عدل، احسان اور صلہ رحمی: سورۃ النحل آیت 90 کی روشنی میں ایک جامع پیغام
(Iftikhar Ahmed, Karachi)
عدل، احسان اور صلہ رحمی: سورۃ النحل آیت 90 کی روشنی میں ایک جامع پیغام
سورۃ النحل کی مندرجہ ذیل آیت نمبر 90 قرآن مجید کی ان آیات میں سے ہے جو اخلاقی تعلیمات کا نچوڑ پیش کرتی ہے۔ اس آیت کو اکثر جمعہ کے خطبے میں پڑھا جاتا ہے، کیونکہ یہ انسان کو معاشرتی، اخلاقی اور روحانی سطح پر بہترین کردار اپنانے کی دعوت دیتی ہے
قرآنی آیت: "اِنَّ اللّٰهَ يَأۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَإِيتَآىِٕ ذِى الۡقُرۡبٰى وَيَنۡهٰى عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنكَرِ وَالۡبَغۡىِؕ يَعِظُكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ" (سورۃ النحل، آیت 90)
ترجمہ: "بے شک اللہ انصاف کا، بھلائی کرنے کا، اور قرابت داروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، برے کاموں اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔"
قرآن مجید میں بہت سی آیات انسان کو اخلاق، عدل، اور نیکی کا درس دیتی ہیں، لیکن سورۃ النحل کی یہ آیت اپنی جامعیت، وسعت، اور ہمہ گیریت کی وجہ سے منفرد مقام رکھتی ہے۔ یہ آیت گویا اسلام کا اخلاقی منشور ہے جو نہ صرف فرد کی اصلاح کرتا ہے بلکہ معاشرے کو بھی ایک عادلانہ، پرامن اور مہربان نظام عطا کرتا ہے۔
آیت کا تین بنیادی احکام پر مبنی مثبت پیغام
1. عدل (انصاف)
عدل وہ ستون ہے جس پر معاشرے کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ہر حال میں انصاف کریں، خواہ وہ ہمارے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
عدل سے معاشرہ گلزار بنتا ہے ظلم سے انسان خوار بنتا ہے
2. احسان (بھلائی و حسن سلوک)
احسان کا مطلب ہے کہ کسی کے ساتھ بھلائی اس درجہ کی جائے کہ وہ جواب میں کچھ نہ دے، تب بھی احسان کرنے والا خوش ہو۔ اللہ کے بندے وہ ہیں جو دوسروں کے کام آئیں۔
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر خدا مہرباں ہو گا عرشِ بریں پر
3. ایتاءِ ذی القربیٰ (رشتہ داروں کو ان کا حق دینا)
اسلام رشتہ داروں سے حسن سلوک اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ آج کے دور میں جہاں خونی رشتے بھی بے قیمت ہو گئے ہیں، اس حکمِ الٰہی پر عمل کرنا ازحد ضروری ہے۔
وہ رشتہ ہی کیا جو بچھڑ جائے دل سے نبھاؤ تو رشتے خدا کے لیے
آیت کی تین ممانعتیں: جن سے روکا گیا ہے
1. فحشاء (بے حیائی)
آج کا میڈیا، انٹرنیٹ، اور معاشرتی رویے فحاشی کو فروغ دے رہے ہیں۔ قرآن فحشاء کو معاشرے کے بگاڑ کی جڑ قرار دیتا ہے۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ نگاہ، زبان، لباس اور افکار میں پاکیزگی اپنائے۔ اور فحش باتوں سے دور رہے اور اپنی نظروں کی حفاظت کرے ـ
2. منکر (برائی)
منکر ہر وہ عمل ہے جو دین اور عقل کے خلاف ہو۔ جیسے جھوٹ، چغلی، رشوت، سود، بددیانتی وغیرہ۔ مسلمان کا فرض ہے کہ منکر کو پہچانے، خود بچے اور دوسروں کو بھی بچائے۔
جھوٹ سے بچو کہ جھوٹ نفاق کی راہ ہے سچائی وہ چراغ ہے جو اندھیروں کو مٹا دے
3. بغی (سرکشی و زیادتی)
بغی کا مطلب ہے ظلم اور حدود سے تجاوز۔ آج دنیا طاقت کے نشے میں چور افراد، ادارے اور قومیں کمزوروں پر ظلم کر رہی ہیں۔ اسلام ظلم کے ہر پہلو کو مسترد کرتا ہے۔
موجودہ دور کے مسلمان اس آیت پر کیسے عمل کریں؟
1. انفرادی سطح پر:
اپنے معاملات میں عدل اپنائیں، جھوٹ، حسد اور غیبت سے بچیں۔
بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت، اور سب کے ساتھ نرمی اور خلوص کا برتاؤ رکھیں۔
اپنے رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات بہتر بنائیں، قطع تعلقی سے بچیں۔
2. خاندانی سطح پر:
گھر میں فحش مواد اور منکر اعمال کو روکیں۔
بچوں کو دینی تربیت، حسن سلوک، اور سچائی کی تعلیم دیں۔
بڑوں کے ساتھ حسن سلوک اور خدمت کو اپنا معمول بنائیں۔
3. معاشرتی سطح پر:
مظلوم کا ساتھ دیں، ظالم کے خلاف آواز بلند کریں۔
معاشرتی فلاح کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
سوشل میڈیا پر اخلاقی مواد پھیلائیں اور فحاشی و نفرت سے دور رہیں۔
4. تعلیمی و پیشہ ورانہ میدان میں:
تعلیمی ادارے اسلامی اخلاق کو نصاب کا حصہ بنائیں۔
دفاتر میں ایمانداری، شفافیت، اور عدل پر مبنی کلچر پروان چڑھائیں۔
نتیجہ
اسلام ایک ایسا دین ہے جو نہ صرف اللہ سے تعلق مضبوط کرتا ہے بلکہ بندوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے۔ سورۃ النحل کی آیت 90 ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر بہترین اخلاقی کردار اپنانے کی دعوت دیتی ہے۔ اگر ہر مسلمان اس ایک آیت پر سنجیدگی سے تدبر اور عمل کرے تو دنیا امن، محبت، اور فلاح کا گہوارہ بن سکتی ہے۔
خُلقِ محمدیؐ ہو دلوں میں رواں تب جا کے کہلائے مسلمان یہاں
خدا کے بندے وہی، جو بندوں کے کام آئیں انسان وہی ہیں جو انسانوں کے کام آئیں
|
|