یونیورسٹی کے زمانے کی بات ہے میر ے بیج میں دو
لڑکیاں بہت مشہور تھیں مگر دونوں کے مشہور ہونے کی وجہ بالکل مختلف تھیں
امینہ چونکہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی اُسکا چرچا اُسکی قابلیت کی بنا پر
تھا پہلے ہی سمسٹر میں اُس نے پورے بیج میں ٹاپ کر کے اپنی قابلیت کا لوہا
منوا لیا تھا ہر پروفیسر اور لیکچرار اس کو اُسکی زہانت کی بنا پر بہت
اہمیت دیتے تھے مگر اس سے بھی پہلے ہمارے بیج میں نمرا بہت مشہور تھی اسکی
شہرت کی وجہ اسکے امیرانا ٹھاٹ تھے مشہور بزنس ٹائیکون کی اکلوتی بیٹی ہونے
کے ناتے اسکی طبیعت میں بد مزاجی اور ہر کسی کو خود سے کمتر سمجھنے والی
بات نے اسکے تکبرانہ مزاج کو اور بھی چار چاند لگا دئے تھے اُسکا ہلکہ
احباب بھی بہت وسیع تھاہر پروفیسر اور لیکچراربھی اُسکو بہت اہمیت دیتے تھے
اسکی بنیادی وجہ بھی اُسکے وہ مہنگے مہنگے تحائف ہوتے تھے جو وہ اُنکو خود
سے مرعوب رکھنے کیلئے دیتی تھی ،یہی وجہ تھی کہ پورے بیج میں بہت مشہور اور
ہر دلعزیز شخصیت تھی مگر امینہ کے آنے کی وجہ سے اب اسکو اپنی شہرت کا گراف
تیزی سے نیچے کی طرف گرتا ہو محسوس ہورہا تھا جو اُسکو ہما وقت بے چین اور
مضطرب رکھتا تھا حسد اور رقابت کی آگ میں اندھی ہو کر وہ امینہ کیلئے ہر
طرح کی سازشوں میں مصروف رہتی اُسکا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ کسی بھی طرح
اُسکو زچ کر کے لوگوں کی نظر میں نیچا دکھایا جائے جس سے تنگ آ کہ وہ
یونیورسٹی چھوڑ دے پر صد افسوس کہ ہر طرح کے حربے جو وہ اُسکے لئے تیار
کرتی وہ اُس پر متضاد اثر انداز ہوتے جس سے اُسکی شہرت اور اہمیت اور بھی
زیادہ لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے لگ جاتی یونیورسٹی کے تمام عرصے میں
امینہ کو اُس نے اپنی ہر شاطرانہ چال سے زچ کرنے کی بہت کوشش کی مگر سب بے
سود ثابت ہوئی کیونکہ جب بات آجاتی ہے علم و ہنر ذہانت و فطانت اور حق کی
تو حق کے آگے تو آج تک کوئی نہیں جیت پایا ہے۔
میرا یہ سب بتانے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ میں آپکو یہ واقعہ بیان کر کے
نصیحت کروں بلکہ اس واقعے کو مثال بنا کر دنیا کی ایک واضح حقیقت سے پردہ
اُٹھانا مقصود ہے جس سے ہم سارے عالم ِاسلام کے مسلمان نشانہ بنے ہوئے ہیں
،یہ آپکو بتاتی چلوں کہ میں یہ بتاتی چلوں کہ دنیا کہ کمزور اور لادین
مذاہب کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ جس بھی چیز سے انکویہ خطرہ ہوتا ہے کہ یہ
لوگوں کو روشنی کی طرف لے جائیگی وہ اسکو حتیٰ الامکاں اپنے ہر طرح کے
شاطرانہ عمل سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں اُسکے لئے وہ ہر طرح کے اوچھے
ہتھکنڈے استعمال کرنے کے در پہ رہتے ہیں ،جیسے کہ یہودوہنود اور لادین
قوتوں کو اسلام کی تیزی سے پھیلتی ہوئی روشنی بُری طرح خائف رکھتی ہے یہ
بات اُنکو ہر وقت بے چین اور بے کل کئے دے رہی ہے اُن کو سمجھ نہیں آ رہا
کہ ہم اس ر وشنی کو کیسے پھیلنے سے روکیں اس کے لئے اُن کا شاطرانہ دماغ ہر
وقت تانا بانا بننے میں مصروفِ عمل رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ مذہبِ اسلام
اور مسلمانوں سے خائف ہو کر آج کل اپنی سازشوں کے جال کا گھیرا چاروں طرف
سے مسلمانوں پر تنگ کرتے جارہے ہیں اور کسی بات پہ بس نہیں چلا تو آج کل
سوشل میڈیا ،الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے آئے دن اسلامی نظریات قرآن
اور عصمتِ انبیا علیہ السلام کی شان میں لغو اور بے ہودہ طریقے سے اپنی
چالوں کا نشانہ بناتے رہتے ہیں ۔
ایک طرف خود ساختہ دہشت گرد گروہ بنا کرانکو اسلام کے نام سے موسوم کر کہ
اغیارِ عالم میں اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے پر تُلے ہوئے
ہیں تو دوسری طرف سوشل میڈیا،الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے زریعے اپنے غلیظ
اور مکروہ عظائم پر چابکدستی سے عمل پیرا ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ اس کام
کیلئے انہوں نے مسلمانوں میں سے ہی کچھ منافقین کا ٹولہ جو اپنے آپ کولبرل
اور سوشل کہتے ہیں اور اسلام پر بھی زبردستی لبرلزم اور سوشلزم کا ٹیگ
چسپاں کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں وہ رات دن اس کام میں ملوث رہتے ہیں
کہ کسی طرح قرآن اور شعائر اسلام کو نشانہ بنا کر قرآنی آیات ،احادیث شریف
میں اپنی طرف سے ترمیم وتحریف کر کے مختلف ویب سائٹس اور پیجز کے ذریعے توڑ
مروڑ کر انتہائی عامیانہ زبان استعمال کر کے سب میں پھیلا دیتے ہیں اس کا
مقصد صرف اور صرف اتنا ہے کہ کس طرح مسلمانوں کہ جزبات بڑھکا کر انتشار کی
مضبوط دیوار تعمیر کی جائے مگر افسوس کہ وہ اپنی ہر طرح کی مکارانا اور
ملعوانا فطرت کا استعمال کرنے کے باوجود اب تک اپنی سازشوں میں مکمل ناکام
دکھائی دیتے ہیں ۔
یہود و ہنود کا تو یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ ہر اُس شخص کو اہمیت دینگے جو
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہو سیریا کی ایک خاتون وفا سلطان جو کہ اب
امریکہ میں ڈاکٹر وفا احمدکے نام سے جانی جاتی ہیں ان ہی بے ضمیر مسلمانوں
کی جماعت سے ہیں جو دنیا کی دولت اور شہرت کی خاطر شیطان کو اپنا دستِ راست
بنا لیتے ہیں وفا کا تعلق شام سے تھا مگر امریکن امبیسی کو اپنی من گھڑت
کہانی سنا کر مسلمانوں کے خلاف جذبات بڑھکا کر اُنکی ہمدردی حاصل کر کے
گرین کارڈ حاصل کرنے وہاں کی شہریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی پیشے سے
ڈاکٹر تھی مگر شروعات میں وہاں کہ لوکل ہوٹل میں سروس کی پھر آہستہ آہستہ
اسلام کے خلاف work کرتے ہوئے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں اپنے قدم جما
لئے 13اکتوبر 2009کو انگلش میں میں ایک کتاب A GOD TO HATESجو کہ مارٹین
پریس نے شائع کی اور اس کے بعد اسی خاتون کو قتل کی دھمکیاں ملنے لگیں اور
یوں اسکی شہرت مزید بڑھ گئی۔
وفا کا یقین ہے کہ اسلام ایک مذہب نہیں ہے بلکہ ایک سیاسی نظریہ ہے جو کہ
تشدد کی طرف تبلیغ کرتا ہے اور دوسرے لوگوں کو بزورِبازو تسلیم کرنے کا حکم
دیتا ہے اسکے بہت سے موضوعات میں کچھ یہ ہیں کہ محمدﷺ نعوزباﷲ ایک جھوٹے
پروفٹ ہیں اور ISLAM IS A ROOT OF ALL EVIL ،ISLAM IS A PROBLEM،اسکے علاوہ
بھی بہت کچھ غرض یہ کے یہ دن رات اسلام کے نظریات اور مسلمانوں کے خلاف
الیکٹرونک سوشل اور پرنٹ میڈیا میں مسلسل مصروفِ عمل ہے جسکی بنا پر اسکو
امریکن نے بہت اہم عہدے پر فائض بھی کر دیا ہے یہ خالی ایک ملعونہ کی بات
نہیں بلکہ اس جیسے ناجانے کتنے گروہ اس کام میں پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں
۔
یہ غیر مسلم انٹرنیٹ کے ذریعے ہمارے مذہبی نظریات پر حملہ کرنے کے ساتھ
ساتھ اسلام جیسے آفاقی مذہب کیلئے غلیظ زبان استعمال کر رہے ہیں مڈل ایسٹ
ویڈیو کی تمام ٹیم اپنی کوششیں ناتواں میں مصروف تھی کہ انکشاف ہوا کہ
مختلف websitesجو ان غلاظت میں ملوث ہیں انکے تانے بانے یورپ میں غیر ملکی
اداروں سے جُڑے ہوئے ہیں ان گروپس کی تعداد 100سے کہیں زیادہ ہے گزشتہ آٹھ
سالوں سے آزادی ِرائے کے بینر تلے اپنے مخصوص اور غلیظ مقاصد کے لئے کام کر
رہے ہیں انکی planningکا مقصد شعائرے اسلام کا مضحکہ اُڑانا ہے اور کچھ
نہیں تو کم از کم لوگوں کے معصوم ازہان پر شکوک کے سنپولئے پیدا کرنا ہے
آیاتِ قرآنی کا نعوزباﷲ تمسخر اُڑانے اور رسولِ خُدا ﷺ کی کردار کشی کر رہے
ہیں اور کچھ نا عاقبت اندیش مسلمانوں کی غلطیوں اور کو تاہیوں کے عمل خُدا
اور رسول کا مظہر قرار دیتے ہیں یہ facebookکے تین پیجز بھینسا ،روشنی اور
موچی نامی اور بھی نجانے ایسے کتنے پیجز ہونگے جو ابھی تک منظرِعام پر نہیں
آئے سب کے اکاوئنٹ کو جاننا پاکستان جیسے ملک میں کوئی مشکل کام نہیں ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوقت عزیز صدیقی نے کہا کہ توہینِ رسالت کا
مُرتکب کسی صورت قانون کے شکنجے سے نہیں بچے گا عدالت نے ایف آئی اے کو
ہدایت کی ہے کہ سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کے معاملے میں آئین کے
آرٹیکل ۱۹ پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے لوگوں کو آزادیِ اظہار کے نام
پر گمراہ کیا جا رہا ہے جسٹس شوکت کا یہ ردِعمل اور اُنکے اقدامات کو پوری
امتِ مسلمہ خراجِ تحسین پیش کرتی ہے پاکستان میں ان لادین عناصر کی ہر چال
کو ناکام بنانے کیلئے سچے اور پکے مسلمانوں کی کمی نہیں جسٹس شوکت ان ہی
میں سے ایک ہیں ۔
وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے بھی کہا ہے کہ توہینِ رسالت کرنے والے
انسانیت کے دشمن ہیں اور ہم اس گھناوئنے جرم کے مُرتکب افراد کو سزا دلوانے
کیلئے آخری حد تک جائینگے انہوں نے مزید کہا کہ یہ آزادیِ اظہار ہے یا
ہماری مقدس ہستیوں کے خلاف گھٹیا ترین حرکت ہے کوئی بھی مسلمان مقدس ہستیوں
کی گستاخی پر مبنی صفحات کو دیکھ ہی نہیں سکتا مزید یہ بھی کہا کہ ناموسِ
رسالت ہمارے ایمان کا حصہ ہے دنیا کے مسلمانوں کو متحد ہونا ہوگا اور جب سب
اکھٹے ہو کر بولینگے تواسمیں ملوث عناصر کو طاقت ور پیغام جائے گا ۔
انہوں نے کہا کہ یورپ میں ہولو کاسٹ سے متعلق شک کا اظہار کرنا بھی جرم ہے
ایسا کرنے والوں کو امریکہ اور برطانیہ ویزا بھی نہیں جاری کرتا تمام مسلم
ممالک توہین آمیز مواد کے معاملے میں ہمارا ساتھ دیں سوشل میڈیا پر بہت سے
بلاگرز بلاک کر دئے گئے ہیں اور گستاخانہ مواد والی پوسٹیں بھی بند کردی
گئی ہیں جبکہ PTAکے ذریعے سروس پرووائڈرز کوسختی سے ہدایات کی ہیں کہ کسی
بیگناہ پر کوئی الزام نہ لگے۔
وزیرِ داخلہ کا یہ ردِعمل تمام سچے پاکستانی مسلمانوں کی سچائی کا ثبوت
دیتا ہے اسلئے ہم تمام مسلمان ان سازشی عناصر کو یہ تنبیح کرتے ہیں کہ
اسلام کی روشنی پھیلانے کے سفر میں جو بھی رکاوٹ ڈالے گا وہ بچ نہیں سکے گا
۔ |