جرم ہے۔ ایک دوسرے کی غیبت
مت کرو، یہ نہایت ناپسندیدہ بات ہے۔ ایک دوسرے کا تمسخر نہ اڑاؤ ، ایک
دوسرے کی ذلت نہ کرو۔ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو۔ باری تعالیٰ نے یہ بھی
حکم دیا کہ ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی مت کرو۔ کسی سے حسد نہ کرو۔ خواہ
مخواہ افواہیں نہ پھیلاؤ اور غلط باتوں کا چرچا نہ کرو۔ قرآن حکیم جو
تعلیمات دی ہیں ان کا تقاضا ہے کہ اگر کسی کے خلاف کوئی الزام لگایا جائے
تو مومنین کا پہلا رد عمل نیک ہونا چاہیے ، آپس میں ہمیشہ حسن ظن نیک رکھنا
چاہیے اور کہنا چاہیے کہ یہ بات غلط ہے۔ قرآن حکیم یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ
لوگوں کو چاہیے کہ جب کسی کے بارے کوئی ایسی بات سنیں جو نامناسب ہو تو اسے
آگے نہ پھیلائیں بلکہ کہہ دیں کہ یہ بہتان تراشی ہے۔ قرآن حکیم نے سخت
تنبیہ کی ہے کہ اس قسم کی باتوں کا چرچا کرنے والے بھی مجرم ہیں۔ قرآن حکیم
نے سورہ نساء، نور، احزاب اور حجرات میں اس بارے میں تفصیلی احکامات دئے
ہیں اور یہ کالم انہی کا روشنی میں تحریر کیا گیا ہے۔ ان احکامات پر عمل
کرکے جہاں ہم خوشنودی باری تعالیٰ حاصل کرسکتے ہیں وہاں ہم اپنے رشتوں اور
تعلقات میں آنے والی رنجشوں اور دوریوں کو ختم کرسکتے ہیں۔ ان پر عمل پیرا
ہونے کی صورت میں ہمارا معاشرہ محبت اور دوستی کا گہواراہ بن سکتا ہے۔ ہمیں
انفرادی، معاشرتی اور قومی سطح پر ان ہدایات کو ملحوظ نظر رکھنا چاہیے۔
میڈیا اور ذمہ دار عہدوں پر فائیز افراد کو تو اور بھی سختی سے ان پر عمل
کرنے کی ضرورت ہے۔
بخاری اور مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے ایک روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے
فرمایا کہ بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔ مسند احمد
میں حضرت عبدالرحمٰن بن غنم ؓ اور حضرت اسماء بنت یزید ؓ سے روایت ہے کہ
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ کے بہترین بندے وہ ہیں جن کو دیکھ کر اﷲ یاد
آجائے اور برترین بندے وہ ہیں جو چغلیاں کھانے والے، دوستوں میں جدائی
ڈالنے والے ہیں اور جو اس خواہش اور کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ اﷲ کے پاک
دامن بندوں کو بدنام اور پریشان کریں۔ قرآن پاک اور رسول اکرم ؐ کے ان
احکامات کو ہمیں اپنی زندگی کا نصب العین بنا لینا چاہیے اور اگر کوئی بد
گمانی پھیلانے کی کوشش کرے تو اسے وہیں روک دیں یا پھر دوسرے فریق سے اس
بات کی تصدیق کرلیں۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو دلوں میں دوریاں اور تعلقات
میں دراڑیں بڑھتی جائیں گی ۔ حفیظ ہوشیاری پوری نے کیا خوب کہا ہے
دِلوں کی اْلجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے |