پاکستان کا کیا بنے گا یہ خدا ہی
بہتر جانتا ہے کیونکہ پاکستان کے رہنماؤں نے کبھی بھی اپنے عوام کو چین سے
بیٹھنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ عوام ہر اعتبار سے پریشان حال اور بے بس ہے۔
کبھی وہ رنج و الم سے دو چار ہو رہے ہیں تو کبھی انھیں ذلت و رسوائی کا
سامنا ہے۔ دوسری جانب قدرتی آفات سے اب تک پاکستان اُبھر نہیں پایا ہے۔
پاکستان میں کئی زیر آب علاقے اب بھی حکومت کی مدد سے محروم ہیں۔ عید جیسا
تہوار بھی مایوسیوں اور حسرتوں میں گزر گیا۔ عارضی ٹینٹوں میں رہنے والے
بچے، بوڑھے اور بیمار اب تک حکومت کی جانب آس لگائے بیٹھے ہیں۔ ایک رپورٹ
کے مطابق ان خیموں میں ہزاروں حاملہ عورتیں ہیں جو بنیادی اور ضروری طبی
امداد نہیں حاصل کر پانے کی وجہ سے قابل رحم حالات میں ہیں۔ یہ وہ حالات
ہیں جن پر آسانی سے قابو بھی نہیں پایا جا سکتا لیکن ان پر سنجیدگی سے غور
تو کیا جاسکتا ہے۔ لیکن حکومت سنجیدگی اپنائے بھی تو کیسے ہر طرف افراتفری
کا ماحول ہے اور خزانہ خالی ہے۔ ادھر امریکہ نے یہ کہا کہ پاکستان امدادی
بنیادی انفراسٹکچر پر خود اپنے وسائل کا استعمال کرے، امداد کی رقوم اس کے
لیے استعمال نہ کی جائیں۔ دنیا بھر سے مل رہی امداد کی رقم بھی تباہی کی
مناسبت سے کم ہے۔ باوجود اس کے پاکستان اگر اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا تو اسے
ان حالات سے مقابلہ کرنے میں آسانی ہوتی لیکن پاکستانی حکومت تو خود اس طرح
مسائل میں گھری ہوئی ہے کہ اس کے پاس خود سنبھلنے کا موقع نہیں ہے۔ ان
حالات میں صدر مملکت آصف زرداری پاکستان پر ڈرون حملے کی مدافعت میں لگے
ہوئے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ان حملوں میں اتفاقیہ اموات سے امریکی
پریشان ہوتے ہیں ہمیں کوئی پریشانی نہیں۔ ان کا یہ بیان ایک امریکی صحافی
وڈ ورڈ کی رپورٹ میں شائع ہوا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صدر کی
سوچ اپنے ملک کے عوام کے لیے کیا ہے۔ اس سے پاکستانی عوام میں ایک مخالفت
کی لہر پید اہوگئی ہے۔
اس پر ظلم یہ ہے کہ امریکہ کی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اسی سال کی
سزا سنا کر پاکستان کو ایک بار پھر احتجاج کا مرکز بنا دیا ہے۔ عوام اب
ساری باتیں بھول کر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے سڑکوں پر اتر آئی ہے۔ لوگ
اسے پاکستان کی ذلت اور رسوائی پر محمول کر رہے ہیں۔ اور یہ کہہ رہے ہیں کہ
امریکہ کے ساتھ اتحادی ہونے کا یہ تحفہ ہے کہ ایک پاکستانی شہری کو اتنی
بڑا سزا سنائی گئی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری
حاصل کی اور مبینہ طور پر 30مارچ 2003ء کو کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے
اپنے تین بچوں کے ہمراہ لاپتہ ہوگئیں۔ لیکن ان کے گھر کے افراد کی تلاش و
جستجو کی تمام کوششوں کے باوجود پاکستانی حکومت نے یہ خبر نہیں دی کہ وہ
کہاں ہیں۔ یہ تو ایک برطانوی صحافی نے بگرام جیل میں ان کی موجودگی کا
انکشاف کیا تھا جہاں سے انہیں 6اگست 2008ء کو امریکہ منتقل کر دیا گیا اور
19جنوری 2010ء کو ان کے خلاف مقدمات پر عدالتی کاروائی شروع ہوئی۔ اب جیوری
کے ارکان نے انہیں مجرم قرار دیا اور عدالت نے 86سال کی سزائے قید سنا دی۔
اس واقعے پر پاکستان کی سیاسی شخصیات اور پارٹیوں نے اس واقعے کی شدید مذمت
کی ہے۔ اور ہر جانب احتجاج کی صدا گونج رہی ہے۔۔ اگر اس نئے احتجاج نے شدت
اختیار کر لیا تو حکومت کے لیے ایک اور مسئلہ سامنے ہوگا کہ وہ احتجاج کو
امن میں تبدیل کرے یا ملک میں سیلاب سے پریشان حال عوام کے لیے فلاحی کام
کرے۔ |