سیمنٹ کے تھڑےپہ بیٹھے انور نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی
روزانہ والا لگا بندھا سماں تھا۔اسلم خان اپنی مونگ پھلی کی ریڑھی سجا
چکاتھا نمک میں بھنی مونگ پھلی کی اشتہا آمیز خوشبو کئی جاتے قدم کھنچ لیتی
اور کوئی نہ کوئی رک کر مونگ پھلی خرید لیتا اور اسلم خان کی روزی کا سبب
بن جاتا۔میاں سلیم ہمیشہ کیطرح کرتے پاجامے میں ملبوس کلے میں پان دبائے
سائیکل سنبھا لے دکان پہ جاتے جاتے سب سے خیریت پوچھ رہے تھے۔گڑیا بالوں کی
دو پونیاں بنائے بستہ تھامے اپنے پا پا کے ساتھ اسکول جا رہی تھی۔خالہ صفیہ
اپنا میلا سا برقعہ اوڑھے جس کا رنگ حوادث زمانہ یا ان کی بیوگی نے اڑا دیا
تھا ہاتھ میں سبزی کی ٹوکری لیے باہر نکلیں اے دلھن کواڑ ڈھو لیجیو ۔ان کی
آواز کے ساتھ ہی ان کی بہو نے دروازہ بند کیا۔سب مصروف اور اپنی دھن میں
مگن تھے۔اوسط درجوں کے متوسط طبقے کے نفوس پہ مشتمل یہ چھوٹا سا محلہ جہاں
آمدنی کے ساتھ خواہشوں کا دامن بھی محدود تھا۔ لیکن ان کے دکھ۔سکھ سانجھے
تھے۔لگتا تھا ابھی تعصب کی ہوا کا گذر یہاں نہیں ہوا۔ایک گھنٹے میں گلی میں
سکوت ہو گیا سب اپنے اپنے کاموں پہ جا چکے تھے۔انور نےانگڑائی لی اور اٹھ
کھڑا ہوا ۔چپل پاؤں میں اڑس کر پردہ اٹھا کر اندر چلا آیا ۔اس کی ماں ابھی
چولھے کے پاس ہی بیٹھی اس کے چھ بہن بھائیوں کو ناشتہ کرواتے ہانپ سی گئی
ایک روٹی توے سے اترتی اور بچوں میں تقسیم ہو جاتی اور سب اگلی روٹی کے
اترنے کا انتظار کرتے تسلے میں گندھا آٹا ختم ہو گیا ۔ماں نے آخری روٹی کو
دستر خوان میں لپیٹا۔اور بچوں کو چلا کر سکول دفعان ہونے کا حکم دیا۔منھ
بسورتے ننھو ۔اور کلو بستے گلے میں ڈالے چلے گئے جب کےمنا اپنے لکڑی کے
گھوڑے سے کھیلنے لگا.بینا اور منی نے برتن سمیٹے اور ماں کا ہاتھ بٹانے لگ
گئیں ۔انور نے بیزاری سے گھر کو دیکھا اور اماں کے پاس جا بیٹھا جو روٹی کے
نوالے پتلی سی دال میں ڈبو کر نگل رہی تھی ۔اماں مجھے کچھ روپے چاہیے ۔ماں
کا نوالہ ہاتھ میں ہی رہ گیا ۔کیوں؟کاہے؟سوال پہ سوال۔اماں بڑی دھانسو فلم
لگی ہے سنیما میں اچھن اور سارے دوست جارہے ۔اماں سو روپیہ ہی تو مانگ
رہا۔انور نے منت بھرے لہجے میں کہا۔اماں کو چپ لگ گئی ۔ارے بھیا یہاں روٹی
کے لالے پڑے اور تم ہو کے کہ ذرا پروا نہیں باپ کا ہاتھ کاہے نہیں بٹاتے ۔وہ
بھی سکھ کا سانس لے لیویں ۔اے میاں پرائے چھوکرے کو روج کا پچاس دیویں ہیں
۔تم جاؤ تو کیا وہ بچے گا نا ہی؟ پر بھیا تمہیں کیا باپو مرے یا جیے تمکو
تو اپنی پھلموں سے اور سیر سپٹوں سے کہاں فرصت۔بڑی اولاد ہو کوئی دھیان
کریو ۔پر ہماری قسمت ایسی بھلی کہاں۔اماں کی اس دندان شکن تقریر نے اس کا
موڈ خراب کردیا۔وہ تو رات سے ہی فلم دیکھنے کے لیے بے قرار تھا فلم بھی تو
کرشمہ کپور کی تھی۔اچھن نے کچھ ایسی ہزرہ سرائی کی کہ وہ خود کو عامر خان
ہی سمجھ رہا تھا مگر اماں کے کھرے جواب نے تو آتش شوق پہ گھڑوں پانی پھیر
دیا۔وہ غصے سے باہر نکل آیا بے مقصد چہل قدمی کرتا ہوا سڑک پہ آ نکلا ۔سامنے
اس کے ابا کی دکان تھی وہ ایک گاڑی کے نیچے لیٹا تھا اور اس کا شاگرد اسے
اوزار دے رہا تھا۔انور نظر بچا کر دوسری طرف مڑ گیا ۔مبادا ابا کی نظر ہی
نہ پڑ جائےکان لپیٹے وہ گلی میں آگیا اور پان کی دکان کا رخ کیا جہاں اچھن
ڈیرہ ڈالے بیٹھا تھا اسے دیکھ کر کھل اٹھا ابے کہاں تھا تو ؟ کب سے تیری
راہ دیکھ رہا ہوں اور شکل پہ بارہ کیوں بج رہے۔اچھن نے اسے غور سے دیکھا۔
کچھ نہیں یار اماں نے پیسے مانگنے پہ اتنی باتیں سنا دیں کہ پوچھو مت۔وہ
منھ لٹکائے بولا ۔ہاہاہاہہا ارے تیرا یار زندہ ہے ابھی چل موڈ ٹھیک کر تجھے
ملواتا ہوں کسی سے چل ۔اچھن نے دائیں آنکھ خباثت سے دباتے ہوئے کہا ۔دونوں
ایک طرف چل دیے۔
اچھن اسے لے کر بس اسٹاپ کی طرف چل پڑا ۔بس گلشن اقبال کے اسٹاپ پہ رکی تو
اس نے انور کا بازو تھاما اور نیچے اتر آیا ۔انور نے کئی بار کچھ بولنے کے
لیے منھ کھولا مگر اچھن نے اسے چپ کروا دیا۔کچھ دیر میں وہ ڈی بلاک فائیو
میں کھڑے تھے۔اچھن نے ایک بڑی سی کوٹھی کی بیل پہ ہاتھ رکھا کچھ دیر بعد
گیٹ پہ بنی چھوٹی سی کھڑکی کھلی اور ایک شخص نے باہر جھانکا کس سے ملنا ہے؟
وہ بابا صاحب سے کہو اچھن آیا ہے۔پانچ منٹ بعد گیٹ کھل گیا آؤ کی آواز کے
ساتھ اس نے انور کا ہاتھ تھاما اور اندر داخل ہوا ۔ایک بڑے سے ڈرائنگ روم
میں ایک با رعب سی شخصیت براجمان تھی۔اچھن نے بڑی عقیدت سے سلام کیا اور
پھر ان کے کان میں کھسر۔پھسر کرنے لگا۔بابا صاحب نے مونچھوں کو تاؤ دیا اور
انور سے مخاطب ہوئے۔ھھم نوکری کرو گے بیس ہزار مہینا دیں گے۔ انور کا منھ
کھلے کا کھلا رہ گیا اور سانس رکنے لگی بب بیس ہزار مہینہ۔ ۔ ۔ اس نے
پھنسی۔پھنسی آواز نے کہا ۔
ہاں اچھا کام کرو گے۔تو۔مذید ترقی ملے گی۔کام کی تفصیل تمہیں اچھن بتا دے
گا اور ہاں یہ۔لو پہلی تنخواہ ایڈوانس انہوں نے نوٹوں کی ایک گڈی اس کی طرف
اچھالی۔اب تم جا سکتے ہو۔
انور کی آنکھیں پیسے دیکھ کر چمک گئیں اتنے پیسے اکٹھے اس کے باپ نے بھی نہ
دیکھے تھے۔اس نے پیسے جیب میں ڈالتے ہوئے شکریہ کہا اور اچھن کے ساتھ باہر
نکل آیا۔دولت کی چمک تو اچھے اچھوں کی نگاہوں کو خیرہ کر دیتی ہے وہ پھر
عمر بھر چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو ترسے لوگ تھے ۔گھر میں اس نے ابا کو بتایا
کہ اس کی نوکری لگ گئی ہے ۔بھولے ماں باپ کی تو خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔رفتہ
رفتہ حالات بدلنے لگے ۔کام کے بارے میں انوربس اتنا ہی جانتا تھا کہ اسے
ڈرائیور کے ساتھ ہفتے میں تین دفعہ بدین اور کشمور کی طرف جانا ہوتا اور
کچھ بند پیٹیوں میں سامان لایا جاتا اور گاڑی کو انجانے راستوں سے لایا
جاتا جہاں چیک پوسٹ نہ ہو ۔انور نے ایک دفعہ ڈرتے ڈرتے ڈرائیور گل خان سے
اس بابت دریافت کیا تو اس نے کرخت لہجے میں کہا کہ وہ اپنے کام سے کام
رکھے۔نتیجتاَ وہ خاموش ہو گیا۔پیسے کی ریل پیل نے گھر کا نقشہ ہی بدل دیا
انور نے ابا کو مین مارکیٹ میں دکان لے دی ۔ تین ملازم کام کرتے تھے جبکہ
ابا اب صرف ان کی نگرانی کرتا۔بہن بھائی اچھے سکولوں میں پڑھنے لگے۔گھر پکا
ہو گیا اور تین کمرے اوپری منزل پہ بن گئے۔۔اماں کو اب اس کے لیے لڑکی کی
تلاش تھی آخر کماؤ پوت تھا۔شام کو وہ بیٹھک میں لیٹا تھا کہ اچھن آگیا ۔انور
بابا صاحب نے یاد کیا ہے ضروری کام سے ہم لاہور جا رہے ہیں۔ہائیں لاہور
کیوں؟اس نے اٹھتے ہوئے کہا ۔ابے سوال کرنے کی اجازت نہیں تیاری پکڑ ۔اگلے
دن وہ دونوں لاہور بس اسٹینڈ پہ اترے ۔ان کا استقبال ایک آدمی نے کیا جسے
اچھن نیاز بھائی کہہ کر مخاطب کر رہا تھا۔کچھ دیر کے بعد نیاز بھائی نے۔ایک
چھوٹا سا بیگ ان کے حوالے کیا اور ہاتھ ملا کر رخصت ہو گیا ۔چل یار آئے ہیں
تو داتا دربار پہ سلام کرتے چلیں ۔انور نے سر ہلا دیا ۔بیگ تھامے دونوں
مزار کے احاطے میں داخل ہوئے ۔فاتحہ خوانی کے بعد اچھن کو باتھ روم کی حاجت
ہوئی اس نے بیگ انور کو تھمایا اور باتھ روم کی طرف بڑھ گیا اس کی واپسی
تقریبأ دس منٹ تک ہوئی انور کو اشارہ کیا وہ اس کے پاس آگیا اچھن نے بیگ
اس سے لے لیا اور باتیں کرتے کرتے باہر آ گئے ۔اچھن کے انداز میں عجلت تھی
باہر آکر اچھن نے ٹیکسی روکی اور اسے اسٹیشن چلنے کا کہا۔۔۔انور نے کافی
دیر بعد غور کیا کہ بیگ اچھن کے پاس نہیں ہے اس نے۔یاد کروانا چاہا مگر
اچھن نے سنی ان سنی کردی اور ہاتھ دبا کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ ابھی
وہ اسٹیشن تک پہنچے تھے کہ فضا زور دار دھماکے سے گونج اٹھی۔ٹیکسی ہلکی سی
ڈگمگائی۔ڈرائیور نے اللہ کی پناہ مانگی اور پریشانی سے بولا اللہ خیر کرے
کوئی دھماکہ ہوا ہے۔انور گویا ایک پل میں حقیقت تک پہنچ گیا اس نے اچھن کو
شکایتی نظروں سے دیکھا اچھن نے نظریں چرا لیں۔اگلے دن شام کو وہ گھر پہنچے
تو گل خان ان کا منتظر تھا ایک بریف کیس تھما کر کچھ کہے سنے بغیر یہ جا وہ
جا۔اچھن نے بریف کیس کھولا تو ایک لاکھ روپے تھے اچھن نے گن کر پچاس ہزار
انور کو تھمائے اور پچاس خود رکھے ۔
محرم الحرام کا مہینہ شروع ہو گیا تھا ۔مختلف جگہوں اور امام بارگاہوں میں
مجالس کا اہتمام ہو رہا تھا ۔حکومت بھی خاص نگرانی کر رہی تھی ۔ایسے میں
اسے خاص آرڈر موصول ہوئے ۔۔امام بارگاہ کو نشانہ بنانے کے لیے بارودی مواد
فراہم کیا گیا۔اسے باقاعدہ پلاننگ کے ذریعے اندر پہنچا دیا گیا اسے بارودی
مواد نصب کر کے باہر آجانا تھا ۔مگر جونہی وہ اپنا کام نبٹا کر پلٹا اسے
کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی وہ ایک طرف دبک گیا آنے والے کو کسی چیز کی
تلاش تھی ساتھ ہی کچھ لوگ اور داخل ہوئے ۔گنبد کے کھوکھلے حصے میں چھپے
انور کی نظریں اپنی گھڑی پہ تھیں وقت کم تھا مگر وہ چوہے دان میں بری طرح
پھنس چکا تھا اندر باہر دونوں طرف موت تھی۔اسی لمحے اس کا ضمیر جاگا اس کا
شدت سے۔جی چاھا کہ وہ یہ سب روک لے۔اس نے جلدی سے بم سے تاریں الگ کرنا
چاہیں مگر اس سے۔قبل ہی ایک دھماکہ ہوا اس سب لرز گیا انور کی آخری چیخ
باہر کی آہ و بکا میں دم توڑ چکی تھی۔ |