ایک صاب نے شادی کے لئےبہت ہی حسین و جمیل اور خلیق خاتون
کا انتخاب کیا،شادی کے بعد دونوں میاں بیوی خوشی خوشی زندگی بسر کرنے لگے،
خوش خرم اور بڑی بااعتماد خانہ داری تھی،قدرت کا کرشمہ دیکھئے، بیوی کسی
ایسی جِلدی بیماری میں مبتلا ہوگئی کہ اس کی رنگت پھیکی پڑ گئی،چمڑا بالکل
خراب ہوگیا، شوہر سفر میں تھا،واپسی میں اسے روڈ حادثہ ہوگیا، جس سے انہیں
معمولی خراشیں آئیں اور بینائی بھی ختم ہوگئی،گھر پہنچا، بیوی نے خوب خدمت
کی،صحتیاب ہوگیا،لیکن نظر بحال نہیں ہوئی،بیوی اس کی خدمت کرتی،دونوں حسبِ
سابق خوشی کی زندگی گزار رہے تھے،بیوی پھر بھی خوش تھی کہ میری رونق اگر
نہیں رہی تو کیا ہوا،اسے تو کچھ نظر نہیں آتا، آخر کار وہ اُس بیماری سے
جانبر نہ ہو سکی اور مرگئی،شوہر نے اس کی تجھیز وتکفین کرائی ،رسومات ادا
کئے، پھر کچھ دن بعد باہر ملک جانے لگا، تو کسی نے اُن سے کہا کہ آپ کو نظر
نہیں آتا ، اس حال میں آپ کوسفر نہیں کرنا چاہیئے،تو اُس نے کہا کہ میں تو
ٹھیک ہوں ،یہ تو میں نے اپنی بیوی کا دل رکھنے کے لئے اپنے آپ کو اندھا
بنایاتھا کہ اسے اپنے حسن وجمال کے جانے کا احساس نہ ہو اور ساتھ ہی سامنے
والے کو جتانے کے لئے مختلف چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:یہ کرسی ہے،
وہ جگ ہے،وہ کھڑکی ہے،وہ۔۔۔و۔۔۔و۔۔۔
تو ہمارے معاشرے میں ایسے پاکیزہ دل ودماغ اور إحساسات وجذبات کے لوگ بھی
ہیں ،جن کی کچھ ادائیں دوسروں کے لئے نمونہ بن جاتی ہیں،کچھ ایسے بھی ہوتے
ہیں کہ جن کی خود زندگی تو اجیرن ہوتی ہی ہے ، ساتھ والوں کا جینا دو بھر
کردیتے ہیں،آئیےخوشحال اور شاہانہ زندگی کے کچھ گُر سیکھتے ہیں:
ہر کوئی دنیا میں سکون،اطمینان اور راحت کی تلاش میں ہے،ڈیپریشن،ٹینشن اور
اضطراب سے ہر شخص دوربھاگنا چاہتاہے،اس برق رفتار دور میں جینا دو بھر
ہوگیاہے،گویا سب کے سب میراتھن ریس میں لگے ہوئےہیں،بلکہ اُس سے بھی زیادہ
کیونکہ زمانے کی اس دوڑ میں کچھ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی دُھن میں تو
کچھ ایک دوسرے کو گرانے کے چکّر میں ہیں،مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک
پوری دنیا مادّیت کے مقابلاتی میدانوں، سڑکوں ، شاہراہوں ،مارکیٹوں اور
شہروں میں گامزن ہے۔
ایسے میں سکون غارت ہوگیاہے،جس کی جستجو اور طلب میں اضافہ ہورہاہے،حالانکہ
وہ بہت قریب ہے،دکھائی اسلئے نہیں دے رہا کہ وہ سکون ہے شور وھنگامہ
نہیں،بس ذرہ سی توجُّہ سے وہ پایا جا سکتاہے،اپنا لائف سٹائل اپنی سوچ سے
شاہانہ بنائیے،سکون ہی سکون ہوگا۔۔۔۔۔سب سے پہلے آپ یہ سوچنا شروع کریں کہ
ہماری یہ زندگی ۱۹ہے یہ کبھی ۲۰نہیں ہوگی،یہاں کوئی نہیں جو پورا ہو،ہر شے
ناقص اور ہر کسی میں نقص ہے،یہاں سب مسافر ہیں ،بقدرِ ضرورتِ شدیدہ ہر ایک
کے پاس سامانِ سفر ہے،حاجتیں بھی سب کے ساتھ لگی ہوئی ہیں، جن کے پاس کچھ
مال ومتاع ہے وہ صرف دورانِ سفر کار آمد ہے،سفر کے اختتام پر جس منزل پے
جاتاہے ،وہاں کسی قسم کے سامان یا مال وزر لے جانے کی اجازت نہیں ہے،آخر
کار سب نے یک جیسا ہوناہے۔
اب اگر اس سفر میں آپ کو کوئی تکلیف پہنچے ،یا کوئی پرابلم ہوجائے،تو آپ
سمجھ لیجئے وقتی معاملہ ہےٹل جائےگا،آپ کسی کے ضرر سے یا طعنوں سے متأثر نہ
ہو،اس لئے کہ آپ حالتِ سفر میں ہر کسی کو خوش نہیں رکھ سکتے،آپ اپنی فکر
کریں،خوش رہیں،ہنستے مسکراتے رہیں،دوسروں کو ہنسائے،چیں بجبیں نہ رہیں،تنگ
دل نہ بنیں،سب کو اپنا سمجھیں،آپ کو کوئی اپنا سمجھے یا نہ سمجھے،بدلے
وَدلے کے چکر میں نہ رہیں،آپ دوسروں کی خوشیوں اور مسکراہٹوں کا سبب
بنیں،خیر کا سر چشمہ بنیں،آپ کا فیض عام وتام ہو،لوگوں سے داد یا شکریئے کی
توقع۔ بھی چھوڑیں،اپنا کام کیئے جائیں،اپنی کوتاہیوں ،لغزشوں اور نقائص پر
نظر رکھیں،مرحلہ وار اپنی اصلاح خود کیا کیجئے۔
کسی کے پاس کوئی نعمت ہو یا کوئی رو بترقی ہو تو اس کے لئے برکت کی دُعاء
کیا کریں،شاید اس کے بعد آپ کا نمبرہو،الله کی رحمت سے جو مایوس نہیں ہوتے،
اُنہیں بہت کچھ مل جاتاہے،بعض اوقات نعمتوں میں آسمانی تقسیم کا فارمولا
کار فرما ہوتاہے،کسی کے پاس کچھ ہے تو کسی کے پاس کچھ اور ہے،خواہ مخواہ
اپنے کو پریشان نہ کیجئے،جس کے پاس جتنا زیادہ اُتناہی حساب کتاب کا معاملہ
بھی تو ہے،علم ہے، یا مال ، یااولاد ومناصب تو آگے کچھ فرشتے آڈٹ بھی تو
کرتے ہیں،زیادہ ہے تو اس پر شکر ادا کریں ،کم ہے تو اس پر بھی الله کا
تَشکُّر کریں کہ آسانی سے جان چھوٹے گی،دنیا اور اس کا مال ومتاع آخرت کے
مقابلے میں بہت کم ہے،زائل بھی ہے،ناقص بھی ہے ،تو اس پے بھروسہ کرناہی
فضول ہے۔
پھر یہ کہ دنیا کی زندگی بھی تو ہمیشہ کی نہیں ،تو اس کے غم وخوشی بھی نا
پائدار ،بس بقدرِ کفایت اس کے لئے کوشش کریں ،ہنستے مسکراتے ہوئے،دوسروں کے
حقوق کا خیال رکھاکریں،مزے کریں محسوسات میں ، کوئی آپ کی تنقیص کررہاہو
کرنے دے تیرا کیا بگاڑ لے گا، شاید وہ حاسد ہو، یا چغل خور ، یاجلیسی، اسے
یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ وہ غلطی پر ہے،کیونکہ آپ کے یہ بتانے سے بھی
اس کوئی فائدہ نہیں ہوگا،کہ حسد ، تنگ نظری ،چڑچڑاپن یا کسی دوسری بیماری
میں مبتلا ہے، جس کا علاج ہر جگہ اور ہر کوئی نہیں کرسکتا۔
کئی مرتبہ میں دیکھتاہوں کوئی بلاوجہ ہم پے تنقید کررہاہے، میں اس کے منہ
نہیں لگتا، کہ چلیں یہ بھی اپنی بھڑاس نکال لے،بے چارے کو تکلیف ہے،جاھل
جاھل ہی رہے گا جتنا بھی لکھ پڑھ لے،غبی غبی ہی رہے گا،یہ امراض ہیں جن کے
متعلق عربی میں کہتے ہیں کہ ان سے معالج اور دوا دینے والے بھی عاجز آگئے
ہیں۔
نا ممکنات اور محالات کے پیچھے نہ پڑیں، امکانات کی طلب ہو ، تو بہت کچھ مل
جائے گا،جو آپ کی قسمت میں ہے ،مل کے رہے گا،جو نہیں ہے، وہ ساری دنیا مل
کر بھی نہیں دے سکتی، تو پھر دنیا اور دنیاوالوں سے کیا خوش اور کیا ناراض
ہونا۔بس اپنی سی کوشش جاری رکھیں ، نتائج الله تعالی کے ہاتھ میں ہیں،
مناسب ہوگا تو دے دیگا ورنہ محنت کا اجر تو کہیں نہ گیا۔
کہتےہیں کہ شھد کی مکھی جب کسی جانور کو ڈس دیتی ہےتو اس کے بعد وہ مرجاتی
ہے ،یہ اس لئے کہ جو سوئی (چونچ)وہ کسی جسم میں ڈالتی ہے اس کا تعلق اس کے
معدے سے ہے،جہاں شھد بنتاہےاور اس میں شفاء ہے،ممکن ڈسنے سے مکھی کے جسم
میں کوئی ایسا وائرس چلا جائے ، جو شھد کو بھی متأثر کردے، اس لئے قدرتی
نظام کے تحت وہ مرجاتی ہے،کاش انسانوں میں بھی یہی فارمولا چلتا، کہ جو کسی
کو حسد،بغض یا اپنی کم ظرفی سے نقصان پہنچاتا ، یا ڈستا،وہ موذی مرجاتا،تو
بہتیروں کو عبرت کا موقع ملتا۔
حسن اخلاق کا مظاہرہ کیاکریں اور بادشاہوں کے مانند خوشی خوشی زندگی
انجوائے کریں،مشکلات میں بھی اپنے آپ کو ٹینشن میں ڈالیں،نہ ٹینشن سے
متعلقہ مواد دکھا کریں،اس سے آپ کے اضطراب میں مزید تیزی آئی گی،ایسے حالات
میں اپنے آپ کو تسلی دیاکریں،تسلی اور خوشی کے اسباب تلاش کیا کریں ،یوں آ
پ ایک کامیاب وکامران نظر آئیں گے ۔بس مزاج میں فرق لائیے، احساسات میں نیک
شگون بن جائیے،ہر طرف سے خوش وخرم بن جائیں گے، ذرہ تجربہ تو کریں ۔
استدراک :کچھ لوگ ہماری اس بحث سے مستثنی ہیں، شعور واحساس اور انسانیت کی
اعلی قدروں سے ناشناس کبھی بھی سکون وچین نہیں پاسکتے، لہذا وہ اس کی کوشش
بھی نہ کریں ، اپنی کوڑ مغزی ہی میں جیئں اور مریں۔ |