زیادہ عرصے کی بات نہیں ہے کہ جب سرحدوں کا معیار نہیں
تھا بلکہ علاقوں کے زیادہ گنجان آباد نہ ہونے کی وجہ سے سرحدوں کی بحث بھی
نہیں ہوا کرتی تھی لوگ چھوٹے چھوٹے قصبے بنا کر اکٹھے رہتے اور زیادہ تر ان
میں ایک ہی تہذیب اور رہن سہن کے لوگ مل جل کر رہتے تھے یا یوں کہہ لیں کہ
مختلف ذات پات کے لوگوں کے درمیان یکسوئی ہونے کی وجہ سے وہ قبیلوں اور
گروہوں کی صورت میں جہاں انہیں مناسب آب و ہوا میسر ہوتی وہاں وہ رہتے اور
زندگی بسر کرتے ۔اچھے اور برے لوگ ہر دور میں گزرے ہیں کیونکہ اچھائی اور
برائی ایک ہی نہر کے دو کناروں کی طرح ہے جو ہمیشہ ساتھ ساتھ چلتی ہے جیسا
کہ ہم دیکھتے ہیں کہ سچ کو ثابت کرنے کیلئے دلائل کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ
جھوٹ کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ جھوٹ ہی کافی ہو تا ہے جہاں ان
قبیلوں میں اتفاق ہوتا تھا اور وہ دن رات کی محنت سے اپنا اور اپنی اولاد
کا پیٹ بھرنے کیلئے سروسامان ذخیرہ کرتے وہیں انہیں لوٹنے کیلئے برے لوگ جو
بغیر محنت کے لوگوں کو نقصان پہنچا کر ان کی محنت کی کمائی کو لوٹ کر لے
جاتے نہ صرف یہ بلکہ ان پر ظلم بھی کرتے اور کافی لوگوں کو تو جان سے ہاتھ
بھی دھونا پڑتا ۔برصغیر پاک و ہند میں اسلام مختلف اولیاء کرام اور مسلمان
خلفاء کے ادوار میں وقفے وقفے سے پھیلا جس کے بعد یہ سر زمین بھی اسلام کی
تعلیمات سے منور ہونا شروع ہوگئی اور آج یہاں مسلمانوں کی آبادی کی بہتات
کچھ یوں ہے کہ صرف اس خطے میں مسلمانوں کی اپنی آزاد ریاستیں موجود ہیں
لیکن اس بات پر بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ہر قوم میں لٹیرے ،ایمان فروش اور
منافقین موجود ہوتے ہیں جن کیلئے کوئی مذہب یا تہذیب معنی نہیں رکھتی بلکہ
ان کی بھوک مادیت ہوتی ہے جو کبھی نہ مرنے والی ہے ۔لٹیرے اور خونی کھیل کے
کھلاڑی آج بھی زندہ ہیں چونکہ اب بات قبیلوں یا قصبوں تک محدود نہیں رہی
بلکہ اس سے نکل کر ایک بڑی سطح پر ملکوں کی صورت میں سامنے آئی ہے اسی حساب
سے ان لٹیروں نے بھی اپنا معیار بدل لیا ہے اور اب وہ لوٹنے نہیں جاتے بلکہ
ملکوں کو لٹنے پر مجبور کر تے ہیں ۔یہاں میں مادیت کو بیان کرتا چلوں کہ
عصر حاضر میں مادیت کی بھوک اس قدر ہر پیٹ میں سرائیت کر چکی ہے کہ مرنے کا
نام نہیں لیتی اس بھوک کو مارنے کیلئے ہر انسان مختلف طریقوں سے کوششوں میں
مگن ہے کوئی ان محنت کرنے والوں کو لوٹ کرتوکوئی انہیں مار کر۔پاکستان جس
نظریے پرآزاد ہوا وہ نظریہ بھی تہذیب اور مذہب کی عکاسی کرتا ہے اور ہمیں
دوسری قوموں اور تہذیبوں سے جدا کرتا ہے بنیادی طور پر اگر دیکھا جائے تو
ہم اپنی تہذیب اور مذہبی آزادی کو جینے کیلئے پاکستان کی صورت میں ایک الگ
قبیلے کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں اب جیسا کہ ہم ایک الگ قبیلہ بنے ہیں
تو کچھ ہم میں سے ہی لوگ مادیت کی ہوس میں دوسری اقوام کے ہاتھوں اپنا
ایمان فروخت کرکے ہمیں لوٹنے میں مصروف ہیں مادیت ایک بہت بڑی لعنت ہے جس
کے نشے میں انسان اپنا ایمان ،تہذیب و تمدن ،انسانیت اور تمام اخلاقی اقدار
کو پسِ پشت ڈال کر حیوانی صورت اختیار کر لیتا ہے جس کا نشہ ہوتا تو عارضی
ہے لیکن انسان کیلئے جان لیوا ثابت ہوتا ہے ۔د نیا میں جتنے بھی لوگ آئے
جنہوں نے دنیا کو فتح کرنے کا عزم لیا اور کتنی ہی بڑی سلطنت پر حکمران رہے
لیکن آخر کو فناہ ہو گئے جن لوگوں نے انسانیت کے دائرہ کار کو ترجیح دی ان
کا نام آج بھی اچھے القابات کے ساتھ تاریخ میں رقم ہے اور جن لوگوں نے
انسانیت کو تباہ کیا اﷲ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات میں شر وفتنہ پھیلایا
انہیں آج بھی عبرت کے لفظوں سے یاد کیا جاتا ہے ۔جن لوگوں کے پاس استطاعت
اﷲ کی طرف سے دی ہوئی ہوتی ہے یا انہوں نے محنت کر کے کمائی ہوتی ہے وہ
ہمیشہ انسانیت کو فروغ دیتے ہیں اور اﷲ کی مخلوق سے محبت کرتے ہیں لیکن جو
لوگ چوری کر کے ،استحصال کر کے ،غریبوں کا حق غصب کر کے صاحب استطاعت ہوتے
ہیں انہیں پکڑے جانے کا ڈر بھی اسی طرح لگا رہتا ہے اور بے شک ایسے ہی لوگ
لٹتے ہیں اور منافقین اور لٹیروں کی مدد کرتے ہیں جو دوسری انسانیت کیلئے
فتنے کا مؤجب بنتے ہیں ۔جیسے بڑے بڑے جاگیر دار اور سیاستدان اپنی جھوٹی
شان و شوکت کو برقرار رکھنے کیلئے درندہ صفت لوگوں’’ کلوؤں‘‘ کو پالتے ہیں
اور پھر ان کے کسی بھی غلط کام یا کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف
انہیں استعمال کرتے ہیں ۔داعش ،طالبان ،جماعت الاحرار و دیگر دہشتگرد
جماعتیں بنیادی طو ر پر وہی ’کلّو‘ ہیں جن کا کوئی مذہب نہیں ہے ،جنکا
انسانیت سے دور دور تک کوئی رشتہ نہیں جن کیلئے مادیت ہی سب کچھ ہے یہ ایسی
سنڈیاں ہیں جو صرف پودوں کو نقصان پہنچاتی ہیں اور فصلوں کو تباہ کرتی ہیں
اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بے شک ان کی طاقت بڑے بڑے سیاست دان اور
ایسے لوگ ہیں جنہوں نے عوام کا خون چوس کر جائیدادیں اور کاروبار بنائے ہیں
اور وہ ٹیکس ادا کرنے کی بجائے ایسے’’ کلوؤں ‘‘کو پالتے ہیں تاکہ وقت آنے
پر یہ پالتو درندے ان کے کام آ سکیں ۔دنیا بھر میں دہشتگردی کی لہر نے 9/11
کے بعد اس قدر زور پکڑا ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی اور پاکستان میں
پچھلے دس سالوں سے اسے قابو میں کرنے کیلئے مختلف آپریشنز کئے جا چکے ہیں
لیکن یہ فتنہ پھر سے سر اٹھاتا ہے ۔کسی بھی فتنے کو ختم کرنے کیلئے جب تک
اس کا سر نہ کچلا جائے تب تک وہ دم نہیں توڑتا اور ان کلوؤں میں دماغ نام
کی توکوئی شئے پائی نہیں جاتی اگر ہوتی تو یہ ایک لمحے کیلئے ہی سہی لیکن
سوچتے ضرور کہ ہم جو کر رہے ہیں اور جس طرح انسانیت کا قتل کر رہے ہیں یہ
ہمارے لئے اچھا ہے یا برا !دنیا کے کسی بھی مذہب میں انسانیت کے دائرہ کار
اور اخلاقی اقدار کو ترجیح دی گئی ہے جس میں کسی بھی انسان کو قتل کرنا سب
سے بڑا گنا ہ ہے یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے تمام ممالک میں اس گناہ کی سزا
بھی سزائے موت ہی ہے ۔یہ کلّو آئے دن پیدا ہوتے ہیں اور روز مرتے ہیں لیکن
یہ کبھی ختم ہونے والے نہیں ہیں جب تک ان کا سر نہ کچلا جائے اور ان کی
گردن بے شک معاشی دہشت گرد ہیں جتنے بھی آپریشنز کر لئے جائیں چاہے کچھ بھی
ہو جائے جب تک ان معاشی دہشت گردوں جو مادیت کیلئے ایسے کلوؤں کو پالتے ہیں
اور انہیں درندہ صفت بناتے ہیں کو ختم نہیں کیا جائے گا تب تک یہ فتنے ایسے
ہی چلتے رہیں گے لیکن یہاں ایک قابل غور بات یہ بھی ہے کہ کلوؤں کو پیدا
کرنا اور پھر مارنا اور معاشی دہشتگردوں کی رسی ڈھیلی چھوڑی رکھنا ایک
کاروبار ہے تو شاید اس کا کوئی حل نہیں نکل سکتا !! |