وسیع و عریض ڈائیننگ ٹیبل دنیا جہاں کے لذید مزیدا ر
اشتہا انگیز کھانوں سے بھری ہو ئی تھی اور میرے میزبان اُن کھانوں کی تعریف
مسلسل کئے جا رہے تھے کہ پانی کی جگہ آب زم زم رکھا ہے تیتر بٹیر دیسی مرغ
مچھلی اور بکرے کی شاہی ڈشوں کی میرے میزبان شیخ صاحب تعریف کئے جا رہے تھے
میں جو دال سبزی پسند کرنے والا اُن کی ہاں میں ہاں ملا ئے جا رہا تھا شیخ
صاحب اپنے روپے پیسے کھانوں کے با رے میں وسیع معلومات پر سیر حاصل گفتگوبے
ربط کئے جا رہے تھے وہ پتہ نہیں اِس سارے عمل سے کیا ثابت کر نا چاہ رہے
تھے میر ی زندگی میں بے شما ر لو گ آچکے ہیں اور ہر دوسرے دن آتے ہیں جو
اپنی دولت اعلی عہدے اور اثر رسوخ کی بنا پر یہ چاہتے ہیں کہ ہم معا شرے کے
عام لوگوں سے زیا دہ اہم ہیں جس طرح ایسے لوگوں کو دولت کے بل بو تے پر ہر
چیز خریدنے اور اپنی زندگی میں شامل کر نے کی عادت ہو تی ہے اِسی طرح یہ
دعا کو بھی صرف اپنے لیے ہی وقف سمجھتے ہیں مثلا جب بھی کسی مصیبت یا
پریشانی میں پڑتے ہیں تو سب سے پہلے عمرے کے لیے مکہ مدینہ پرواز کر جائیں
گے اِ س میں کو ئی شک نہیں کہ مکہ مدینہ کی خا ک بھی مسلمان کی آنکھ کا
سرمہ ہے لیکن اِس کا مطلب یہ تو نہیں کہ امیر آدمی جب چاہے مکہ مدینہ جا کر
اپنی دعائیں قبول کرا آئے اور جو مکہ مدینہ نہیں جا سکتے وہ کیا کریں سچ یہ
ہے کہ خالق کا ئنات امیر غریب سب کے بلکہ غریب کی دعا پہلے سنتا ہے خدا دعا
کے لیے الفاظ یا خو بصورت فقروں یا قرات کا محتا ج نہیں سوہنا رحیم کریم رب
تو گو نگے فالج زدہ شخص کی دعائیں تو کیا سات غلا فوں کے اندر لپٹی ہوئی
خوا ہشوں اور دعا ؤں سے بھی واقف ہے اِیسی خوا ہشیں اور دعائیں جو باطن کے
نہاں خانوں میں مچلتی رہتی ہیں دولت مند دولت کے بل بو تے پر لوگوں کو اِس
لیے مکہ مدینہ بھیجتے ہیں کہ جا ئیں اور ہما رے لیے دعائیں کریں ایسے لوگ
مجھے بھی اکثر ایسی ہی آفرز کر تے رہتے ہیں جب کہ میرا یہ ایمان یہ ہے کہ
ہما را رب عادل ہے وہ سمندر وں کے اندر پتھروں کے اندر کیڑے مکوڑوں کی
معمولی سے معمولی حرکت اور خوا ہش سے بھی واقف ہے کائنات میں ہر سیکنڈ میں
اربوں خشک پتے درختوں سے گر تے ہیں خدا ئے بزرگ و برتر ہر پتے کے گر نے سے
بھی واقف ہے یہاں شیخ صاحب بھی اپنی دولت کی نما ئش پر تلے ہو ئے تھے اور
میں فطری حلیمی کی وجہ سے ہاں میں ہاں ملا ئے جا رہا تھا کھا نا شروع ہو
گیا تھا کھا نے کے دوران شیخ صاحب کا بو ڑھا نوکر ہمیں serve کر رہا تھا
اِسی دوران کھا نے کا ڈونگا ایک جگہ سے دوسری جگہ شفٹ کر تے ہو ئے بڑھا پے
کی وجہ سے نو کر توازن قائم نہ رکھ سکا اور سالن شیخ صاحب کے اُجلے مہنگے
ترین لبا س پر گر گیا اِس حر کت کے خوف سے بو ڑھا نو کر تھر تھر کانپنے لگا
اُس کا چہرہ خو ف سے زرد ہو گیا شیخ صاحب دھا ڑتے ہو ئے اٹھے نو کر جو ان
کے کپڑوں کو صاف کر نے کی کوشش کررہا تھا اُس کو ٹھو کر مار کر دور گرا دیا
اور گا لیاں دینی شروع کر دیں شیخ صاحب کے منہ سے آگ برس رہی تھی میں اٹھا
شیخ صاحب کو پکڑا اور کہا شیخ صاحب کو ئی با ت نہیں اُس بیچارے نے یہ جان
بو جھ کر نہیں کیا لیکن شیخ صاحب کا غصہ آسمان سے با تیں کر رہا تھا لیکن
میرے بار بار کہنے پر شیخ صاحب ٹھنڈے ہو گئے نو کر سے کہا میری نظروں سے
دور ہو جا ؤ اپنے بیٹے سے کہا کہ اِس کو آج ہی نو کری سے نکا ل دو آج کے
بعد اِس منحوس کی شکل مجھے کبھی بھی نظر نہیں آنی چاہیے شیخ صاحب کا غصہ
اور غریب بو ڑھے ملازم کے ساتھ یہ وحشیانہ سلو ک ‘میری بھو ک مر چکی تھی
میں بھی فوری شیخ صاحب نے گھر سے نکل آیا اگلے دن شیخ صاحب میرے پاس آئے
اور کہا میں نے اپنے نو کر کو نکا ل دیا ہے میں نے شیخ صاحب سے کہاآپ نے یہ
بہت غلط کیا اُس کی روزی پر لا ت ما ری لیکن شیخ صاحب اپنے عمل پر نہ تو
شرمندہ تھے اور نہ ہی دکھی ‘بہر حال میرے دل و دما غ پر اُس بو ڑھے نو کر
کا واقعہ اور ظلم چپک کر رہ گیا میں اپنی لا ئف میں مصروف ہو گیا چند سال
بعد اچانک شیخ صاحب پھر میرے پاس آئے وہ بہت کمزور لگ رہے تھے بڑی گاڑی کی
بجا ئے چھو ٹی گا ڑی میں کپڑے بھی عا م اُن کے چہرے پر دولت کا رنگ بھی نظر
نہیں آرہا تھا شیخ صاحب برسوں کے مریض لگ رہے تھے اُن کی بیوی بھی ساتھ تھی
شیخ صاحب تو زیاد ہ تر خا موش تھے اُن کی بیوی نے حالت زار اِ سطرح بیان کی
فیکٹری میں آگ لگنے سے مال اور فیکٹری تبا ہ و بر باد ہو گئی گھر پر ڈاکہ
پڑا ڈاکو با نڈز کروڑوں کے زیورات لو ٹ کر لے گئے شیخ صاحب نے بہت سارے پلا
ٹ رشتہ داروں کے نام پر رکھے تھے ہما ر ی حالت کمزورہو ئی تو رشتہ داروں نے
پلا ٹ بیچ کر رقم ہڑپ کر لی بیٹی کو داماد نے طلا ق دے دی بیٹے عیا شی شراب
نو شی میں پڑ گئے ایک بیٹا کینسر کا مریض بن گیا اُس کے علا ج پر رہی سہی
کسر نکل گئی بیٹے کے علاج کے لیے بڑے گھر کو بیچ کرچھو ٹے گھر میں شفٹ ہو
گئے پھر چھو ٹا گھر بیچ کر کرائے کے مکان میں شفٹ ہو گئے کرو ڑوں روپے خر چ
کر نے کے با وجود بھی بیٹا شفا نہ پا سکا بڑے بیٹوں کی عیا شی اور چھو ٹے
بیٹے کی بیما ری کی وجہ سے شیخ صا حب کا رو با ر پر بلکل تو جہ نہ دے سکے
ذہنی پریشانی میں غلط فیصلے کئے وہی شیخ صاحب جو پہلے مٹی کو ہا تھ لگا تے
تھے تو سونا بن جاتی تھی اب سونے کو ہا تھ لگا ئیں تو مٹی بن جا تی ہے اب
ہم فاقوں کے محتا ج ہو گئے ہیں یہ گا ڑی بھی ہما ری نہیں کسی سے ما نگ کر
آئے ہیں شیخ صاحب نے آخر خا مو شی کا تالا توڑا اور بو لے پرو فیسر صاحب
آخر میری غلطی کیا ہے میں نے کیا جر م کیا ہے جو آسمان سے زمین پر آگرا ہوں
آخر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا ۔میں نے شیخ صاحب کی دھندلی آنکھوں میں دیکھا
اور بو لا میں اِس زوال اور شکست کی وجہ جا نتا ہوں شیخ صاحب ایک دم الرٹ
ہو گئے اور بے تا بی سے بو لے جلدی بتا ئیں تو میں نے کہا چند سال پہلے جب
میں آپ کے گھر کھانے پر آیا تھا تو چھو ٹی سی غلطی پر آپ نے اپنے بو ڑھے
ملازم کو ما ر پیٹ کے بعد دھکے دے کر نو کری سے نکال دیا تھا اُس غریب کی
آہ عرش سے ٹکرائی اور تمہارے رزق کے دروازے بند ہو گئے شیخ صاحب آپ یہ بھو
ل گئے کہ اﷲ تمہیں کروڑوں روپے اِس لیے دیتا تھا کہ تم اپنے نو کروں کو ان
کے حصے کا رزق تقسیم کرسکو‘ شیخ صاحب آپ اور آپ جیسے دوسرے دولت مند یہ بھو
ل جا تے ہیں کہ آپ لوگ صرف کئیر ٹیکر ہیں ہما رے گھروں دفتروں فیکٹریوں
زمینوں پر بے شما ر غریب لو گ چند ہزار روپوں کے لیے ہما ری خدمت کر تے ہیں
اِن کا رزق ہما رے رزق سے وابستہ ہوتا ہے خالق کا ئنا ت ہمیں رزق اِس لیے
دیتا ہے تا کہ ہم ایسے صابر لوگوں تک پہنچا سکیں ہم یہ بھو ل جا تے ہیں کہ
پتہ نہیں کو نسا نو کر چوکیدار چپڑاسی ڈرائیور مالی ایسا ہے جس کے مقدر کی
وجہ سے ہمیں رزق مل رہا ہے اِن میں سے کو ن ہے جس کا شکر ہما رے رزق میں
اضا فے کا مو جب بن رہا ہے ہم جا ہل لو گ جب کسی کو تنخواہ دیتے ہیں تو یہ
سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ ہم اپنے پیسوں سے دے رہے ہیں جبکہ ہم تو خدا کے دئیے
ہو ئے مال سے ہی دے رہے تھے اور پھر کو ئی ایک کمزور لمحہ لفظ یا فقرہ ہما
رے منہ سے ایسا ادا ہو تا ہے جس میں غرور تکبر نخو ت کی آمیزش ہو تی ہے ہم
کسی نیک ملا زم کو جب اپنی زندگی سے خا رج کر تے ہیں تو خدا کی آسائشوں کر
م فرمائیوں کے دروازے بھی ہمیشہ کے لیے ہما رے لیے بند ہو جا تے ہیں ہمیں
یہ یا د نہیں رہتا کہ ہم تو ڈاکیے ہیں ہما ری یہ ساری شان و شوکت لش پش
زندگی گا ڑیاں بنگلے چیک بکس دفتر ملازم ہا وسز ملکی و غیر ملکی دورے کسی
غریب کی ڈیوٹی کے بدلے دستیاب ہیں اور جب ہم کسی ایسے بندے کو ڈیوٹی سے
فارغ کر تے ہیں تو کائنات کا اکلوتا وارث ہمیں دھتکا رے ہو ئے لوگوں میں
شامل کر کے کیڑے مکو ڑے بنا کر زمین پر رینگنے کے لیے چھو ڑدیتا ہے شیخ
صاحب کی آنکھوں سے آنسو آبشار کی طرح بہہ رہے تھے میں نے اُس غریب پر بہت
بڑا ظلم کیا ہے مجھے اُسی کی سزا مل رہی ہے اسی لیے میں نے شیخ صاحب سے کہا
جا ؤ اُس غریب کو ڈھونڈ کر اُس سے معافی مانگو اُس کی معا فی سے شاید پھر
تمہا رے لیے خدا رزق کے دروازے کھو ل دے ۔ |