مال مہنگا ہے ، جان سستی ہے

فیصل آباد میں ایک فارمیسی کی حفاظت پر مامور ناظر حسین ایک غریب خاندان کا کفیل تھا جس نے اپنی جان پر کھیل کر اپنے فرض کی انجام دہی کی وہ بظاہر اسلحے سے لیس تھا مگر نہتا اس نے جس جواں مردی سے ڈ اکوؤں کا مقابلہ کیا اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے یہ واقعہ کوئی معمولی اہمیت کا حامل نہیں کہ نظر انداز کیا جاسکے ۔ جس طرح ناظر حسین نے اپنے فرض کو نبھایا ایسا عام طور پر خال خال ہی دیکھا گیا ہے بلکہ اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ ڈکیتی میں خود سیکیورٹی گارڈ ملوث پائے جاتے ہیں مگر اس بہادر شخص نے جان دیدی مگر اپنے فرض پر آنچ نہیں آنے دی ۔ اس کے قتل کا ذمہ دار کون ہے وہ سیکیورٹی کمپنی جس نے ایک ناکارہ اور بیکار گن دے کر اسے ڈیوٹی پر کھڑا کیا یا وہ فارمیسی مالکان جنہوں نے اپنی جانوں کو قیمتی گردانتے ہوئے اکیلے ناظر حسین کو ڈکیتوں سے لڑ تا چھوڑ کر خود دوڑ لگا دی جس طرح اس گارڈ نے ڈاکوؤں کو بے بس کئے رکھا تھا اگر فارمیسی مالکان تھوڑی سی بھی جرات کا مظاہرہ کر لیتے تو ڈاکوؤ ں کو قابو کیا جا سکتا تھا انہوں نے ایسا کیا نہیں بہر حال ناظر حسین نے اپنی جان وار کر اپنے مالکان کا نقصان نہیں ہونے دیا ۔اس بہاد ری کے صلے میں جو مالکان نے کیا وہ بھی ایک مثال تو ہے مگر بدترین اس بیچارے غریب کو وفا کے بدلے صرف دس ہزار روپے اس کے لواحقین کو دے کر میڈیا میں پچاس ہزار شو کر دیا ناظر نے حقیقی جان دی اور فارمیسی مالکان نے فرضی پچاس ہزار دے دیئے کیا دس ہزار میں ایک انسان کی جان خریدی جا سکتی ہے یا انسان کی قدر کم ہو کر اتنی کم ہو گئی ہے کہ اسے کچھ بھی نہ سمجھا جائے خود ان زر پرستوں کا بخار بھی دس ہزار میں اترتا ہے اور جس نے اپنی سانسیں ان کے مال کی نذر کر دیں اس کی قیمت یہ ہی لگا پائے ہیں یہ ہوس و زر کے پجاری اس وقعے کو دیکھتے ہوئے مجھے ولائت حسین حیدری جی کا ایک شعر یاد آرہا ہے کہ ،
مزاج زر پرستاں کھاری پانی ہے سمندر کا
کہ اس میں دال گل سکتی نہیں غربت کے ماروں کی
 
اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیاں جس طرح تذلیل انسانی کر رہی ہیں وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں ۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے کہ اس شہید سیکیورٹی گارڈ کو جو گن کمپنی نے تھمائی ہوئی تھی وہ صرف رپیٹر کی شکل کی ایک چھڑی سمجھ لیں اب ایک نہتا اور عمر رسیدہ آدمی نہتے ہاتھوں دو ہٹے کٹے جوانوں کے ساتھ بھڑ جائے جو جدید آتشیں اسلحے سے لیس بھی ہوں تو ایسے شیر صفت دلیر مرد کے خاندان کی کفالت اس وقت تک اس فارمیسی کی اور سیکیورٹی کمپنی کی ذمہ داری ہونی چاہئے جب تک کہ ناظر حسین کا کوئی بچہ اپنے گھر کو سنبھالنے کے لائق نہیں ہو جاتا ورنہ انسانیت ایسے سرمایا داروں اور نام نہاد سیکیورٹی اداروں کے رویئے پر ماتم کناں رہے گی جو بندے کو بھرتی کرتے ہوئے پہلے زر ضمانت کے طور پر پیسے وصولتے ہیں اور بعد ازاں اسے ناکارہ ہتھیار دے کر اس ابتلا کے دور میں جب ہر طرف وارداتیں عروج پر ہوں ڈکیتوں اور دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیئے کھڑا کر دیتے ہیں یہ تو بالکل اسی طرح ہوا نہ کہ
امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر
سمندروں کے سفر پہ کیا روانہ مجھے

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں صرف اتنی گزارش کروں گا کہ جب یہ غریب لوگ سیکیورٹی کمپنی میں ملازمت اختیار کرتے ہیں تو ساتھ ساتھ انکی حفاظت کے لئے بھی کچھ نہ کچھ کرنا بنتا ہے ۔میری نظر سے چند ایسی سیکیورٹی کمپنیاں بھی گزری ہیں جو کئی کئی ماہ تک ان بیچارے گارڈوں کو تنخواہ بھی نہیں دیتے بلکہ شروع کی ایک تنخواہ تو ویسے ہی بطور زر ضمانت نیچے رکھتے ہیں ،اسلحہ دیتے ہیں تو وہ بھی بیکار سا ،میری ناقص سوچ کے مطابق ہونا تو یہ چاہئے کہ ہر سیکیورٹی گارڈ کا بیمہ بذمہ سیکیورٹی کمپنی ہو اور اگر دوران ڈیوٹی اسے کوئی حادثہ پیش آجائے تو علاج کی مکمل ذمہ داری کمپنی کے فرائض میں شامل ہو ،خود یہ کمپنیوں والے فی گارڈ اٹھارہ سے بائیس ہزار روپے وصول کر رہے ہیں اور گارڈ کو نو ہزار سے بارہ ہزار ماہانہ دیتے ہیں کیا حکومتی سطح پہ ان کمپنیوں کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق ہے اگر ہے تو اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کروایا جاتا ؟ اور اگر نہیں ہے تو گورنمنٹ آف پاکستان کو چاہئے کہ فوری طور پر کوئی ایسا قانون بنائے جس سے ان نہتے محافظوں کی بھلائی بھی ہو جائے اور معاشی خوشحالی کا ضامن بھی ہو وہ قانون ۔دوسری بات یہ کہ ان سیکیورٹی کمپنیوں کو پابند بنایا جائے کہ گارڈ ٹرینڈ بھرتی کریں کسی کمپنی کا گارڈ ساٹھ سال سے زائد عمر کا نہ ہو بلکہ پچاس سال سے کم عمر تک گارڈ ہونے چاہئیں میں نے کچھ بینکوں میں دیکھا ہے کہ ساٹھ سال سے زائد عمر کے گارڈ مہیا کر رکھے ہیں سیکیورٹی کمپنیوں نے جو گارڈ کم اور چپراسی کی ڈیوٹی زیادہ کرتے ہیں خیر اس معاملے پر بات کسی آئندہ کالم میں تفصیل کے ساتھ کروں گا فی الحال تو بات ہو رہی ہے فیصل آباد کے بہادر شہید سیکیورٹی گارڈ ناظر حسین کی جسکی بعد از شہادت چند ہزار روپے اسکے لواحقین کو دے کر اس شہید کی تذلیل کی گئی میرے خیال میں تو شہید ناظر کی بہادری کو دیکھتے ہوئے حکومتی سطح پر بھی پذیرائی بنتی ہے اور کرنی بھی چاہئے اور لازمی طور پر اس سیکیورٹی کمپنی کے خلاف بھی قانونی کارروائی ہونی چاہئے جو بیکار اسلحہ دے کر ایک زندہ جاوید انسان کو موت کے حوالے کرنے کی ذمہ دار ہے شائد میری ان گزارشات کا کوئی اثر ارباب اختیار پر بھی ہو جائے اور کسی کی جان و مال کے غریب محافظ کا تحفظ بھی کسی کو اپنی ذمہ داری لگنے لگ جائے ۔
 

Daniyal Mansoor
About the Author: Daniyal Mansoor Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.