’سیلفی‘ کی وبا۔ مکہ اور مدینہ میں

جدید ایجادات نے انسانی زندگی کو جس قدر پر آسائش، آرام دہ، سہل ، تیز تر بنادیا ہے اس کے ساتھ ہی ان ایجادات نے انسان کو مختلف قسم کی پریشانی، مصیبت، گمراہی اور جھنجٹ میں بھی ڈال دیا ہے۔ کمپیوٹر، انٹر نیٹ اور موبائل دنیا میں انقلاب برپا کر نے کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ دنیا سمٹ کر انسان کی مٹھی میں بند اور اس کی ا نگلی کے ایک کلک سے وہ ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے کسی بھی عزیز سے تصویری بات چیت کر لیتا ہے۔ جس موضوع پر چاہیں مواد فوری ممکن ہوجاتا ہے۔ کمپیوٹر کے علاوہ موبائل اور پھر کیمرے والے موبائل فون نے اخلاقیات کی تمام حدود کو پارا پارا کرکے رکھ دیا ہے۔ اس وقت میرا موضوع سیلفی ہے۔ آسان الفاظ میں سیلفی موبائل فون سے اس طرح تصویر لینا یا کسی بھی جگہ (آبجیکٹ ) یا متعدد افراد کو تصویر میں اس طرح محفوظ کرنے کا نام ہے کہ جس میں تصویر کھینچنے والا از خود بھی نمایاں نظر آئے۔ گویا سیلفی نے اپنی تصویر کسی خاص آبجیکٹ کے ہمراہ یا دوسروں سے کھنچوانے کی محتاجگی سے آزاد کردیا ہے۔سیلفی کا رواج بے انتہا بڑھ چکا ہے پہلے تو موبائل کا حامل شخص کسی بھی جگہ کی حتیٰ کہ متبرک مقامات مسجد، مقبروں کی تصاویر ہی پر اکتفا کر لیا کرتے تھے اب موبائل رکھنے والے کی خواہش محض تصویر اتارنا نہیں رہ گیا بلکہ ایسی تصویر جس میں وہ خود بھی نظر آئے۔ قبرستانوں میں ، حتیٰ کے مردے کے ساتھ ، جنازے کے ساتھ سیلفی بنانے کا رواج عام ہوگیا ہے۔خوشی کے موقع کی تو بات ہی کیا ہے۔ سیلفی کی وبا اس قدرعام ہوچکی ہے کہ ہمارے مقدس و معتبر مقامات مکہ میں خانہ کعبہ اور مدینہ میں روضہ رسول ﷺ پر سیلفی لینے والوں کو کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ جسے میں نے حال ہی میں مکہ اور مدینہ میں قیام اور عمرہ کرتے ہوئے دیکھا۔

مغرب میں یہ بحث شروع ہوئی کہ کیا قبرستانوں اور قبروں کی سیلفی بنانا درست ہے یا نہیں۔ لیکن مغرب تو پھر مغرب ہے، آزاد پنچھی ہر بات جائز، انسانی حقوق کے نام پر ہر جائز و ناجائز ان کے لیے جائز ہی ہوتی ہے۔ بالا آخر سیلفی کی جیت ہوئی امریکہ کے ایک ماہر آئی ٹی جیسن فیفر نے سیلفی کو ایک دلچسپ سماجی رجحان قرار دیتے ہوئے ایک ویب سائٹ بعنوان ’’جنازوں پر سیلفی‘‘ بنا ڈالی، جسے لوگوں نے پسند بھی کیا۔یہاں تک کہا گیا کہ ’’یہ دور سیلفیاں بنانے اور ٹیگ کرنے کا دور ہے، یہ وقت کسی کے پاس بیٹھ کر فیض حاصل کرنے کا وقت نہیں بلکہ صرف اس کے ساتھ بیٹھ کر سیلفی لینے کا وقت ہے‘‘۔بہت خوب ، یہ ہے مغربیت، مسلم معاشرے میں علماء کی صحبت کو حصول علم و تربیت کا ذریعہ تصور کیا جاتاہے۔ مغرب کی بات اپنی جگہ پاکستان میں بھی ایک قبرستان ’’وادیِ حسین ‘‘ قبرستان کی ویب سائٹ موجود ہے۔اس کی ویب سائٹ پر تحریر ہے ’’وادی حسین ‘پہلا آن لائن قبرستان‘ قبر کا نمبر معلوم ہونے کی صورت میں متعلقہ قبر ویب سائٹ میں سامنے آجاتی ہے۔ سائٹ میں قبرستان کی خصوصیات بھی درج ہیں، مردے کو دفن کرانے کا طریقہ بھی موجود ہے۔انتظامات کے اعتبار سے یہ قبرستان دیگر قبرستانوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔مجھے ایک سے زیادہ بار اس قبرستان میں جانے کا اتفاق ہوا۔انتظامی اعتبار سے اعلیٰ ہے۔ اس کے جائز یا ناجائز ہونے پر میں گفتگو کرنے سے قاصر ہوں۔ میری معلومات دین کے بارے میں محدود ہیں اس لیے اس بات کو یہی ختم کرتا ہوں۔

پہلی بات تو یہ کہ اسلام میں تصویر کشی یا تصویر سازی کی ہی ممانعت ہے ، اس حوالے سے متعدد احادیثِ مبارکہ موجود ہیں۔ جن میں صراحت کے ساتھ تصویر کی حرمت کو شدت سے بیان کیا گیا ہے۔ تصویر کی حرمت کی ذاتی اور اہم وجہ اللہ کی تخلیق سے مشابہت ہے۔ اللہ اسما ء حسنہ میں ایک نام ’مصور‘ اور اس کی صفات میں ’’ھُواَلَّذِ ی یُصَوِّرُ کُمْ فِی الْاَّ رْ حَامِ کَیفَ یَشَآ ءُ‘‘ سورۃ آلِ عمران3 : آیت6) شامل ہے اس بنا تصویر بنانا سرے سے حرام اور تصویر کشی کی فی نفسہِ ممانعت کی وجہ یہی ہے۔ لیکن فی زمانہ اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ انسان کہاں کہاں اس سے بچے گا۔اپنے ہی ملک میں قومی شناختی کارڈ کا حصول تصویر کے بغیر ممکن نہیں، بیرونِ ملک سفر کے لیے پاسپورٹ لازمی جس پر تصویر لازمی، سعودی عرب جیسے ملک میں جہاں اسلامی قانون و شریعت پر سختی سے عمل ہوتا ہے جس وقت ہم ائر پورٹ پر اتر کر امیگریشن کے لیے اپنا پاسپورٹ سعودی حکام کے حوالے کرتے ہیں تو وہ ان خواتین سے جو حجاب لیے ہوئے ہوتی ہیں فنگر پرنٹ کے بعد ایک لمحہ کے لیے خواتین سے تصویر کے لیے نقاب ہٹانے کے لیے کہتا ہے جاتا ہے اور ہر بہ حجاب خاتون اس وقت بے حجاب ہوتی ہے۔ اسلامی قانون میں یہ جائز تو نہیں لیکن عملاً ایسا ہوتا ہے ۔ موبائل سے لی گئی تصویر کو ڈیجیٹل تصویر جیسے ٹی وی اسکرین پر تصاویر کا نمودار ہونا بعض علماء کے نذدیک جائز اور بعض کے نذدیک ناجائز ہے۔ ضرورت کے تحت تصویر کو بعض علماء نے قابل قبول قراردیا ہے اور ڈیجیٹل نظام کے تحت عکس کو آئینہ کے عکس پرقیاس کر کے بلکہ اس سے بھی کم درجہ تسلیم کرتے ہوئے دیجیٹل تصویر کو تسلیم کرتے ہوئے اسے تصویر سازی سے خارج بھی قرار دیا ہے ، بعض علماء اسے بھی غیر شرعی قرار دیتے ہیں ۔ بعض علماء اکرم نے ٹیلی ویژن پر آنے والی تصاویر کو جائز قرار دیا جب کے بعض اس عمل کو بھی غیر شرعی گردانتے ہیں۔اس موضوع پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ جامعہ فاروقیہ کراچی کی ویب سائٹ جس کاجس کایوآر ایلURL:http//w.farooqia.com/ur/lib/1435/07/p11.php ہے ۔ یہاں ڈیجیٹل تصویر کے بارے میں ’’ڈیجیٹل تصویر دارالعلوم دیوبند کا موقف اور فتاویٰ‘‘ کے عنوان سے مختلف علماء اکرم جن کا تعلق پاکستان ، بنگلہ دیش اور بھارت سے ہے کے بیانات اور فتوے اور دیگر تفصیل پڑھی جاسکتی ہے۔ان محترم شخصیات میں حضرت مولانا مفتی زین الا سلام قاسمی الہٰ آبادی، حضرت مولانا مفتی، عبد الرحمٰن (بنگلہ دیش)، حضرت مولانا مفتی عبد الرحمٰن ، حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمٰن ، حضرت مولانا مفتی محمود حسن (دارالعلوم دیوبند)، حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری(دارالعلوم دیوبند)، حضرت مولانا مفتی رشید احمد اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع بانی دارالعلوم کراچی کی تحریریں پڑھی اور اس موضوع پر سیر حاصل معلومات فراہم کرتی ہیں۔’بہشتی زیور ‘ از حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی نے کتا پالنے اور تصویروں کے بارے میں بیان صفحہ 325میں لکھا ہے کہ ’حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ’ نہیں داخل ہوتے فرشتے (رحمت) کے جس گھر میں کتا یا تصویر ہو، فرمایا نبی ﷺ نے کہ سب سے زیادہ عذاب اللہ تعالیٰ کے نذدیک تصویر بنانے والے کو ہوگا‘۔ان حدیثوں سے تصوریریں بنانا ، تصویررکھنا ، کتا پالنا سب حرام ہونا معلوم ہوتا ہے۔‘‘۔ مجلس التحقیق الا سلامی کی ویب سائٹ ’’محدث میگزین‘‘ میں ایک مضمون الیکٹرنک میڈیا اور تصویر کا شرعی حکم: تقابلی جائزہ‘‘ بھی تصویر اور ڈیجیٹل تصویر کے بارے میں رہنمائی کرتا ہے۔ اس کا یو آر ایل https://magazin
.mohaddis.com/shumara/52-jun2008/1189-electronic-media-per-tasveer-ka-sharee-hukamہے۔

اس تقابلی جائزہ میں مختلف مکتبہ فکر کے علماء کی رائے کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔جواس موضوع پر تفصیلی معلومات فراہم کرتا ہے۔یہاں میرا موضوع تصویرکے اسلامی یا غیر اسلامی، شرعی یا غیر شرعی ہونے کی تفصیل میں جانا نہیں بلکہ میں صرف ان احباب کو جو مکہ اور مدینہ میں اپنا زیادہ وقت اور توجہ اپنے موبائل اور سیلفی بنانے میں لگا کر ثواب سے محروم ہورہے ان کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ہے ۔
موبائل ہی کیا کم ستم ڈھا رہا تھا کہ تصویروالے موبائلوں نے رہی سہی کثر پوری کردی۔ میں نے 9مارچ 2017کو عمرہ کی سعادت حاصل کی ۔ میں چھٹی بار سعودی عرب آیا ہوں ، 2011سے مجھے یہ سعادت نصیب ہورہی ہے ، اللہ کا شکر و احسان ہے۔ موبائل فون کا استعمال تو عرضہ دراز سے ہورہا ہے ، ایک اعتبار سے ضروری بھی ہے کہ انسان دوردراز ہوتے ہوئے اپنے عزیز رشتہ داروں کو اپنی خیریت دے دیتا ہے اور ان کی خیریت معلوم کر لیتا ہے لیکن ان تصویر والے موبائلوں نے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اکثریت کو اس مقصد سے دور کردیا ہے جو سوچ ، جذبہ، شوق، عشق ، محبت لے کر وہ مکہ اور مدینہ آتے ہیں۔ احرام کی حالت میں طواف کعبہ کرتے ہوئے ایک ہاتھ میں موبائل، چہرہ خانہ کعبہ کی جانب، مڑ مڑ کر یہ دیکھتے رہنا کہ اپنی تصویر اوراس کے ساتھ جو لوگ ہیں وہ سیلفی میں آرہے ہیں یا نہیں ، ایک سیلفی بن گئی تو اس بات کی کوشش شروع ہوجاتی ہے کہ اس سے اچھی سیلفی بنائی جائے۔ کہاں کا طواف ، کہا کے چکر، کہاں کی دعائیں، کہا گیا وہ جنون ، کہاں گیا وہ مقدس جذبہ ، لاکھوں خرچ کرکے انسان اس لیے یہاں آیا کہ اس کی تصویر خانہ کعبہ اور دیگر مقدس مقامات کے ساتھ اچھی سے اچھی بن جائے۔ مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ پر بھی سیلفی بنانے والوں کی تعداد کم نہ تھی۔ ہم کیا کیا خواہشیں لے کر جاتے ہیں کہ ہم نبی کے روضہ مبارک پر سلام عرض کریں گے، یہ دعا کریں گے وہ دعا کریں گے ، سیلفی بنانے والوں کا یہ عالم کہ روضہ رسول ﷺ کے روضہ کی جالیوں کے سامنے سے گزر رہے ہیں سوراخوں میں نظریں گڑی ہوئی ہیں ایک ہاتھ سے سیلفی بن رہی ہیں ، بیچ بیچ میں کیمرہ کو دیکھا جارہا ہے کہ سیلفی میں روضہ مبارک ﷺ کی جالیوں کے سوراخ اوراپنے چہرے کی سیلفی بنی یا نہیں۔شوق کا عالم دیکھا نہ جائے۔

سیلفیاں بنانے والوں سیلفیاں ضرور بناؤں لیکن ایک مرتبہ جی بھر کر بنا لو پھر اپنے کیمرے کو بند کر کے رکھ دو اور مکمل انہماک اور خشو و خضوع کے ساتھ، شوق اور جذبہ کے ساتھ، مکمل طور پر اپنے دل و دماغ کو اپنی سوچ اور فکر کو اس جانب مرکوز کر کے ، عمرہ کے ارکان کی ادئیگی اور مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ پر حاضری کے وقت اپنے آپ کو ہمہ تن اپنے نبی کے خیالوں میں ، اپنے محبوب کی محبت اور ان سے حقیقی لگن کے ساتھ، عاجزی و انکساری کے ساتھ، دل کی گہرائیوں سے سلام عرض کیا جائے۔ اللہ نے ہمیں یہ موقع دیا ہے، نہیں معلوم زندگی میں پھر یہ سعادت نصیب ہو سکے بھی یا نہیں۔ آخر میں ایک بار پھر عرض ہے کہ اس تحریر کا مقصدتصویر یا سیلفی کو جائز یا ناجائز ،شرعی یا غیر شرعی ثابت کرنا نہیں بلکہ سیلفی لینے کے شوقین حضرات جو عمرہ یا حج کی غرض سے مکہ المکرمہ اور مدینہ المنورہ تشریف لے جائیں تو وہ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ان کا وقت سیلفی بنانے میں نہ لگاجائے(24مارچ2017،جدہ،سعودی عربیہ)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1437940 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More